سیلف میڈ

نوجوان نہ صرف مایوس تھا بلکہ ناامید بھی تھا۔ اس نے میری طرف آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور بولا’’ سر مجھے بتائیں کہ اگر آپ کے پاس ڈگری ہو۔ آپ کے پاس اچھے گریڈ ہوں ……مگر نہ آپ کے پاس پہننے کو کپڑے ہوں ، نہ کھانے کو روٹی ہو تو بتائیں مجھے تعلیم نے کیا دیا ۔ مجھے اس علم سے کیا فائدہ ہوا…… اس علم سے کیا فائدہ جس سے میں اپنے والدین اور اپنی فیملی کیلئے تین وقت کی روٹی بھی نہ کما سکوں……ستم ظریفی یہ ہے کہ سر میں جہاں جاتا ہوں پہلے تو کہتے ہیں کہ آپ کی تعلیم بہت اچھی ہے اس وجہ سے یہ نوکری آپ کے قابل نہیں ہے ……مطلب یہ کہ اگر میں نے بہت محنت سے اور تکالیف سے اچھی تعلیم حاصل کر ہی لی ہے تو وہ میرا جرم بن گیا ہے ……‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے میں نے اسے رونے دیا اور اس کے دل کا غبار نکل جانے دیا۔ وہ میرے آفس میں نوکری کی درخواست لے کر آیا تھا اور اپنی سی وی دے کر جانے والا تھا کہ مجھے باہر جاتا دیکھ کر رک گیا۔ ایک پاکستانی سمجھ کر اس نے مجھے آواز دی اور میں بھی رک گیا اس نے بڑی لجاجت سے مجھے اپنی بات بتائی تو میں اسے اپنے آفس میں لے گیا اور اپنے پاس بٹھالیا اور اس کی داستان سننے لگا۔ میں نے پوری توجہ سے اس کی بات سنی اور اس کو رونے دیا۔ جب وہ رو چکا اور اپنے دل کی بات سنا چکا تو میں نے کہا ……’’دیکھو ……میں تمہاری تکلیف کو سمجھتا ہوں مگر مجھے ایک بات بتاؤ……کیا اﷲ تعالیٰ نے تمہیں دو ہاتھ ، دو کان ، دو آنکھیں ، سوچنے کیلئے دماغ اور قوت فیصلہ سے نواز رکھا ہے ……؟‘‘ میرے اس سوال پر وہ حیرانگی سے میری طرف دیکھنے لگا۔ ’’ جی سر ……الحمد اﷲ ……‘‘ اس نے حیرانگی سے جواب دیا۔ ’’ تو میرے بھائی ……تم پھر کس چیز کا شکوہ کر رہے ہو ……، تم اپنے نظام تعلیم کا شکوہ کر رہے ہو ……تم اپنی حکومت کا شکوہ کر رہے ہو……تمہارا شکوہ بجا ہے مگر اس میں سب سے زیادہ قصور ہی تمہارا ہے ……‘‘ میں نے اطمینان سے کہا تو اس کی حیرانگی دو چند ہو گئی ۔ ’’ سر ……وہ کیسے ……؟‘‘ اس کے لہجے سے بے یقینی عیاں تھی ۔ ’’ دیکھو بھائی ……تم ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی ہو……تمہارے پاس ہنر مند تعلیم بھی ہے ……مگر تم اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کے بجائے حکومت کو الزام دے رہے ہو ۔ تم اگر دنیا کے بڑے کامیاب لوگوں کی ایک فہرست بناؤ تو تم کو اس میں زیادہ تر وہ لوگ ملیں گے جو نہ صرف محنتی ، بلکہ سیلف میڈ انسان تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی اپنی محرومیوں ، اپنی ناکامیوں کا شکوہ اپنے گلے میں لٹکا کر اسے ڈھول کی طرح بجانے کی بجائے انہوں نے پہلے سے زیادہ محنت کی ۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا۔ ہارنے کے بجائے جیتنے کا فیصلہ کیا۔ مسلسل کام کیا اور آخر کار ناکامی ، شکست اور ہار نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور کامیابی ان کا مقدر بن گئی ……کامیابی ایک منزل نہیں ہے یہ تو ایک سفر ہے جس کو جاری رکھنے کیلئے بہت زیادہ محنت ، جہد مسلسل کی ضرورت ہے……‘‘ میں نے اپنی بات جاری رکھی ۔ ’’ اصل میں ہمیں عادت ہو گئی ہے کہ اپنی ناکامی اور کوتاہیوں کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں بازار سے اچھا کھانا نہیں ملتا تو حکومت کو الزام دیتے ہیں وہ کہ کوئی سسٹم نہیں ہے ۔ ہم رکشے ، بس، ٹرین اور ہوائی جہاز میں سیٹوں پر پاؤں رکھ کر بیٹھتے ہیں ، راستے میں تھوکتے ہیں پان چباتے ہوئے آفس میں کام کرتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ ہم کب ترقی یافتہ قوموں کے برابر ہوں گے ۔ ہم کرپشن میں دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں ۔ ہم رشوت لئے بغیر تو مریض کو ہسپتال میں داخل اور ظلم کا شکار مظلوم کی شکایت درج کرنے کیلئے بھی رشوت طلب کرتے ہیں۔ ہم ایک آرام پسند قوم بھی ہیں۔ ہم آئے دن دفتروں سے غیر حاضریاں کرتے ہیں۔ ہماری عدالتوں اور دفتروں میں اسی سالہ پرانا نظام ابھی تک کام کر رہا ہے اور ہم اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اسے بدلنا بھی نہیں چاہتے اور کہتے ہیں کہ ہم کب ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوں گے۔ اہم ایک منافق قوم بھی ہیں۔ ہم ہر بار جانتے ہیں کہ صحیح کون ہے اور غلط کون ہے مگر ہم ہر بار برادری یا علاقے کی بااثر شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر بھی ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا ملک کب بدلے گا……‘‘
’’ہم اس وقت پیناڈول کی گولی سے کر مشین کی سوئی تک سب کے سب ہم یورپ کے محتاج ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں شامل ہوجائیں۔ میرے دوست سب سے پہلے خود کو بدلو۔ قوم خودبخود بدل
جائے گی ۔ جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے جب تک ہم سولہ گھنٹے کام نہیں کریں گے جب تک ہم منافقت نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھیں گے ہم ترقی یافتہ قوم نہیں کہلائیں گے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ہی اپنا نام تاریخ میں زندہ رکھ پاتی ہیں ۔ سست، نااہل اور جاہل قوموں کی تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ۔
¥جائے گی ۔ جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے جب تک ہم سولہ گھنٹے کام نہیں کریں گے جب تک ہم منافقت نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھیں گے ہم ترقی یافتہ قوم نہیں کہلائیں گے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ہی اپنا نام تاریخ میں زندہ رکھ پاتی ہیں ۔ سست، نااہل اور جاہل قوموں کی تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.