رفعت خان ۔ ایک گوہر نایاب جو خاک میں‌کھو گیا

محسن علی طاب

یکم اپریل کو ایک قیامت گزرگئی۔ ہم رفعت خان جیسی عظیم شخصیت سے محروم ہو گئے۔ وہ بانو قدسیہ کی سچی عاشق تھیں، انکی جدائی برداشت نہ کر سکیں اور 36 دن بعد ان سے جا ملیں۔ خان پور کی معروف شاعرہ و مصنفہ، کالم نگار، سماجی شخصیت، ‘قلم کی روشنی’ میگزین کی مدیرہ اعلیٰ رفعت خان نیازی ایک ٹرسٹ بھی چلاتی تھیں۔ غریبوں کی سچی ہمدرد اور بچیوں کو مختلف کورس کرواتی تھیں۔ گھر والوں سے ڈانٹ کھا کھا کر بھی ادب کی خدمت کرتی رہیں۔ اپنی دوائی کے پیسے ضرورت مندوں کو دے دیا کرتی تھیں۔ وہ کم وسائل میں بہترین کام کر رہی تھیں اور برے حالات میں ان کا جوش و جذبہ دوچند ہو جایا کرتا تھا۔ فخر ہے کہ خاکسار بھی رفعت خان کے شاگردوں میں سے ایک تھا، انکی ٹیم میں شامل رہا اور انکے شانہ بشانہ کام کرتا رہا۔ مجھے فخر ہے کہ میں ان کی تربیت گاہ کا حصہّ بنا۔ چونکہ سماعت سے محروم ہوں سو اکثر لوگ کہا کرتے تھے ‘محسن تمہیں سنائی نہیں دیتا ہے تم کیا کر سکتے ہو؟’ لیکن آفرین ہے رفعت خان کی استقامت اور تربیت پر کہ میرے جیسا شخص ان جیسے گوہرِ نایاب کے ساتھ جڑ کر کندن بن گیا۔ بہت سے ایوارڈ حاصل کئے اور پھر وہی لوگ جھک کر ملنے لگے۔ سچ یہی ہے کہ یہ صرف میری استاد رفعت خان کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا۔ آج یہ سب رقم کرتے ہوئے میری آنکھیں نمناک ہیں اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مجھ جیسے تو غم ناک بہت ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگوں کو بھی
اشکبار دیکھ رہا ہوں جو انکے مخالفین میں سے ایک تھے اور تمام عمر ان کے لئے پریشانیوں کا سبب بنتے رہے۔ وہ اکثر مجھے کہا کرتی تھیں کہ میرا مقصدِ حیات نئے باصلاحیت لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر گھر تک علم پہنچانا اور جاہلیت کے اندھیرے مٹانا ہے۔ انہوں نے اپنی معدوری کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ مجھے یاد ہے ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ ’’مَیں چل نہیں سکتی تو کیا ہوا، اِنشا ء اللہ میرا قلم ہمیشہ چلتا رہے گا اور علم کے پیاسے قلم کی روشنی سے ہمیشہ سیراب ہوتے رہیں گے۔‘‘
انہوں نے بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں قلم تھمایا اور وہ سب آج لکھ رہے ہیں اور خْوب لکھ رہے ہیں۔ وہ بانو قدسیہ مرحومہ کی بہت بڑی عاشق تھیں اور قلم کی روشنی میگزین بھی بانو قدسیہ آپا کی ہی زیر پرستی معرضِ وجود میں آیا تھا۔ وہ اشفاق احمد اور مستنصر حسین تارڑ سے بھی بے حد متاثر تھیں۔ علامہّ اقبال اور غالب انکے پسندیدہ شاعر تھے اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ بڑے انسانوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیچھے ورثہ چھوڑ جاتے ہیں اور اپنے ورثے میں قلم کی روشنی چھوڑ کے جانے کا عہد کیا کرتی تھیں۔
مجھ میں مزید لکھنے کا حوصلہ نہیں۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کے دائرے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور میرا قلم لڑکھڑا رہا ہے۔ ان کی ناگہانی وفات نے مجھ سمیت ان گنت لوگوں کی لئے اپنی روشن یاد اور ڈھیر سارے آنسوؤں بھی ورثے میں چھوڑے ہیں۔ دل ابھی تک بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت میں ہے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ ان کا لگایا ہوا شجر’ قلم کی روشنی’ ایک روز تناور درخت ضرور بنے گا اور علم و ادب کی راہ پر چلنے والے ان گنت مسافر اس سایہ دار درخت سے فیض یاب ہوں گے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.