خبر کیا ہے ؟

سراج تنولی
خبریت یا صحافت کی ابتداء موجودہ صحافت سے یکسر مختلف تھی۔جدید طرز صحافت نے اتنا ہی طویل سفر طے کیا ہے جتنا کہ خود انسان نے اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سفر کیا ہے ۔اگر ہم بالکل آغاز سے جاننا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے بھی پہلے صحافت یا خبریت کی بنیاد رکھی جا چکی تھی ۔اللہ رب لعزت نے جب حضرت آدم ؑ کی تخلیق کا فیصلہ کیا تو یہ ’’خبر‘‘ فرشتو ں کو دی ۔ اس سے پہلے کی ’’خبر‘‘ کاعلم نہیں ہے لیکن اسی نقطے پر سوچیں تو عین ممکن ہے کہ’’ تخلیق آدم‘‘ کائنات کی پہلی ’’خبر‘‘ نہ ہو ۔صحافت کی اصطلاح میں آج کے موجودہ دور میں اسے بریکنگ نیوز کہا جا تاہے ۔بریکنگ نیوز کہتے ہی چونکا دینے والی خبر کو ہیں اسی وجہ سے یہ خبر فرشتوں کیلیے چونکا دینے والی تھی ۔ایک ایسی خبر جس پر فرشتوں نے ردعمل کا اظہار کیاتھا ۔فرشتوں کا یہ رد عمل پہلا تجزیہ تھا۔انہوں نے دنیا میں اللہ کے نائب کی خبر سن کر رد عمل کا اظہار کیا تھا کہ انسان دنیا میں فساد برپا کرے گا۔فرشتوں کا یہ ’’تجزیہ‘‘ محض قیاس آرائی نہیں تھی ۔اس کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے پہلے جنات تخلیق کیے جا چکے تھے ۔فرشتوں نے مشاہدہ کیا کہ جنات میں اچھے اوربرے جنات ہیں ۔جنات کی اچھائیوں اور برائیوں سے واضح ہوتا ہے کہ برے جنات یعنی شیاطین آپس میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ تخلیق آدم ؑ کی خبر پرفرشتوں نے مشاہدہ کی بنیاد پر’’ تجزیہ ‘‘دیاجو حقیقت سے قریب ترین تھا۔اس کا مطلب ہے کہ صحافت کی بنیاد انسانی تاریخ سے کچھ پہلے رکھی گئی تھی۔پہلی ’’خبر‘‘ سو فیصد سچی اور برحق خبر تھی جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خبر کی بنیاد سچی اور فساد سے پاک ہونی چاہیے۔پہلا تجزیہ بھرپور مشاہدے کی بنیادپر تھا جو واضح کرتا ہے کہ تجزیہ حقائق اور گہرے مشاہدے کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوتا ہے ۔محض قیاس آرائی اورتکا بندی کو تجزیہ نہیں کہا جاسکتا۔پس ثابت ہوا کہ خبر سچائی اور حق پر مبنی ہو ۔قیاس آرائیوں اور شکوک و شبہات سے بالاتر ہوں ۔
قارئین ! اگر ہم لفظ خبر کی تعریف دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ انیسویں اور بیسویں صدی کی وہی پرانی باتیں ملیں گی کہ خبر کسی نئی چیز کو کہتے ہیں ، غیر متوقع کو کہتے ہیں ، ایجوکیشن کو کہتے ہیں
،انفارمیشن کو کہتے ہیں، حادثات کو کہتے ہیں یا پھر قدرتی آفات کو خبر کہتے ہیں۔جسے آج کے صحافتی دورمیں بریکنگ نیوزکہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے میڈیا میں ہر سات سیکنڈ بعد بریکنگ نیوز چلتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا میڈیا عوام کو ذہنی دباؤ میں ڈال رہاہے۔ ایسی بریکنگ نیوز دے کر جس کا بیچاری عوام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔کسی بھی خاندان کو خوشحال زندگی گزارنے کے لیے پیسہ ، گھر ، نوکری ، گاڑیاں ، گڈز، نوکر چاکر ، سیکورٹی ، خوراک اور پینے کا صاف پانی چاہیے ہوتاہے ۔ ’’اسی لیے پروفیسر ماجد الغفار (ہزارہ یونیورسٹی)کی ریسرچ کے مطابق خبر یا بریکنگ نیوز اسے کہا جاتا ہے جس سے عوام یعنی ہمیں اور آپ کو فائدہ ہو یعنی ہر خبر کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود کیلیے ہو ،اسے خبر کہا جاتاہے۔‘‘ ہمارے میڈیا پر ایسی خبریں ہونی چاہیے جس سے ہمیں فائدہ ہو ،ہمیں نوکری تلاش کرنے میں آسانی ہو ، ہمیں گھر ملے ، روٹی ملے ، صاف پانی ملے ، صحت کی سہولیا ت میسر ہوں ، سیکورٹی ملے اور گاڑی مل سکے ۔عوام اس قسم کی بریکنگ نیوز چاہتی ہے ۔جیساکہ طلباء و طالبات کو اکثر بیرون ملک اسکالر شپ کے بارے میں معلومات ہی نہیں ملتی اور اگر مل جائیں تو اپلائی کر نے کا طریقہ کار ہی معلوم نہیں ہوتا۔ایسی خبروں کے بارے میں طلباء و طالبات دلچسپی لے گے۔جیساکہ میڈیا اسکالر شپ کے لیے آگاہی مہم چلائیں ، خبریں دے ، صاف پانی سے متعلق خبریں دیں ، نوکریوں کے حوالے سے ، سرکاری محکموں کے حوالے سے رپورٹ دیں تب عوام دلچسپی لیں گے ۔جب یہ سب چیزیں عوام کو میسر ہونگی تب جا کر عوام کسی نئی خبر کو غور سے سماعت کریں گے۔ ہمارے میڈیا کو بدنیتی چھوڑ کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے ایسی بریکنگ نیوز نہ ہوں جس سے انتشار اور فساد پھیلے ۔
علامہ نے کیا خوب فرمایا تھا۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.