انداز بیان

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے
تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے خبر کیا کرتے
جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کر ہم شمس و قمر کیا کرتے
وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کر شجر کیا کرتے
خاک ہی سول و آخر ٹھہری
کر کے ذرے کو گو ہر کیا کرتے
رائے پہلے ہی بنا لی تم نے
دل میں اب ہم تیرے گَھر کیا کرتے
۔۔۔پروین شاکر۔۔۔
کیا جانے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
گر شام کا بھولا ہے تو گھر کیوں نہیں جاتا
ہم کو نہیں معلوم کہ اجڑے ہوئے دل سے
آوارہ مزاجی کا اثر کیوں نہیں جاتا
کیا بات ہے سڑکوں پہ اترتی نہیں رونق
کیا بات ہے اس شہر سے ڈر کیوں نہیں جاتا
صدیوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خدوخال سے بھر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں سے اداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محبت کا بھنور کیوں نہیں جاتا
ٹھہرا ہے جو قافلہِ غم میرے دل میں
اس چھوٹی سی بستی سے گزر کیوں نہیں جاتا
سانسوں سے میرے لرزشِ غم کیوں نہیں جاتی
پیروں سے میرے زخمِ سفر کیوں نہیں جاتا
۔۔۔فرحت عباس شاہ۔۔۔
پرکھنا مت، پرکھنے سے کو ئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئینے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلے رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ میرا زندہ نہیں رہتا
تمہارا شہر تو بالکل نئے مزاج والا ہے
ہمارے شہر میں بھی اب کوئی ہم سا نہیں رہتا
محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
۔۔۔بشیر بدر۔۔۔
گھر کا راستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید
جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے
ادا جعفری

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.