تیرے جانے کے بعد

محمد بلال فیاض

وہ کھڑکی سے اپنے ویران اور اُجڑے آنگن کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں پہلے کبھی بہت رونق ہوا کرتی تھی۔ برآمدے کے دیوہیکل ستون سے لپٹی منی پلانٹ سوکھ چکی تھی۔ صحن کے کونے میں لگا انار کا درخت جو کسی زمانے میں بہت ہرا بھرا اور سرخ سرخ اناروں سے لدا ہوتا تھا، اب سوکھ کر جھاڑی ہو گیا تھا۔ ان جھاڑیوں میں سے ایک دو سوکھے انار جھانک رہے تھے۔ صحن کا لال فرش گرد سے اٹا ہوا تھا۔ اچانک صحن کے کونے سے ایک گلہڑی نکلی، ویران گھر کے درودیوار کو گھور کر دیکھااور پھر درخت پر چڑھ کر سوکھے انار کترنے لگی۔ اچانک ہوا کا ایک برق رفتار جھونکا آیا اور منی پلانٹ کے زرد پتے گرد آلود فرش پر بکھر گئے۔
اس کے جسم پر کپکپی تاری ہو گئی، اس نے کھر کی کے دونوں پٹ بند کر دئے اور پرانے خستہ حال پلنگ پر بیٹھ گیا۔ نائٹ بلب کی زرد روشنی کمرے میں عجیب سے وحشت پیدا کر رہی تھی۔ ہر شے نے اداسی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ اندر باہر ہر طرف تنہائی ہی تنہائی تھی۔
ــ’’ٹپ۔۔۔ ٹپ ۔۔۔ ٹپ۔۔۔‘ ــ ـــ‘ــ باتھ روم کی ڈھیلی ٹونٹی سے ٹپکتے پانی کی آواز اسکے دماغ پر ہتھوڑے کی مانند برس رہی تھی۔ وہ جیسے ہی ٹونٹی بند کرنے کے لئے اُٹھا تو آس پاس کوئی باز گشت ہوئی:
’’احسانـ۔۔۔ !باتھ روم کی ٹونٹی ٹھیک طرح سے بند کر دو۔ یہ آواز میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیـ۔‘‘
اُس نے مڑ کر اپنے پلنگ کی طرف دیکھا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اْس کی ماں پلنگ پر پری کراہ رہی ہو۔ اس کا دماغ دس سال پیچھے چلا گیا۔
ہاں، یہی کمرہ تھا، یہی پلنگ تھا، شائید وقت بھی یہی تھا، اور اس کی ماں در د سے کراہ رہی تھی۔ یہ منظر جب پوری جزئیات کے ساتھ اس کے ذہن میں گھوما تا بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ ٹونٹی بند کر کے واپس پلٹا تو کمرے میں گھٹن کا احساس غالب آنے لگا۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں سے کھڑکی کھولی تو اس وحشت زدہ کمرے میں پھر بازگشت گونجی۔
ــ’’احسانـ! کھڑکی کھول دو میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘
ہوا کا ایک برفیلا جھونکا اس کے بدن سے ٹکرایا اور وہ کانپ کر رہ گیا۔ کھڑکی بند کر کے واپس پلٹا تو ایک بار پھر بازگشت ہوئی۔
’’احسان!کھڑکی بند کر دو مجھے سردی لگ رہی ہے۔ ‘ ‘
’’اماں! کیا پریشانی ہے آپ کو۔ کھڑکی کھول دو تو سردی لگنے لگتی ہے ، بند کردو تو دم گھٹنے لگتا ہے، پلیز ! آرام سے سو جائیں اور مجھے بھی سونے دیں۔‘‘ احسان اسم بامسمیٰ تھا۔اس وقت اُسے اپنی ماں سے کہے وہ الفاظ یاد آنے لگے تھے۔
اُس نے ایک نہایت ہی پرانا ریڈیو سیٹ اُٹھایا جو اس کی بیوی بچوں کے بعد اس کی تنہائی کم کرنے کا واحد سہارا تھا۔ جیسے ہی ریڈیو کا بٹن آن کیا تو رحیم شاہ کی آواز کمرے میں سکوت کا پردہ چاک کرنے لگی۔
کبھی میں دیکھوں․․․
کبھی میں سوچوں․․․
یہ دنیا کیا کچھ بھی نہیں ہے․․․
توجو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے․․․
تیرے بنا ماں کچھ بھی نہیں ہے․․․
اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے، دل کٹا جا رہا تھا۔ دماغ ایک بار پھر دس سال پیچھے چلا گیا۔
ـ’’احسان․․․․․احسان․․․․ احسان بیٹا․․․․․․!۔‘‘ نقاہت بھری آواز پر وہ جھنجھلا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’اماں کو پتا نہیں کیا پریشانی ہے ، نہ خود چین سے سوتی ہیں نہ دوسروں کو چین سے سونے دیتی ہیں۔‘ ‘ اس کی بیوی نے موندی موندی آنکھیں کھول کر کرخت لہجے میں کہا تھا۔
’’میں دیکھتا ہوں کیا بات ہے تم سو جاؤ۔ ‘ ‘ وہ کہہ کر اُٹھا اور اماں کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’جی اماں! کیا بات ہے۔‘‘ اُس نے بیزاری سے پوچھا۔
’’بیٹا! سر درد سے پھٹا جا رہا ہے کوئی دوائی وغیرہ دے دو۔‘‘ اماں نے کراہتے ہوئے کہا تھا۔
’’یہ لیں اماں۔!‘ ‘ اس نے دراز سے دوا نکالی، ٹیبل پر پڑے جگ میں سے پانی کا گلاس بھرا اور اماں کی طرف بڑھا دیا۔
اماں دوا کھا کر دوبارہ لیٹ گئی۔ وہ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دوبارہ آواز آئی:
’’احسان! احسان․․․!‘‘
’’توبہ! کیا مصیبت ہے ابھی تو دوا کِھلا کر آیا تھا۔‘ ‘ وہ بڑبڑاتا ہوا اُٹھا۔
’’میری مانیں تو دو چار نیند کی گولیاں کِھلا دیں اماں کو تاکہ وہ سکون سے سو جائیں اور ہمیں بھی سونیں دیں۔
اور ویسے بھی آپ کو صبح جلدی آفس جانا ہوتا ہے۔ جب نیند ہی پوری نہیں ہو گی تو صبح آنکھ کیسے کھلے گی۔‘‘ بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر رسان سے مشورہ دیا۔
’’اچھا دیکھتا ہوں ـ۔ ‘ ‘ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
’’اب کیا ہو گیا اماں۔!‘‘ اُس نے سختی سے پوچھا تھا۔ بیزاری عروج پر پہنچ گئی تھی۔
’’بیٹا !درد کم نہیں ہو رہا۔ آہ ․․․․․ ‘‘

’’تو اب میں کیا کر سکتا ہوں‘ دوا کھِلا تو دی ہے۔‘‘ جھنجلا کر اُس نے کہا ۔دراز سے نیند کی دو گولیاں نکال کر اماں کو کھِلا دیں۔
’’اماں! اب آرام سے سو جائیں اور مجھے بھی سونے دیں۔‘‘ اُس نے کرخت لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
صبح وہ اُٹھ کر حسبِ معمول ماں کے کمرے میں گیا ۔
’’اماں۔!‘‘ اُس نے بہت پیار سے اِنہیں پکارا لیکن پھر جیسے اُس کا دِل دھک سے رہ گیا۔
اماں اُس کی پکار سے بے نیاز ہونٹوں پر ایک جامد خاموشی لئے آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی۔ اُس کے چہرے پر پھیلی موت کی زردی اور سرد بے جان جسم نے جیسے اُسے ہلا کر رکھ دیا۔
’’اماں۔! ‘‘
’’اماں۔۔!! ‘‘ وہ بے اختیار چیخنے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سُن کے اُس کی بیوی ننگے پیر دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی اور یہاں کا منظر دیکھ کر وہ بھی ششدر رہ گئی۔
’’زینت میری ماں مر گئی۔ـ شائید وہ میری نیند کی گولیوں سے مر گئی۔‘‘ وہ جذباتی آواز میں چیخنے لگا۔
’’پاگل ہو گئے ہیں کیا؟ بھلا کوئی نیند کی دو گولیوں سے بھی کبھی مرا ہے۔ یہ تو اتفاق ہے۔ وہ بیمار بھی تو بہت تھیں۔ ‘‘
بیوی نے اُسے سمجھاتے ہوئے ساس کے چہرے کو چادر سے ڈھکا اور خود ڈاکٹر کو لینے بھاگی۔ ڈاکٹر نے بھی آ کر موت کی تصدیق کر دی۔
’’رات سوتے میں ان کا دِل بند ہو گیا تھا۔‘‘ ڈاکٹر کے بتانے کے باوجود احسان کو کسی پل قرار نہ آرہا تھا۔ وہ خود کو ماں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ یہ خیال بار بار اس کی روح کو کچوکے لگا رہا تھا کہ اس نے اپنی ماں کو نیند کی دو گولیاں نہ دی ہوتئیں تو شائید وہ بچ جاتیں۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا وہ طبعی موت مری تھیں لیکن احسان کو جیسے پچھتاوا ہر وقت ڈستا رہتا۔
ٓاُس کے دماغ نے اُس بات کا اتنا گہرا اثر لیا تھا کہ وہ جیسے ساری دنیا ، سارے رشتوں، ساری محبتوں سے کٹ کر صرف اپنے آپ تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ بس ایک ہی خیال اس کو ڈستا رہتا۔
’’ماں میں نے تجھے نیند کی گولیاں اس نیت سے تو نہیں دیں تھیں۔ میں تو چاہ رہا تھا کہ تو بھی سکون سے سو جائے اور میں بھی اپنی نیند پوری کر سکوں۔ اس لئے میں تجھ سے تلخ بھی ہو گیا تھا ماں۔‘‘ وہ رونے لگا۔
تو قاتل ہے اپنی ماں کا ۔ تو اس کے وجود سے بیزار تھا، وہ تیرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی، اب کیوں یاد کرتا ہے اُسے، کیوں روتا ہے۔ــ‘‘ اُس کے اندر سے آواز آئی تھی
سر پہ ہاتھ رکھو میری پیاری ماں․․․․ ․․․
جھولا․․․․․ ہاں․․․․․ جھولا․․․․․ ہو جھولا․․․․
ہو ماں مجھ کو جھلاؤ نا جھولا رے․․․․
جنت میری ہے پاؤں تیرے․․․․
کون ہے جو انکار کرے․․․․
میں نے جو کچھ کہا درگزر نہ کرو․․․․
اپنی ماں کو خفا عمر بھر نہ کرو․․․․
جھولا․․․․․․․․․․․․․․․․․․
رحیم شاہ کی آواز اس کے زخموں پر نمک کا کام کر رہی تھی۔ وہ جنونی انداز میں اپنا سر زور زور سے دیوار پر مارنے لگا۔
’’ماں مجھے معاف کر دے ، دیکھ آج میں کتنا اکیلا ہوں، مجھے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے، میرے بیوی بچے مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ وہ مجھے خبطی دیوانہ سمجھتے ہیں۔ دیکھ ماں ! مجھے میرے کئے کی سزا مل رہی ہے، مجھے اس عذاب سے نکال لے ماں!‘‘ اُس کے سر سے خون کے فوارے اُبل رہے تھا مگر وہ پھر بھی اپنا سر دیوارپر پٹخ رہا تھا۔ ’’ماں دیکھ تیرا بیٹا کس طرح تڑپ رہا ہے۔ ماں ! میں بہت تکلیف میں ہوں، آ مجھے سینے سے لگا لے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تو مجھے بچپن میں اپنی آغوش میں چھپا لیا کرتی تھی۔‘‘ دیوار اس کے خون سے سرخ ہوتی جارہی تھی۔ خون کی ایک لکیر دیوار سے ہوتی ہوئی فرش پر پھیل گئی۔ وہ بے حال ہو کر فرش پر گر گیا۔اُس کے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں کہ اگر کوئی سُنے تو کلیجہ پھٹ جائے اور پھر وہ چند لمحوں بعد ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔
۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔․۔
اﷲ اکبر ۔ اﷲ اکبر ۔
رات بیت چکی تھی، صبح کی آزانیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ اسکا بے جان لاشہ کمرے کے فرش پر پرا تھا۔ سر پر جا بجا زخموں کے نشان تھے۔ سفید بال خون سے جمے ہوئے تھے جن پر مکھیاں بھنبنا رہی تھیں۔ چیونٹیاں قطار در قطار اس کے بے جان وجود پر رینگ رہی تھیں اور اُسے کندھا دینے والا کوئی نہیں تھا۔(ختم شد)

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.