درون دل سے نکلا نوحہ

ادثات ،اموات اور حیات ایک دوسرے کے ساتھ باہم جڑے ہوئے اور لازم و ملزوم ہیں، انسان جتنا بھی کوشش کر لے احتیاطی تدابیر اختیار کرلے لیکن وہ تقدیر الٰہی سے نہیں بچ سکتا۔ دنیا سے ہر ذی روح نے جانا ہے اس کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے یہ قانون فطرت ہے جوپیدا ہوا ہے وہ مرکے رہے گا جو قائم ہوا ہے فنا ہوکے رہے گا۔اس قانون فطرت کا دنیا میں کسی بھی مذہب اور فکر کے ماننے والوں نے انکار نہیں کیا ہے البتہ فلسفہ موت و حیات میں کچھ نہ کچھ نظریاتی فرق ضرور پایا جاتا ہے ۔جہاں یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا سے جانا ہی ہے وہاں جانے والوں کے غم سے دل کی دنیا کا ویران اور احساسات و جذبات کا پریشان ہونا بھی فطری تقاضوں میں سے ہے ۔آقائے کائنات کے فرزند ابراہیمؓ جب دنیا فانی سے رخصت ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کی میت کو گود میں اٹھا یا ہوا ہے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہے ،صحابہ کرام کرامؓ نے دریافت کیا ۔یا رسول اللہ ﷺ آپ تو پیکر صبر و رضا ہیں اور آپ ﷺ نے ہمیشہ صبر کی تلقین کی پھر یہ آنسو کیسے ؟ آقاﷺ جواب دیتے ہیں کہ صبر یہ ہے زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکالی جائے جس سے اللہ کی ناشکری ظاہر ہو۔ یہ آنسوتو اللہ کی رحمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کے دل میں ڈال دی ہے ۔یہی رحمت ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر جانے والوں کی یاد میں آنسو بھی بہاتے ہیں ،انہیں یاد بھی کرتے ہیں اور ان کے لواحقین سے اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں ۔موت یا حادثہ کسی بھی بشر کا ہو اس کے لواحقین،دوستوں اور حلقہ احباب کے لیے ہمیشہ غمناک اور تکلیف دہ امر کی حیثیت رکھتا ہے ۔کسی عا م شخص کے مرنے سے شاید معاشرے کو اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کسی صاحب علم کے اٹھ جانے سے فرق پڑتا ہے کیونکہ اہل علم کے اٹھ جانے سے علم کا سلسلہ بھی رک جاتا ہے۔
جو صاحب علم ہوتا ہے وہی اہل قلم ہوتا ہے اور اہل قلم معاشرے کی آنکھوں کا کردار ادا کرتا ہے جو کچھ وہ معاشرتی زندگی میں اپنے اردگرد مشاہدہ کرتا ہے اسے لفظوں کی زبان سے بیان کردیتا ہے اور اس کے بیان کی روشنی میں کئی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔سال ,2017قلم قبیلے کے لیے کافی آزمائشیں لے کر وارد ہوا ۔سال کے شروع میں پنجابی کی معروف شاعرہ طاہرہ سرا ء ایک ہولناک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں شدید زخمی ہوکر ایک ماہ سے زائد عرصہ فیصل آباد کے سرکاری ہسپتال میں موت و حیا ت کی کشمکش میں مبتلا رہیں ، ان کی اخت صغیرہ سعدیہ صفدر سعدیؔ جو کہ خود بھی صاحبہ طرز شاعرہ ہیں ، ایک ماہ تک ہسپتال میں بہن کی صحت کے لیے دعائیں کرتی رہیں اور علاج کے لیے دوہائیاں دیتی رہیں،اللہ نے رحم کیا اور وہ کومے سے باہر آگئیں اور بتدریج روبصحت ہیں۔اسی سال کے شروع میں بابا جی اشفاق احمد کی شریکہ حیات ، نشانی اور داستان سرائے کی میزبان آپا بانو قدسیہ بھی اللہ کی رحمتوں کی مہمان بن گئیں۔میرے خیال میں ادبی دنیا کے غم اور سوگ کے لیے سال 2017میں بانو آپا کا سانحہ ارتحال ہی کچھ کم نہ تھا ،لیکن ماہ اپریل تو گویا قلم قبیلے کے لیے شہر الحزن کی حیثیت سے طلوع ہوا۔ ابھی اپریل کا پہلا ہی دن تھا جب پروفیسر رضیہ رحمان صاحبہ نے یہ روح فرسا خبر دی کہ جنوبی پنجاب کے آخری ضلعے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے رفعت خان چل بسی۔رفعت خان ایک باہمت اوربہادر لڑکی تھی ،جسمانی معذوری، نامساعد حالات اور دورافتاد علاقے کی رہائشی ہونے کے باوجود انہوں نے آپا بانو قدسیہ کی سرپرستی میں ’’قلم کی روشنی ‘‘ کے نام خانپور ضلع رحیم یار خان سے ایک علمی اور ادبی مجلے کا اجرا کیا ۔ابھی اس ماہنامے کے تین شمارے ہی شائع ہوئے تھے کہ اجل کے بے رحم پنجوں نے بے چاری رفعت خان کو جکڑ لیا ۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ رفعت کو اپنی مربیہ اور سرپرست آپا بانو قدسیہ کے ساتھ بلا کا عشق تھا تبھی تو وہ ان کی جدائی کا دکھ نہ سہار سکیں اور ان کے جانے کے دن بعد ہی خود بھی ان کے پیچھے اسی سفر پر روانہ ہوگئیں۔ماہ اپریل میں ہی پھول نگر ،قصور سے تعلق رکھنے والے شاعر انجم رانا کی اہلیہ سڑک کے ایک مہیب حادثہ میں خالق حقیقی سے جا ملیں ، انجم رانا ان کا نوحہ اس طرح لکھتے ہیں’’جسراں کوئی مون ملنگ ہے حال ونجا کے پھر داسڑکاں اتے عزرائیل ہے روپ وٹا کے پھردا‘‘ماہ اپریل میں ہی آواز دوست کے خالق مختار مسعود بھی راہی ملک عدم ہوئے ،ماہ اپریل ہی میں گیارہ سو سے زائد ناولوں کے خالق ایم اے راحت بھی داغ مفارقت دے گئے او ر اپریل کے آخری ہفتے اسلام آباد میں منائے جانے والے کتاب میلے کے اختتامی روز نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز جو کہ سٹیج سے گرنے کے باعث شدید زخمی ہوگئیں وہ بھی چل بسیں۔سننے میں آرہا ہے کہ پاک چائنہ سنٹر کے ہال اور راہداریوں کی بناوٹ میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں۔ ہال کا سٹیج بارہ فٹ اونچا ہے اور سامعین اور سٹیج کے درمیان حد فاصل برقرار رکھنے کے لیے ایک گہری کھائی سی بنائی گئی ہے جوکہ شاید حفاظتی نکتہ نظر سے قائم کی گئی تھی لیکن سیڑھیوں سے پیر پھسلنے کے بعد محترمہ فرزانہ ناز صاحبہ اسی کھائی میں گرنے کے باعث شدید زخمی ہوئیں اور ایک روز ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے باوجود جان بر نہ ہوسکیں، دوستوں کے مطابق پہلے بھی کئی لوگ اس گہرائی میں گرنے کی وجہ سے جسمانی طور پر مجروح ہوچکے ہیں۔اب ایک طرف تو جانے والوں کا غم ہے جو کہ دل کو سی پارہ کیے جارہا ہے جبکہ ایک دوسرا غم و اندوہ بھی جان کے درپے ہے جو کہ روح کو کچوکے لگا رہا ہے اور وہ غم ہے ہمارے ملک میں اہل قلم کی بے بسی،بیچارگی،کسمپرسی اور زبوں حالی۔حاکم وقت تو درد دل کا علاج سات سمندر پار سے ڈھونڈ لاتے ہیں اور باقی صاحب ثروت لوگ بھی کمرشل پلازوں کی طرح چم چم کرتے نجی ہسپتالوں میں فائیوسٹار سہولیات کے ساتھ علاج معالجہ کروانا پسند کرتے ہیں ۔لیکن اہل قلم ہی کیوں سرکاری ہسپتالوں کے عام وارڈز میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں، کیا رفعت خان،ایم اے راحت،فرزانہ ناز اور سندھ سے تعلق رکھنے والے جواں سال شاعر نعمان پارس جیسے ادبی ستون روز روز پیداہوتے ہیں جو ارباب اختیار اور معاشرہ ان کی کماحقہ قدر کرتا نظر نہیں آرہا ۔فرزانہ ناز (جن کا ماننا تھا کہ ہجرت ان سے لپٹ گئی ہے و ہ واقعی اس دیس عازم ہجرت ہوئیں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا) جب زخمی ہونے کے بعد اسلام آباد کے مہنگے ترین نجی ہسپتال میں علاج کے لیے لائی گئیں تو قلم قبیلے کی طرف سے سوشل میڈیا پر بار بار اپیل کی گئی کہ ان کے گھروالوں کی مالی استطاعت اتنی نہیں کہ وہ مہنگا علاج برداشت کر سکیں ، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا ۔میرا حکمرانوں اور تمام سیاسی قائدین سے ایک مودبانہ سوال ہے کہ آجکل ہر پارٹی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم بنائی ہوئی ہیں اور وہ ملک کے کونے کونے سے ہونی والی پوسٹوں کا جائزہ لے کر ان کا جواب شائع کرتی ہیں،تو پھر فرزانہ ناز اور ایم اے راحت والی پوسٹیں ان لوگوں کی نظروں سے کیوں نہ گزریں اور کیوں نہ ان عظیم ہستیوں کے علاج معالجے کا سرکاری سطح پر اعلان نہ کیا سکا؟ اور کیا میں آئندہ کے لیے بھی کوئی امید رکھوں کہ اہل قلم جن کا اثاثہ چند دادو تحسین کے بول اور بے جان ایوارڈز ،شیلڈز اور سرٹیفکیٹس ہوتے ہیں ان کو ان کی شایان شان عزت و احترام اور توجہ دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوگی ؟ یا پھر روایتی تعزیتی بیان اور سوشل میڈیا پر اظہار افسوس کے سٹیٹس پر اکتفا کیا جائے گا؟اللہ کرے قوم کو میرے درون دل سے نکلے نوحے کی سمجھ آجائے ۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.