انٹرنیٹ نے نسل نو کو ادب سے دور کر دیا:عبد اللہ نظامی

1990سے لکھنا شروع کیا، ادب کی دنیا میں منافقت نظر نہیں آتی، بچوں کے ادب کا جنونی لکھاری تھا، شاعری اظہار کا بہترین اورآسان ذریعہ ہے ، اساتذہ کی بدولت عبد اللہ نظامی ہوں ، چائے بنا لیتا ہوں
35ایوارڈزمل چکے ہیں ، سکول نہ جانے کے موڈ کی وجہ سے بھانے میں چھپ کر بیٹھ گیا، بڑا بیٹا اچھا لکھاری ثابت ہو گا، مدینہ کی حاضری کا سفرزندگی کا حاصل سمجھوں گا، ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی

عبداﷲ نظامی کا تعلق جنوبی پنجاب کے دور دراز اور پسماندہ ضلع لیہ کے ٹاؤن کوٹ سلطان سے ہے ۔ایم اے کرنے کے بعد صحافت سے وابستہ ہوئے۔ ایک بڑے قومی اخبارروز نامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔ماضی میں بچوں کے لئے لکھتے رہے ان دنوں بڑوں کے لئے سماجی و ادبی کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔گزشتہ 20سالوں سے لیہ جیسے علاقہ سے ماہنامہ تعمیر ادب جیسا موقر اور مستند میگزین شائع کرتے ہیں جو کہ ملک بھر میں پڑھا جاتا ہے والد گرامی عبدالرحمن نظامی محکمہ ریلوے سے ریٹائرڈ ہیں والدہ مکمل گھریلو خاتون ہیں ۔جٹ قبیلہ سوہیہ سے تعلق ہے۔روحانی پیشوا خواجہ نظام الدین کی مناسبت سے نظامی لکھتے ہیں۔پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق ہے ۔چھوٹے بھائی یوسف نظامی ایم بی بی ایس ڈاکٹرہیں بڑے بھائی غلام حسن نظامی ووکیشنل کالج لیہ میں پرنسپل جبکہ چھوٹے بھائی غلام عباس نظامی ایم اے اردو کر کے نجی ملازمت کے ساتھ ساتھ قومی رو زنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں۔بیوی نے گریجوایشن کی ہوئی ہے مگر وہ ہاؤس وائف ہیں۔ 3بچے ہیں ثاقب نظامی ،عاقب نظامی اور عاکف نظامی ،تینوں پرائمری میں زیر تعلیم ہیں ۔
سوال۔آپ کا اصل نام
جواب۔ملک عبداﷲ
سوال۔آپ کا قلمی نام
جواب۔عبداﷲ نظامی
سوال۔ گھر والے پیار سے کیا پکارتے ہیں؟
جواب:عبداﷲ۔
سوال۔کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کا نمبر کون سا ہے؟
جواب۔6بھائی ہیں میرا دوسرا نمبر ہے۔
سوال۔ ادب کی دنیا میں آمد کب اور کیسے ہوئی۔
جواب۔بچپن سے کہانیاں سننے ،پڑھنے کا شوق تھا ،اخباری صفحات میں بچوں کے ادب سے 1990میں خود طبع آزمائی شروع کی۔
سوال۔جب آپ ادب کی دنیا میں آئے اس وقت ادب کیسا تھا اور آپ کی نظر میں آج کا ادب کیسا ہے؟
جواب۔جیسا ادب 1992میں دیکھا ویسا ہی اب ہے مگراب قدرے جدت آگئی ہے۔
سوال۔کیا بچوں کے لئے ادب ضروری ہے۔
جواب۔جی ہاں ادب بچوں کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے غذا
6۔ کیا آپ صرف مزاحیہ ادب تخلیق کرتے ہیں یا سنجیدہ بھی لکھا۔
جواب۔میں نے کبھی مزاحیہ ادب نہیں لکھا تاہم پرفتن دور میں مزاحیہ ادب وقت کی ضرورت ہے۔
سوال۔آج انٹر نیٹ کا دور ہے اور قارئین ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ آپ اس بار ے میں کیا کہتے /کہتی ہیں۔
جواب۔جی سچ کہا ،واقعی انٹرنیٹ نے نسل نو کو ادب سے کوسوں دور کر دیا ہے ،قاری کتاب سے دور ہو چکا ہے ،کتاب سے دوری کے سبب فاصلے بڑھ رہے ہیں ۔
سوال۔ ادب کی دنیا میں منافقت کیوں ہے؟
جواب:ادب کی دنیا میں منافقت مجھے تو نظر نہیں آتی ،جیلسی تو ہوتی ہے ،ہونی بھی چاہئے ،اگر کوئی زیادہ اچھا کام کرتا ہے جسے پذیرائی ملتی ہے تو ادیب ایک دوسرے سے جیلسی کرتے ہیں مگر منافقت نہیں ،ویسے آج کل زیادہ تر فیس بک کے ادیب بنے ہوئے بس گزارش یہ ہے کہ عملی کام کیا جائے شہرت اور کامیابی خود بخود مل جاتی ہے
سوال۔کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
جواب۔میری 3کتابیں زیر طبع ہیں ،تاریخ ،کہانیاں اور ادبی مضامین کا مجموعہ
سوال۔ آپ کا رول ماڈل کون ہے۔
جواب۔تخلیق وجہہ کائنات حضرت محمد ﷺ
سوال۔کس لکھاری سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا؟اب جو بچوں کا ادب تخلیق ہو رہا ہے آپ کی نظر میں کیسا ہے۔
جواب۔ کسی لکھاری سے متاثر ہو کر لکھنا شروع نہیں کیا۔ بس پڑھ پڑھ کر لکھنا شروع کر دیا ۔بچوں کے ادب کا جنونی لکھاری تھا مگر حالات نے غم روز گار میں الجھا دیا۔موجودہ ادب بچوں کے ادب کے تقاضے پورے نہیں کر رہا بچوں کو کہانی کی صورت میں ایسا لٹریچر اور سوچ فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں وہ وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا محافظ بن سکے ۔
سوال۔ادیب کو ادب تخلیق کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
جواب۔ادیب کو چاہئے کہ وہ دین اسلام اور حب الوطنی کا خاص خیال رکھے ۔
سوال: شعر و شاعری سے بھی شغف ہے۔ کس کی شاعر ی پسند ہے۔
جواب۔جی ،میں خود سرائیکی میں شاعری کرتا ہوں ،علامہ اقبال ؒ ،حبیب جالب ،مرزا غالب ،شاکر شجاع آبادی ،شاکر مہروی ،احمد خان طارق ،قبال سوکڑی جیسے انقلابی شعراء کا کلام بے حد پسند ہے
سوال۔آپ کو کتنے ایوار ڈ مل چکے ہیں۔
جواب۔مجھے اب تک ادبی ،سماجی اور صحافتی میدان میں 35ایوارڈز مل چکے ہیں۔
سوال۔ادبی دنیا کا کوئی خوبصورت واقعہ۔
جواب۔ادب کی دنیا خوبصورت واقعات سے مزین ہے ادبی تقاریب ،کانفرنسیں ، تربیتی کیمپس اور لکھاری احباب سے ملاقاتیں یہ سب خوبصورت اور یاد گار واقعات ہیں جو کہ یرے لئے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں
سوال۔کوئی برا واقعہ؟
جواب۔الحمد ﷲ۔کوئی برا واقعہ نہیں ،اﷲ پاک ہر کسی کو برے واقعات سے محفوظ فرمائے۔
سوال۔ آپ کے بچپن کی کوئی خوبصورت بات؟
جواب۔میرے بچپن کی خوبصورت بات یہ ہے کہ ایک دن سکول جانے کا موڈ نہ تھا تو جانوروں کے بھانہ میں چھپ کر بیٹھ گیاسب ڈھونڈ کر تھک گئے تومحلہ کی مسجد میں اپنی گمشدگی کا اعلان سن کر خود ہی بھاگ کر آگیا کہ میں تو یہاں ہوں کس نے اعلان کروا دیا ۔
سوال۔شادی شدہ ہیں؟
جواب۔جی شادی شدہ ہوں۔
سوال۔ کتنے بچے ہیں۔
جواب۔میرے 3بیٹے ہیں۔
سوال۔ کیا آپ کے بچے بھی ادب سے شغف رکھتے ہیں؟
جواب۔جی بڑا بیٹاثاقب نظامی کہانیوں کی طرف راغب ہے امید ہے اچھا لکھاری ثابت ہو گا ۔
سوال۔ آپ کی اور بھابی کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟
جواب۔میری بیوی میری کزن ہے ساتھ ساتھ پلے بڑھے ہیں روزانہ ملاقات ہوتی تھی ،
سوال۔کوئی ایسا کام جس پر آف کو فخر ہو۔
جواب۔میں کام ہی وہی کرتا ہوں جس سے مجھے فخر ہو،تاہم دکھی اور مجبور انسانیت کی خدمت کر کے فکر محسوس کرتا ہوں ،سچ بات ہی ہے کہ اتنا بندوق سے نہیں جتنا غریب کی بد دعا سے ڈرتا ہوں
سوال۔ آپ کا پسندیدہ میوزک۔
جواب۔میں پرانے گانے پسند کرتا ہوں ،نئے فلمی گانوں سے نفرت ہے
سوال۔فلمیں کون سی دیکھتے ہیں۔ انڈین، پاکستانی یا انگلش۔
جواب۔آج تک کوئی بھی فلم نہیں دیکھی،آپ حیران ہوں گے کہ میں خود بھی ایک سرائیکی ٹیلی فلم میں کام کر چکا ہوں جس کی کہانی بھی میں نے خود تحریرکی تھی ،یہ فلم بدلہ ایک سرمایہ دار اور جاگیردار کے مظالم پر مبنی ہے
سوال۔دوست بنانا پسند کرتے ہیں/کرتی ہیں؟
جواب۔جی دوست سرمایہ حیات ہیں میں دوست بناتا ہوں ،الحمد ﷲ جس سے دوستی ہے تاحیات ہے ۔
سوال۔کھانے میں کیا پسند ہے؟
جواب۔دال ،سبزیاں اورچکن۔
سوال۔سواری کون سی پسند ہے؟
جواب۔میرے پاس تو موٹر سائیکل ہے تاہم ماضی میں تانگہ کی سواری کو سب سے اعلی اور محفوظ سمجھتا تھا جو کہ اب دیکھنے کو نہیں ملتی ،سفر میں جدت تو آگئی مگر غیر محفوظ ہو گیا ہے۔
سوال۔ سفر کرنا پسند ہے یا نہیں، اگر سفر کرنا پڑے تو کہاں جانا پسند کریں گے۔
جواب۔سفر سے کوفت ہو تی ہے،اگر مدینہ کی حاضری کا سفر نصیب ہو جائے تو یہ زندگی کا حاصل سمجھوں گا۔
سوال۔ آپ کا کوئی تکیہ کلام؟
جواب۔او میرے بھائی ۔
سوال۔زندگی کا مشن کیا ہے؟
جواب۔میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی۔
سوال۔ کس استاد نے زندگی اور بعد از زندگی پر اثر ڈالا؟
جواب۔میرے وہ عظیم ٹیچر جنہوں نے لفظ الف سے آشنا کیا جناب ملک ظفر اﷲ منجوٹھہ صاحب،ماسٹر غلام مرتضی قریشی ،مختیار قریشی ،مرید خان ،شمس الدین خان گرمانی ،رمضان زاہد یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے تراشا اور آج میں عبداﷲ نظامی ہوں۔
سوال۔ وہ کون سا لمحہ تھا جس میں آپ نے زندگی کو بہتر انداز سے سمجھا؟
جواب۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں
قدم رکھا تو محسوس ہوا کہ اب…… تیرا جہاں وہی ہے جسے تو کرے پیدا……یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہیں۔
سوال۔ اگر آپ کو ملک کا ایک دن کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو آپ پہلا کام کیا کریں گے؟
جواب۔ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بزم ادب کا پیریڈ فوری بحال کرنے کا حکم دوں گا، تختی ،سلیٹ ،قلم اور سیاہی کا دم توڑتا نظام واپس لاؤں گا ۔
سوال۔اگر آپ کا کبھی ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ جائے تو ڈر کر اپنا پرس دیں گے یا ان سے مقابلہ کریں گے/گی؟
جواب۔فوراََپرس دینے میں ہی جان کی امان پانے کو ترجیح دوں گا ۔
سوال۔ آپ نے صحافت کا پروفیشن کیوں منتخب کیا؟
جواب۔میں صحافت میں ہوں اور یہ میری ادب سے دیرینہ محبت کی زندہ مثال ہے کہ بچپن سے اب تک قلم سے وابستہ ہوں اور تا دم مرگ قلم سے ہی میرا رزق وابستہ ہے ،اوڑھنا بچھونا ادب اور صحافت ہے۔
سوال۔ بچپن میں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے تھے؟
جواب۔بچپن میں بڑے خواب ہوا کرتے تھے ،ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی اب سوچتا ہوں کہ اچھا ہوا کیونکہ میری طبیعت ڈاکٹر ی کے مائل نہ ہے ۔
سوال۔ فارغ اوقات میں کیا مشاغل ہوتے ہیں۔
جواب۔فارغ وقت ملنا غنیمت ہے جو کہ عید کے روز بھی میسر نہیں ہوتی ۔
سوال۔ زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز کو قیمتی تسلیم کرتے ہیں؟
جواب۔زندگی کو ہی قیمتی چیز سمجھتا ہوں مگر والدین سے بڑھ کر قیمتی چیز کوئی نہیں۔
سوال۔ کوئی ایسی چیز جس سے زندگی میں خوف محسوس ہوتا ہو؟
جواب۔میں خوف کو کچھ نہیں سمجھتا کبھی خوفزدہ نہیں ہوا۔
سوال۔زندگی کا وہ لمحہ جس سے شرمندگی محسوس ہوئی ہو؟
جواب۔کوئی نہیں۔
سوال۔ آپ کیسی طبیعت کے مالک ہیں، غصیلے یاسادہ مزاج؟
جواب۔ساد ہ ہوں مگر غصہ بھی جلد آتا ہے۔
سوال: غلطی کرنے والے کو معاف کر دیتے ہیں یا سزا دیتے ہیں؟
جواب :معاف کر دیتا ہوں ،سنگین اور بار بار غلطی کرنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔
سوال۔ کوئی ایسی قابلیت جسے سیکھنے کی خواہش ہو۔
جواب۔مجھے کھانا بنانے کا بہت شوق ہے مگر یہ حسرت ابھی تک دل میں ہے بس چائے بنا لینا سیکھ گیا ہوں۔
سوال۔آپ کے دوست آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔
جواب۔میرے دوست مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ،مجھے اپنے دوستوں پر فخر ہے۔
سوال۔اپنی شخصیت کا احاطہ ایک فقرے میں کریں۔
جواب۔میں اﷲ کا بند ہ ہوں (عبداﷲ)بس یہی نام میری شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔
سوال۔ایسا کوئی کام جو آپ کو کہا جائے اور آپ نہ کریں۔
جواب۔نفرت۔
سوال۔ادب کی دنیا میں مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب۔جب تک زندہ ہوں ادب کی خدمت کرتا رہوں گا ۔
سوال۔ کوئی پیغام
جواب۔میرا پیغام محبت ہے خوشیاں بانٹیں ،چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے کر انسانیت سے پیار کیا جائے ،چھوٹی نیکیوں کو بے کار سمجھ کر نہیں چھوڑنا چاہئے ،رضائے الٰہی کا حصول ہر وقت دل میں رکھنا چاہئے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.