صرف چند باتیں

آپ متحدہ عرب امارات کو سامنے رکھئے ۔ متحدہ عرب امارات کو 1960ء سے پہلے کون جانتا تھا۔ اس کا جواب ہے ’’کوئی نہیں‘‘۔ 1960ء سے پہلے یہ ایک ویران اور چھوٹی سی بندرگاہ تھی جہاں پر ایرانی تجارتی قافلے اور ایرانی تاجر کاروبار کرنے کیلئے آتے تھے ۔ تب تک یہ ایرانی تجارت کا مرکز رہا ۔ 1950ء میں یہاں پر پہلی بار تیل دریافت ہوا اور 1962ء میں پہلی بار جبل دانہ ابوظہبی سے تیل برآمد کیا گیا۔ 1960ء میں پہلی بار یہاں پاکستان اور بھارت کے ہنر مندوں نے قدم رکھااور دیکھتے ہی دیکھتے متحدہ عرب امارات کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا۔لوگ متحدہ عرب امارات کو کم اور دبئی کو زیادہ جانتے ہیں۔ دبئی نے پچھلی چند دہائیوں میں بے مثال ترقی کی ہے اور لوگ اس کی ترقی کی مثال دیتے ہیں۔برج العرب ، برج خلیفہ ، جبل علی پورٹ ،پام جمیرہ، دبئی میٹرو، دبئی ٹرام، امارات ائیر لائن ، اتحاد ائیرلائن غرض کہ دبئی ترقی کاا ستعارہ ہے ۔ اس وقت متحدہ عرب امارات کی آبادی 9456628 ہے ۔ اس میں سے 1200000پاکستانی بھی شامل ہیں۔ جو یہاں آبادی کا تناسب کا 13ٖفیصد بنتے ہیں۔ یہ تناسب بھارت کے 28فیصد کے بعد سب سے بڑا تناسب ہے۔ ان باہر رہنے والے مزدوروں ، ہنر مندوں ، ملازمت پیشہ افراد نے پاکستان میں 16بلین ڈالر کی رقم ملک بھیجی ۔ اس میں سے 3.5بلین ڈالر صرف متحدہ عرب امارات میں رہنے والے پاکستانیوں نے پاکستان بھیجی ۔ متحدہ عرب امارات میں رہنے والا ہر پاکستانی اسے اپنا دوسرا گھر تسلیم کرتے ہیں ۔ میں قریباً پچھلے نو سال سے یہاں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ پچھلے دنوں مجھے ایک دلچسپ اور خوفناک تجربے سے گزرنا پڑا ۔ چونکہ میں یہان شعبہ اکاؤنٹس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنی کمپنی کے ہیومن ریسورس کو ای میل کی کہ مجھے ایک اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ میرے پاس اس وقت ایک اکاؤنٹنٹ ، ایک اسسٹنٹ اور ایک ڈیٹا انٹری آپریٹر کام رہا تھا مگر کام کو کنٹرول کرنے کیلئے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ایک اور اکاؤنٹنٹ ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مطلوبہ منظوری کے بعد جب ایچ آر والوں نے اس نوکری کیلئے اشتہار دینا چاہا تو مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا اس ملازمت کا معیار کیا ہونے چاہیں اور کس ملک کے شہری کو فوقیت دینا چاہیں گے جس کا انتخاب بطور ڈیپارٹمنٹ ہیڈ میرا استحقاق تھا۔ چنانچہ میں نے فوراً سے پہلے اپنے ملک پاکستان کا نام لے لیا۔ دوسرے نمبر پر انڈیا اور تیسرے نمبر پر فلپائن ۔ چنانچہ اخبار میں اشتہار دے دیا گیا۔ نوکری چونکہ اکاؤنٹس جیسے حساس شعبے میں تھی اس لئے امیدوار کا انتخاب بھی مجھے ہی کرنا تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد مجھے ایچ آر کی طرف سے CVکا ایک انبار موصول ہوا جس میں سے مجھے متوقع امیدوار شارٹ لسٹ کرنے تھے۔ میں نے اپنے تئیں قریباً تیس کے قریب امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا اور اور انٹرویو کا شیڈول بنادیا۔ حسب توقع انٹرویو میں پاکستان کے امیدواروں کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ پہلے دن کے انٹرویو کے بعد مجھ پرپاکستان کے ناقص معیار تعلیم ، نوجوانوں کی نامکمل قابلیت کا خوفناک انکشاف ہوا۔ امیدواروں کی اکثریت اکاؤنٹس کے بنیادی ٹیسٹ میں ہی فیل ہو گئی ۔ کئی امیدوارٹیسٹ تو دینے میں کامیاب ہو گئے مگر جب وہی سوال میں نے انٹرویو میں پوچھے تو وہ جواب دینے سے قاصر رہے یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ان امیدواروں میں سے اکثر بی کام ، ایم بی اے اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی شامل تھے۔ امیدواروں کی کمزور انگریزی اور کمزور اعتماد کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی ان کی بنیادی تعلیم جس پر انہوں نے قریباً چار سال یا اس سے زائد کا عرصہ تعلیم حاصل کی تھی وہ سب واجبی سی تھی۔ اکثر امیدوار بغیر کسی تیاری کے انٹرویو میں شامل ہوئے تھے ۔ میں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری ۔ دوسرے اور پھر اسی طرح تیسرے انٹرویو میں بھی جب یہی حالات رہے تو میں نے مجبوراً ایچ آر کو ای میل کی کہ برائے مہربانی کسی پاکستانی امیدوار کی سی وی کی ضرورت نہیں تھے دوسرے ملکوں کے امیدواروں کی سی وی بھیجیں تو یوں میں اپنے پانچویں انٹرویو میں ایک انڈین لڑکا کامیاب ہو گیا۔
میری سب نوجوانوں سے گزارش ہے کہ جب بھی آپ کبھی باہر کے ملکوں میں چاہیے وہ متحدہ عرب امارات ہو یا کوئی بھی دوسرا ملک۔ آپ بھر پور تیاری کے ساتھ جائیں۔ آپ کسی پروفیشنل آدمی سے اپنی سی وی بنوائیں اور اس سی وی میں وہی کچھ لکھیں جو آپ کو معلوم ہے جس پر آپ کی گرفت ہے ۔ کیونکہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ سی وی بنانے والا آپ کی سی وی میں ایسی ایسی چیزیں لکھ دیتا ہے جو کہ آپ جانتے بھی نہیں ہیں ۔ آپ ملازمت کی تلاش میں آئے ہیں۔ بہتر ہے کہ جب آپ پلاننگ کر رہے ہوں کہ ملازمت کے سلسلے میں باہر جانا ہے تو اس کیلئے انگریزی بول چال کا کورس بھی کر لیجئے ۔ یہاں پر اکثر بھارت کے لوگوں کی انگلش بول چال پاکستانیوں سے بہت اچھی ہے ۔ متحدہ عرب امارات میں اگر آپ اشتہارات کو دیکھیں تو آپ کو پانچ میں سے چار اشتہارات میں انڈین یا فلپائن کے شہری کو فوقیت دی جائے گی ضرور نظر آئے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے نوجوان جب یہاں یا کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہ اس ملک کے بارے میں اس کے رہن سہن کے بارے میں اس کی ثقافت کے بارے میں کوئی ضروری معلومات لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی سی وی جسے آپ کی ملازمت کی تلاش میں ایک چابی کی حیثیت حاصل ہے اس کو بھی کسی دوست یا پھر کسی انٹرنیٹ کیفے والے سے بنوا کر وہاں جا کر نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ جو کہ آخر میں ناکامی پر ختم ہوتی ہے۔ آتے وقت اپنے حلیے پر بھی نظر ثانی کر لیجئے ۔ حال ہی میں جب میں پاکستان سے واپس آرہا تھا تو دبئی کے ائیر پورٹ پر مجھے ایسے لوگ بھی ملے جو لوگ ’’دھوتی‘‘ میں ملبوس تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بس کھیت میں کام کر رہے تھے اوروہاں سے اٹھ کر چل دئیے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو تو نہ آج تک کچھ کرنے کی فرصت ملی ہے اور نہ ہی وہ کریں گے ۔ مختلف ممالک کے لوگو جب بھی باہر کے کسی ملک میں کوئی کام کرنے جاتے ہیں تو اس ملک کا سفارت خانہ یا وہ ملک اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ جس کمپنی میں کام کرنے جا رہا ہے وہ کمپنی کی ساکھ کیسی ہے ۔ اس کو ملازمت میں کس چیز کا تحفظ حاصل ہے ۔ اس کو تنخواہ کب اور کتنی ملے گی۔ اس کو رہائش ، کھانا ، کپڑے اور صحت کی کیا سہولیات حاصل ہوں گی۔ یہ سب انفارمیشن ہونے کے بعد ہی وہ اپنے ملک کے شہری کو اس ملازمت پر جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہر ملک میں جب طالب علم اپنی ڈگری مکمل کر کے نکلتے ہیں تو ان پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ کوئی عملی طور پر کوئی کام کریں کسی کمپنی میں ملازمت کریں ۔ ٹریننگ کریں۔ اس مقصد کیلئے کمپنیاں طالب علموں کو ہائیر کرتی ہیں ۔ انہیں ٹریننگ دیتی ہیں۔ اگر طالب علم وہاں نہیں چاہتے تو بہت سارے پرائیویٹ ادارے یہ کام کرتے ہیں۔ وہ آپ کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ یہ ٹریننگ بول چال سے لے کر آپ کی قابلیت کو نکھارنے تک موجود ہوتی ہے ۔ مگر یہاں پر تو حساب ہی الٹا ہے ۔ ہمارے ہاں طالب علم ڈگری بعد میں لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں کمپنی سے ٹریننگ کا لیٹر پہلے ہوتا ہے جو اس کے کسی چاچے ، مامے یا کسی دوست کی مہربانی کے طفیل مل جاتا ہے ۔ ہماری حکومت بھی پروٹیکٹر کے نام پر ویزے کو پروٹیکٹ کرتی ہے مگر وہ صرف حکومت کا ایک ذریعہ آمدنی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے نوجوان وہاں رہتے ہوئے کسی پریکٹکل ٹریننگ کے بجائے اس چیز پر زیادہ دھیان دیتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی کتنے درہم کی ملازمت مل جائے گی تو وہ درہم کہاں اور کیسے خرچ کئے جائیں گے ۔ وہ کچھ ہزار روپے اپنی سی وی پر نہیں لگاتے مگر ان کو نوکری اچھی پوسٹ کی چاہیے۔ پچھلے دنوں آپ نے دیکھا ہوگا کہ سعودی عرب میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور انڈین ہنر مندوں کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا اور ان کو ان کی کمپنیاں تنخواہ اور ان کے بقایا جات ادا نہیں کر رہی تھیں۔ بھارت نے اس پر فوری طور پر ایک سخت نقطہ نظر اپنا اور پاکستانی ابھی تک وہاں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ تو اس لئے جان لیجئے کہ جو کچھ کرنا ہے آپ کو اپنے بل بوتے پر کرنا ہے۔ آپ خود سے اپنے آپ کو تیار کیجئے اور جان لیجئے کہ آپ اپنے ملک کے نمائندے ہیں ۔ آپ کہیں بھی کوئی بھی کام کریں گے آپ کے ملک کی پہچان بن جائے گی۔ یہاں آتے وقت بنیادی باتوں کا خیال کیجئے تو یقینا ایک اچھی ملازمت اور ایک اچھا مستقبل پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ورنہ یہ منہ اور مسور کی دال۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.