مرنے والی رفعت خان نہیں تھی !

محمد مزمل صدیقی

شعیب بن عزیز نے ٹھیک طرح ہی تو بچھڑنے والوں کا نوحہ کیا۔
؂ کوئی روکے یہاں وسعتِ اجل ک
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
بات یہ ہے کہ کیا قلم قبیلے کی باہمت ساتھی اور ہم سب کی ہر دلعزیز رفعت آپی اس جہانِ ظالم سے اُٹھ گئی ؟یکم اپریل کی ایک دوپہرجب اس قسم کے کرب انگیز سوالات سامنے آئے تو اپریل فول کا گمان ہوا۔دو ایک نے یہ خبر سُن کر کس قدر تڑپ کر کہا ۔’’بھئی اگر یہ آج کے روز مذاق ہے تو انتہائی لغو ہے ۔‘‘
معتبر ذرائع سے یہ خبر سن کر قلم قبیلے کے ہر فرد نے منہ میں اُنگلیاں داب لیں کہ ’رفعت خان ،مدیرہ قلم کی روشنی ‘ ہمارے درمیان بجھ گئی۔ہرکس و ناکس نے اپنے تئیں گریہ کیا کہ زندگی سے مقابلہ کرتی ہماری رفعت خان کو موت کے سنپولیئے نے نگل لیا ۔ اس خبر نے جہاں جاننے والوں اور نہ جاننے والوں کے حواس معطل کئے ،وہیں مجھے قلم قبیلے کے ہونہار اور باہمت تخلیق کار کاشف زبیر کی یاد دلاد۔کاشف کی یاد میں دوزانوں ہوا تو توازن کھو کر گرتا ہوا اکتوبر 2014میں پہنچ گیا ،جہاں ہم سب کی ہر دلعزیز تخلیق کار فرحانہ ناز ملک عید کے چوتھے روز ایک کار حادثے میں اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوکر ہم سب کو سوگوار چھوڑ گئی تھیں۔میں نہیں بتا سکتا کہ زمین اوڑھ کر سونے والوں سے میرے کس قدر احترام و اپنائیت کے رشتے تھے ۔
اس دن بھی قلم قبیلے نے ویسا ہی گریہ کیا تھا جیسے یکم اپریل کو رفعت خان کے اس جہاں سے اُٹھنے پر کیا تھا۔جیسے کاشف زبیر کے اس جہاں سے اٹھنے پر کیا تھا ،رفعت کے یہ جہاں سدھارنے کی خبر رابعہ عمران کو ملی،رات گئے اُس کافون آیا ،رابعہ عمران کا تعلق بھی قلم قبیلے سے ہے،ہماری ہر دلعزیز بہن ہیں ،کہانیاں لکھتی ہیں ،حساسیت سے اُس کا وجود چھلنی ہورہا تھا ،اس نے ہچکیاں لیتی آواز میں کس قدر ٹوٹ کر اپنے الفاظ مکمل کئے ۔’’بھائی .وہ.ر.رفعت خان فوت ہوگئی ۔ہائے میں کیا کروں.مرنے سے پہلے وہ مجھے بلاتی رہی .رابعہ آجاؤ.مجھے تمہاری سخت ضرورت ہے ۔مصروفیات نے مجھے کچھ ایسا الجھایا کہ میں نے دل میں قیاس کیا کہ وقت نکال کے مل لوں گی۔ ہائے مجھے وقت ہی تو نہ مل سکا میری تو کبھی اس سے ملاقات بھی نہ ہوئی تھی ۔ہائے یہ کیسا احساس ہے یہ کیسا پچھتاوا ہے جو آگ لگا رہا ہے …میں نہیں جینا چاہتی اب کہ وہ میری دردمند دوست تھی،ہم گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتے تھے ،کاش میں سب مصروفیات تیاگ کر وقتِ آخر اسے ملنے شیخ زاید ہاسپٹل چلی جاتی ۔‘‘
میں کئی دیر یہ گریہ سماعتِ دریدہ میں اُتارتا رہا پھر کہا ۔’’ مجھے کوزہ گر کی تخلیق پر تو نہیں ،تخلیق کے ادھورے پن پر تعجب ہوتا رہا ،ہمیشہ جمالیاتی ادھوراپن چاہئے وہ کنوارپن کی صورت ہو یا بصورتِ معذوری ،یہ تو بعید از قیاس ہے کہ اسے ادھورے پن کا احساس نہ ہو ،مگر صاحبو! بڑے لوگ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ،جو اپنی محرومیوں پر نعمتوں کا شکربجا لاتے ہیں ،تخلیق کا حسن لمحہ بہ لمحہ اپنے تخلیق کار کو جھنجھوڑتا نظر آتا ہے ،رفعت بحیثیت لفظوں کی تخلیق کار کہ وہ کبھی اپنے تخلیق کار سے شاکی نظر نہ آئی ،ہائے انسان کتنے کم عرصے میں اس دُنیا سے محو ہوجایا کرتے ہیں ۔‘‘
رابعہ کا نوحہ فضا میں تحلیل ہوگیا ،کتاب سامنے کھلی تھی ،سمسٹر سسٹم کے پرچوں میں نمبروں کی اہمیت سانس کی ڈوری سے منسلک ہوجایا کرتی ہے ،میرا لاشعور اس ڈوری کو توڑتا ہوا،مجھے لئے رحیم یار خان کے شہر خان پور پہنچا کہ جہاں ایک معزز گھرانے میں پھول سے بیٹی تولد ہوئی ،بچوں کی پیدائش کے وقت نام رکھنے میں حقیقت سے زیادہ خوابوں کا دخل ہوتا ہے ،جانے اُس عظیم باپ نے کیا خواب سجائے ہوں گے کہ اپنے زمینی حقائق سے کٹ کر بچی کا نام رفعت رکھ دیا ،وہ تھی بھی تو رفعت جس نے کبھی بلندیوں کے سفر پر بیساکھیاں تلاش نہ کیں ،سچ تو یہی تھا کہ آسمان کی بلندیاں ہمت والوں کے قدم چوما کرتی ہیں ۔
رفعت کتابوں کی دلدادہ ،زندگی کے مجذوب کرداروں سے محبت کرنے والی ،بڑھیا قسم کی سماجی کارکن تھی ،وہ تو ایک حوصلہ مند خدائی تحفہ تھی کہ جو مستحقین کے لئے اُجالا ویلفیئر ٹرسٹ جیسا ادارہ چلا رہی تھی،جہاں غریب و نادار بچیاں دستکاری کیا کرتی تھیں ،سیکھا کرتی تھیں ،روز گار کے اسباب پیدا کیا کرتی تھیں ۔ بچوں کے لئے مُسکان پروگرامز رفعت کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہی تو تھے کہ جہاں بچوں کے افسردہ چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے کو ملا کرتی تھی ،جہاں مفید معلومات کا تبادلہ خیال کیا جاتا تھا ۔ بھلائی کا کوئی بھی پروگرام ترتیب پاتاتو رفعت انسانی فلاح و بہبود کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔رفعت کے مطالعے نے اڑان بھری ،سماجی
بندھن (سوشل میڈیا)سے اس کی ٹھنی ۔ملک ملک سے لکھنے والوں کو اس نے جمع کیا ،بانو قدسیہ آپا کی شفقت تلے ایک رسالہ ’قلم کی روشنی ‘نکالا،اس رسالے میں شہرت سے زیادہ تحریر کو معیار مانا جاتا ،نئے لکھنے والوں کو بھر پور جگہ دی جاتی تھی ۔رفعت نے رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو شعور سے بہرہ ور کیا ۔وہ شعور جو روشنی بن کر محبت خلوص اور احترام کے سر چشمے سے پھوٹتا تھا ۔پھر ’قلم کی روشنی ‘ بن کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا تھا ۔ رسالہ اپنے بل بوتے پر جاری رکھنا کتنا جان جوکھوں کا کام ہے ،مجھ جیسے ایسے کئی کند ذہنوں نے رفعت کو یہ مشورہ دیا کہ بار بار کی بندش سے بہتر ہے اسے بند کردیا جائے کہ کئی بار نقصان ہوچکا ہے ،صرف اپنا لکھا جائے ،مگر اس کے لب پر ایک ہی حوصلہ و ٹھاٹھیں مارتا ہوا جذبہ جواں رہا۔
’’ایک رفعت کے قلم تھامنے سے بہتر ہے کہ بہت سی رفعت قلم تھا م لیں ،مجھے معلوم ہے کہ مجھ پر بہت سی باتیں اب بھی بنتی ہوں گی ،بہت سی چہ میگوئیاں آج بھی ہوتی ہوں گی ،بہت بار میری ادارتی ٹیم کو میرے خلاف کیا گیا ،مگر میرا صبر ہی ہے ،خیر بھائی ! پھر بات ہوگی ،اپنا خیال رکھئے گا ۔‘‘
گفتگو کا یہ لمحہ میرے اندر ٹھہر گیا ،میں نے بادل نخواستہ احتراماًسر جھکایا تو ندامت نے کان سے پکڑ کر ایک طرف کھڑا کردیا ،پھر کس قدر درشت لہجے میں کہا ۔’’بھلا کیا سوچ کر تم نے رفعت کو زمین پرآنے کو کہا ،بھلا کیوں اُس کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی ،بھلا کیوں اس کے جواں و حوصلہ مند جذبوں کو بوڑھا ناکارہ کہہ کر قلم کی روشنی گل کرنے کی کوشش کی ،بھئی قلم کی روشنی پلیٹ فارم ہے نئے لکھنے والوں کا ،کیا تم نے نہیں سُنا تھا کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تحاریر شائع کرنے کے ساتھ ساتھ مالی تعاون کرنے پر بھی آمادہ ہوچکی تھی ۔‘‘
قارئین! رفعت خان کو اپنے نام کی طرح زندگی سے عقیدت تھی ،وہ لفظ ‘خان‘ ہٹانا چاہتی تھی ،ایک بار بانو قدسیہ آپا سے صلاح لی اور کہا رفعت لفظ’ خان ‘سے نجات چاہتی ہے ۔بانو آپا اول تو مسکرائیں پھر کس قدر سنجیدہ لہجے میں گویا ہوئیں ۔
’’اشفاق احمد بھی خان ہی تھے ،تم اپنے نام کے ساتھ خان ہٹانے کا سوچنا بھی نہیں ،ہمیں خان برادری سے خاص لگاؤ ہے ۔‘‘
چنانچہ رفعت بانو آپا کا احترام کئے اورخان کا اعزاز سمیٹے رفعت خان ہی رہی ،یہ وہ بانو آپا تھیں کہ جب بھی رفعت کو تھوڑی پریشانی ہوا کرتی تھی،اس کی انگلیاں موبائل پر بانو آپا کا رابطہ نمبر تلاش کیا کرتی تھی،بانوآپا رفعت کے لئے ایک چٹان کا حوصلہ تھیں۔رفعت کو ان سے بات کرکے اطمینان ہوتا تھا ۔وقت نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پہلے بانو آپا اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوئیں اور 36دن بعداُن کی دیوانی رفعت خان نے بھی اس جہاں سے بستر سمیٹ لیا ۔
قارئین! میں نے مضمون شروع کیا تھا کہ ’’مرنے والی رفعت خان نہیں تھی ‘بات یہ ہے کہ وہ رُخصت کب ہوئی ؟ وہ تو بس جسم کی کایا سے آزاد ہوئی تھی ،ہم نے تو اس کا معذور وجود سپردِ خاک کیا ہے ،خدائے عظیم کی امانت لوٹائی ہے ،لیکن کیا منعفت صفات سے متصف رفعت زمین پر آگری ؟ہر گز نہیں ،اس واسطے کہ بس اس کے وجود کو سپردِ خاک کیاگیا ،اُس کی سوچ ،اُس کے آدابِ زندگی ،اس کے زندگی سے بھر پور عظیم مقاصد تو دفنانے والے دفنانے سے رہے ،وہ تو ہمارے لئے ایک مثلِ روشن کی مانند ہیں کہ ’کبھی مجبوری کو اپنی معذوری نہ بناؤ۔‘‘
رفعت خان کے یہ جہاں سدھارنے پر خواتین میں پہلی سو لفظی کہانی کی خالق اٹلی میں مقیم معتبرو محترم کہانی کار فاخرہ گل نے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا ،یقیناًبیرونِ ملک اس طرح کی اپنائیت محبت کا دوسرانام رفعت ہونے کی دلیل ہی تو ہے ۔ رفعت کی بہن فریحہ نے آگاہی دی’ ’کہ کسی طور ’قلم کی روشنی ‘پرچہ بند نہ کیا جائے ،میری بہن کے مشن کو آگے بڑھایا جائے ۔‘‘
پرچہ جاری رکھنے کی اس دوڑ میں حجازِ مقدس میں مقیم معتبر ناول نگار جناب محمود ظفر ہاشمی آگے رہے ،وہ اپنے شہرہ آفاق ناولز کے سبب خاصی معرفت رکھتے ہیں ،قلم قبیلے کے معزز و معتبر کرم فرماؤں میں سے ہیں،انہوں نے تسلسل سے ’قلم کی روشنی ‘ کو جاری رکھنے کا بیڑا اٹھایا ،اِسے جاری رکھنے کا عزم کیا اور ادارتی امور میں عظمیٰ فردوس اور خدیجہ عطا کے نام تجویز کئے کہ یہ دونوں رفعت خان کے بہت قریب تھیں اور ادارتی امور کا گہرا تجربہ بھی رکھتی تھیں ۔وقتِ آخر اپنے رب سے ملتجی ہوں کہ وہ محمود ظفر ہاشمی صاحب ایسے محترم و معتبر آدمی کو ہمت و قوت عطا کرے کہ وہ یہ سلسلہ جاری و ساری رکھ سکیں اور نئے لکھنے والوں کو مواقع دیتے رہیں ،رفعت کے عظیم مشن کی تکمیل کرتے رہیں کہ رفعت رفعت ہی رہے اوروہ کبھی مرنے نہ پائے !
میں اُسے زندگی سے ڈسواتا
کاش! ہوتا ،اجل کا اِک بیٹا

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.