فیصلہ – بقلم: حفید سلطان

تخلیقات
846
0

بقلم… حفید سلطان

سورج پوری آب و تاب کے ساتھ کراچی کی پر سکون فضاؤں میں روشنی بکھیر رہا تھا
اور عمران شیشے کے سامنے کھڑا عدالت جانے کی تیاری کر رہا تھا وہ بہت امیر آدمی تھا
لیکن اسکی یہ دولت امارت اسکی ازدواجی زندگی کو خوشگوار نہ رکھ سکی تھی وہ گھریلو جھگڑوں سے تنگ آگیا تھا آخر کار نوبت طلاق تک پہنچ گئی
اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی
عمران نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر اپنی بیوی کا خطیر الرقم مہر تو ادا کر دیا تھا لیکن وہ بیش بہا تحائف جو اس نے کبھی اپنی بیوی کی محبت میں گرفتار ہو کر اسکو دیے تھے یا اسکے نام کر دئے تھے عمران ان تحائف کو واپس لینے کیلئے بضد تھا
اور لڑکی والے ان میں سے ایک پائی بھی واپس کرنے کو تیار نہ تھے
اسی کے پیش نظر عمران نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور آج اس نے سول کورٹ میں حاضری دینی تھی
کمرہ عدالت میں دونوں وکیلوں نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے اور جج نے اپنا فیصلہ عمران کے حق میں سنا دیا
لیکن لڑکی پھر بھی راضی نہ ہوئی اور اس نے اس فیصلے کو سیشن کورٹ میں چیلنج کر دیا
کچھ روز بعد عمران نے سیشن کورٹ میں بھی کامیابی حاصل کرلی
اب اسکو یہی امید تھی کہ اسکا حق جسکے اوپر اب مہر عدالت بھی ثبت ہو چکی تھی بہت جلد اسے مل جائے گا
لیکن یہ کیا!
لڑکی والوں نے اب کی بار ہائی کورٹ سے اس معاملے میں رجوع کر لیا تھا
عمران نے اپنے وکیل کو خصوصی ہدایات رات ہی کو فون پر دے دیتی تھیں اور اب وہ سکون کی نیند سو رہا تھا
کیونکہ اسکے وکیل نے جس طرح پچھلی دو عدالتوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے اور اسے اسکا حق دلایا تھا اس سے تو گویا وہ وکیل اسکا یقین بن گیا تھا
اور آخر تھا بھی تو وہ حق پر نا!
صبح وہ غصے کی حالت میں کمرہ عدالت میں داخل ہوا کیونکہ اسے آج ایک بہت اہم میٹنگ اس فالتو چکر میں کینسل کرنی پڑی تھی
لیکن نہیں یہ چکر فالتو تھوڑی ہے اس سے تو اسے بہت سے فوائد حاصل ہونے تھے بہت سا مال اور مہنگی جائداد
اس خیال کے آتے ہی اسکے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی
اسے یقین تھا کہ پچھلی عدالتوں کی طرح یہاں بھی اسے کامیابی حاصل ہو جائے گی
کچھ ہی دیر بعد دونوں دعویدار کٹہرہ عدالت میں کھڑے اپنے وکیلوں کے دلائل پر عش عش کر رہے تھے
اسی اثنا میں عمران کے وکیل نے آخری تیر پھینکا اور پچھلی دونوں عدالتوں کے فیصلے ججز کے سامنے رکھتے ہوئے خاموش ہو گیا
اب عدالت پر ایک پر اسرار سناٹا طاری تھا دونوں دعویدار جو کبھی میاں بیوی ہوا کرتے تھے آج ایک دوسرے کو مجرم کہلوانے پر تلے ہوئے تیز دھڑکنوں کے ساتھ فیصلے کے منتظر تھے طرفین کے حامیوں نے بھی امیدیں سدھائیں ہوئی تھیں عمران اور اسکے وکیل کے چہرے پر کمال کا سکون تھا اور ججز آپس میں مشاورت کر رہے تھے چند ہی لمحوں بعد فیصلہ سنایا جانا تھا…
اور پھر انتظار کی وہ گھڑیاں بھی ختم ہوگئیں معزز جج نے پوزیشن سنبھال لی…کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص کے اندر ایک بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی اب کی بار عمران بھی کچھ پریشان سا دکھ رہا تھا شاید یہ اس بڑی عدالت کا بوجھ تھا
بالآخر جج نے اپنے مخصوص انداز میں فیصلہ سنا دیا
اس بار کیفیت ذرا تبدیل تھی دلائل تھوڑے زیادہ تھے
لیکن!!!
لیکن فیصلہ وہی پرانہ والا تھا!!
جج نے پچھلے دو فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور دلائل کی پختگی کی وجہ سے فیصلہ ایک بار پھر عمران کے حق میں سنا دیا تھا
عمران کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اور وکیل صاحب کی حالت دیدنی تھی آخر انہوں نے تیسری عدالت میں کامیابی حاصل کی تھی انکا جی چاہتا تھا کہ آگے بڑھ کر عمران سے معانقہ کریں اور داد وصول کریں
لیکن
اس سے پہلے کہ وہ جگہ سے اٹھتے اس لڑکی نے ہوا میں ایک پرچہ لہرا دیا کمرہ عدالت پر ایک بار پھر سکتہ طاری ہوگیا…سب کی نظریں اس لہراتے ہوئے پرچے پر جم گیئں اس سے پہلے کہ کوئی استفسار کرے لڑکی گویا ہوئی… “اس فتوے کے پیش نظر یہ تمام مال میرا حق ہے…” اس نے بڑی ہمت سے اپنی بات مکمل کی
جج صاحب نے فورا وہ فتوی حاصل کر لیا اور پہلے حکم کو تا حکم ثانی خارج از عمل قرار دیتے ہوئے کچھ دیر انتظار کا حکم دیا لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے عمران کے وکیل صاحب کی ہوائیاں اڑ گئیں چند لمحوں پہلے چہکتا ہوا چہرہ اپنی تمام تر رعنائیاں کھو بیٹھا…اب وہ چہرہ محور پریشانی اور مسکن تلملاہٹ بنتا ہوا نظر آتا تھا
معزز ججز ایک بار پھر معاملے کی چھان بین کرنے میں جت گئے
انکے سامنے ایک فتوی تھا جو یقینی طور پر قرآن و حدیث کے دلائل پر مشتمل تھا
اور وہ جانتے تھے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے ججز ہیں انکا کوئی بھی فیصلہ قرآن و حدیث سے ٹکرانا انکے ایمان کا مسئلہ تھا انکے نظرئے کے مخالف تھا اور انکے ملک کے قانون پر سوالیہ نشان تھا
لیکن وہ اندھا یقین بھی تو نہیں کر سکتے تھے نا کیونکہ وہ ججز تھے ہر چیز کی پڑتال کرنا اسکے صحیح یا غلط ہونے کو جانچنا انکا اولین فریضہ تھا
اور وہ اپنے فرائض کو اچھی طرح سے ادا کر رہے تھے اپنی تمام وسعتوں اور موجودہ تمام وسائل کو بروئے کار لانے کے بعد انہوں ایک بار پھر فیصلہ سنانے کیلئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا
فیصلہ قلمبند کرنے کیلئے کاتب تیار تھا
اور اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کرنے کیلئے تمام حاضرین بھی تیار تھے
اور پھر…..
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں…بڑی مشکل سے ظلم ٹوٹا…اور معاملہ اپنی اصل صورت میں سامنے آیا
معزز جج نے فیصلہ سنایا اور لڑکی والوں کی امیدیں بر آئیں انکو انکا حق مل گیا
معزز جج نے اپنے پچھلے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے اس فتوے میں پیش کی گئیں احادیث نبویہ کی روشنی میں فیصلہ لڑکی کے حق میں سنا دیا
یہ سنتے ہی عمران کا رنگ فق ہو گیا تھا اسکا دل چاہتا تھا کہ ابھی جا کر اس مفتی کا منہ نوچ لے جس نے اسکے خلاف فتوی دینے کی جرأت کی تھی
وہ بوجھل قدموں کے ساتھ دل میں نفرت کی آگ سلگائے کمرہ عدالت سے باہر نکل پڑا اور اب اس نے مفتی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں
کچھ دنوں بعد وہ ایک بڑے جامعہ کا رخ کر رہا تھا….وہ آج مفتی کو ایسا سبق سکھانے باہر نکلا تھا جو اسکی نسلیں بھی نہ بھول پائیں
اسکے خطرناک عزائم اب عمل کا روپ دھار رہے تھے
وہ اپنی گاڑی سے اتر کر غصے کی حالت میں جامعہ کے مرکزی دروازے سے داخل ہوا اور مرکزی عمارت میں سامنے ہی “مفتی محمد شریف” کی تختی پڑھ کر رک گیا
اسکا غصہ ابھی بھی عروج پر تھا اسکے تن من دھن میں آگ لگی ہوئی تھی وہ سخت نفرت کے ساتھ مفتی صاحب کا نام پکار رہا تھا
بالآخر وہ دارالفتاوی میں داخل ہو ہی گیا اسکا غصہ بدستور جاری تھا لیکن اب وہ چیخنے چلانے کے بجائے مفتی صاحب کو دھمکا اور ڈرا رہا تھا
لیکن یہ مفتی تھا کہ ٹکڑا فولاد پھگلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا
عمران نے اسے لالچ بھی دیا ڈرایا بھی دھمکایا بھی سمجھایا بھی بہکایا بھی لیکن وہ ایک ہی بات کہتا رہا کہ
“ہم تو انکے روحانی فرزند جنہوں نے حق کی راہ میں اپنی گردنیں بھی کٹوائی ہیں یہ کٹہرے میں کھڑا ہونا جج کا سامنا کرنا تو بہت چھوٹی بات ہے جب ہم کوئی فیصلہ کتاب و سنت سے دے دیں تو وہ فیصلہ چاہے ہمارے ہی خلاف کیوں نہ ہو جائے ہمارے اوپر ہی اسکا وبال کیوں نہ آ جائے ہم فیصلہ نہیں بدلا کرتے
کیونکہ یہ فیصلے ہمارے نہیں ہوتے یہ فیصلے تو رب کے کلام کے ہوتے نبی کے فرمان کے ہوتے ہیں”
عمران حیران و ششدر رہ گیا کہ یہ پیکر عزم و استقلال آخر کس کھیت کی مولی ہے کہ اسکے اوپر کوئی داؤ نہیں چلتا یہ کسی دام میں نہیں آتا یہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا پھر جب اس نے مفتی سے یہ پوچھا تو مفتی صاحب نے مسکرا کر جواب دیا کہ
“جب حق کی طاقت ساتھ ہو تو یقین ہی ایسا ہوتا کہ اسکے آگے ہر سزا ہیچ نظر آتی ہے ہر مشکل آسان لگنے لگتی ہے ہر مصیبت کسی سکون کی روداد سناتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہر مشقت اس آنے والے دن کی مشقت سے سہل اور کم لگنے لگتی ہے اور آخر میں ڈروں بھی کیوں؟
گھبراؤں بھی کس چیز سے؟
حالانکہ مجھے تو سبق ہی یہی پڑھایا گیا ہے کہ میرا دشمن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا آخر میرا دشمن میرے ساتھ کرے گا بھی کیا
مجھے جلا وطن کرے گا تو اس میں میری سیاحت ہے
مجھے قید کرے گا تو اس میں مجھے خلوت نصیب ہوگی رب سے باتیں کرنے کا موقع ملے گا
اور اگر مجھے جان سے مار ڈالے گا تو وہ میرے لئے شہادت ہوگی جسکی تمنا ہر وقت دل میں رہتی ہے”
یہ سنتے ہی عمران کہ حالت غیر ہونے لگی اسکا دل نرم ہوگیا جس دل میں وہ نفرت اور غصے کی آگ لئے یہاں آیا تھا وہ دل عزت و احترام کو اپنے اندر سمو چکا تھا اب اسکا انداز گفتگو بدل گیا تھا وہ لہجے کی سختی ، الفاظ کی کڑواہٹ اور آواز کی اونچائی ماضی کے دھندلکوں میں کہیں غائب ہوگئی تھی اب اسکی گفتار میں گراوٹ لہجے میں سلالت طبعیت میں ملامت اور الفاظ میں ندامت پنہا تھی
وہ چاہتا تھا کہ وہ اٹھ کر مفتی صاحب کا بوسہ لے لے
لیکن شاید اسکے اندر اتنی بھی ہمت نہیں رہی تھی…وہ ہمت ہار چکا تھا…وہ حق کی طاقت کے آگے سرنگوں ہو چکا تھا…وہ اندر ہی اندر اپنے عمل پر بے حد نادم تھا
آج اسے بہت بڑا سبق مل گیا تھا اسے آج زندگی کا راز مل گیا تھا اب اسے پیسے کے چلے جانے کا کوئی غم نہ تھا اسے اب صرف یہ پتہ تھا کہ حق کے آگے ہر چیز ہیچ ہے اور جو حق سے انکار کردے وہ خود نیچ ہے
وہ اٹھا اور سراپا معافی کا پتلا بن گیا اس نے مفتی صاحب سے معذرت کی اور اب وہ اپنے دل کا سارا بوجھ ہلکا کرکے واپس لوٹ رہا تھا
اب وہ عدالت کے فیصلے سے بھی راضی ہو گیا تھا کیونکہ وہ فیصلہ اللہ اور اسکے رسول کا فیصلہ تھا کیونکہ وہ حق کا فیصلہ تھا اور اسے پتہ چل گیا تھا کہ حق کو قبول کرنا ہی راہ نجات ہے.

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.