اِک عمر اثر ہونے تک

قسط نمبر 2

بھائی اور بھابئی کیوں نہیں آئے کھانا کھانے ؟ کہیں باہر گئے ہیں ؟؟؟ سحر نے پلیٹ میں کچھ چاول نکالے۔۔
خاموش کیوں ہیں ؟ بتائیں نہ کہ وہ کیوں نہیں آء۔ ابمی کو خاموش پا کر اس نے پھر پوچھا۔
کیا تم نے نہیں آج تک اکٹھے اس گھر سے باہر جاتے دیکھا ہے ؟ امی نے بے زاری سے جواب دیا۔
ہاں لیکن آج تک کھانے سے غیر حاضر بھی نہیں دیکھا انہیں۔ ایک کھانے کی میز ہی تو ہے جہاں تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی مگر کم سے کم سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ بتائیں ابمی کیا بات ہے ؟ اُس نے پلیٹ کو سامنے سے ہٹا دیا۔
کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کیا بات ہوسکتی ہے؟؟ جب سے حریم پیدا ہوئی ہے تب سے دونوں کے جھگڑے مزید بڑھ گئے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تمہارا بھائی سارا دن گھر نہیں آتا اور بھابھی اپنے کمرے سے نہیں نکلتی میں اس صورتحال سے بہت پریشان ہو اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو نوبت دونوں کی علیحدگی تک پہنچے گی۔
معاملات تو حریم کے آنے سے پہلے بھی اسی طرح تھے اور ان سب میں بھابھی بے چاری کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا قصور بھائی کا ہے۔ اتنا پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ اگر ان کی سوچ اتنی گری ہوئی ہے۔ سحر نے مایوس کن لہجے میں کہا۔
پہلے لڑائی جھگڑے اولاد نہ ہونے پر تھے اور اب اولاد ہونے پر ہیں اور قصور تمہاری بھابئی کا ہے کیوں کہ وہ ایک عورت ہے یہاں تمام الزامات عورت پر لگتے ہیں تمام انگلیاں عورت پر اُٹھتی ہیں مرد کا کیا ہے؟ وہ نہایت شان سے قدم بڑھاتا ہوا گزر جاتا ہے تمہارے بھائی میں بھی آخر تمہارے باپ کا خون دوڑتا ہے اور جو سب کچھ وہ کر رہا ہے وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ امی کے چہرے پر مایوسی کی ایک لہر چھا گئی تھی۔
امی پلیز !! آپ بات بات پر ابو کو درمیان میں نہ گھسیٹا کریں۔ ان کی روح کو تکلیف ہوتی ہوگی۔ مجھے آج بھی ان پر یقین ہے کہ اگر وہ ہوتے تو یہ سب کچھ نہ ہورہا ہوتا۔ مجھ میں بھی تو انہی کا خون دوڑ رہا ہے لیکن میری سوچ مختلف ہے بھائی سے!! سحر کے انداز میں فخر تھا۔
میں نے کوشش کی تھی کہ تم دونوں کی تربیت سے میں روایات اور اس طرح کی ادنیٰ سوچ کو بدل سکوں لیکن میں بھول گئی تھی کہ بیٹے کو باپ پر ہی جانا ہوتا ہے۔ خون کبھی نہیں بدلتا کبھی نہیں۔ وہ کھانا کھائے بغیر وہاں سے چلی گئیں۔ ساری عمر گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ اس معاشرے میں عورت صرف غلام ہے۔ اقدار۔ رسم و رواج اور تکبر کی زنجیروں میں جکڑی غلام!!
حاجرہ !!! حاجرہ !!! عادل جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اس نے حاجرہ کو آوازیں دینا شروع کردیں۔
حاجرہ نہیں ہے گھر پر !! سحر نے وہیں بیٹھے جواب دیا۔
کیوں کہاں ہے ؟ عادل نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
میں نے اُسے دو دن کی چھٹی دے دی ہے۔ اس کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ سحر نے روکھے لہجے میں دیکھے بغیر جواب دیا۔
نوکروں کو اس طرح سر پر چڑھانے کے ضرورت نہیں ہوتی۔ ورنہ بعد میں بہت تنگ کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے عادل اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ نوکر نہیں ہے۔ انسان ہے۔ وہ بھی بیمار ہوسکتی ہے۔ اُسے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اگر اُس نے کبھی شکایت نہیں کی، جھک کر خوشی خوشی سارے حکم بجا لاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہر نہیں کہ وہ کچھ محسوس نہیں کرتی۔ وہ پوری قوت سے چلائی۔ کچھ دیر پہلے جو زہر اُس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا وہ زبان پر اُتر آیا تھا۔
یہ تم کس لہجے میں اپنے بڑے بھائی سے بات کررہی ہو ؟ وہ کمرے میں داخل ہونے کے بجائے واپس سحر کی جانب مُڑا۔ وہ بھی کھانے کی میز چھوڑ کر اُسی کی جانب بڑھی۔
آپ کو میرا لہجہ نہیں، میری بات کڑوی لگ رہی ہے کیونکہ میں آپ کو حقیقت بتا رہی ہوں۔
تم دونوں کیا اب مجھے مار کر دم لو گے؟ امی اُن دونوں کی باتیں سن کر اپنے کمرے سے باہر آگئیں۔ پہلے لڑائی جھگڑے کم پڑ گئے تھے جو تم دنوں نے نی جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ جو آپ ہر وقت اس کی تربیت اور تمیز کے قصیدے پڑھتی رہتی ہیں نہ میرے سامنے دیکھیں ذرا اس کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ اپنے بڑے کے ساتھ کس طرح بات کرتے ہیں عادل نے سحر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جکبہ اس نے نظریں جھکا کر خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی۔
سحر تم چلو اپنے کمرے میں۔ میں بات کرتی ہوں عادل سے۔ امی نے سحر کو حکم دینے والے انداز میں کہا۔
ہاں یہی ہوتا ہے اس گھر میں!! جو صحیح بات کررہا ہو اسے منظر سے ہٹا کر کمرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ساری تمیز تہذیب بس لڑکیوں میں ہونی چاہیے۔ مردوں کا کاے ہے وہ تو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہیں شائد!! وہ اس بار دھیمے انداز میں بول رہی تھی۔
بھابھی کی حالت پر رحم نہیں آتا آپ کو؟ ذہنی مریضہ بنا دیا آپ نے انہیں۔ اولاد تو مرد کے نصیب سے ہوتی ہے کیا ہوا اگر وہ آپ کو بیٹا نہیں دے سکیں۔ مگر اب بے اولاد تو نہیں ہیں آپ !! اتنی بے شکری کرو گے تو خدا کی تو یاد رکھنا بھائی !! خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ ایک پل نہیں لگتا اور تختہ الٹ جاتا ہے۔ وہ یہ کہہ کر مڑی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ آنسوؤں کی لہر اُسکی آنکھوں سے نکل کر اُسکے چہرے پر پھیل گئی۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والی سحر اندار سے اتنی ہی کمزور تھی۔
نتیجہ دیکھ لیا آپ نے اسے یونیورسٹی بھیک کر۔ یہی سب کچھ سیکھا ہے اس نے وہاں بہت جلد بھگتیں گی آپ۔ عادل نے بات کو وہیں ختم کیا اور اُلٹے قدموں گھر سے باہر چلا گیا جبکہ سحر سوچ رہی تھی کہ اُس نے ایسا بھی کیا غلط کہا جو عادل بھائی بار بار اُس کا حوالہ دے امی کو دے رہے ہیں۔
…………………………٭٭٭٭…………………………٭٭٭٭…………………………
الارم کب سے بچ رہا تھا۔ رات بہت دیر سے سوئی تھی۔ اُٹھ جاؤ سحر!! دل اُسے جگا رہا تھا مگر اُس نے ارادہ کرلیا تھا کہ آج وہ یونیورسٹی نہیں جائے گی۔ تھکی ہوئی صورت لے کر وہ یونیورسٹی نہیں جانا چاہتی تھی۔ یا شائد وہ سرخ اور بے جان آنکھوں سے عامر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ ہمیشہ خود کو باہمت، نڈر اور مضبوط ظاہر کرتی آئی تھی اُسے لگا کہ اگر عامر اُس کی حالت پہچان گیا تو وہ اس کی وجہ ضرور پوچھے گا وہ اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اُٹھ جاؤ سحر !!!! تمہیں دیر ہورہی ہے!!! بھابھی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا!! ساتھ ہی نہیں نے کھڑکیوں سے پردوں کو ہٹا دیا۔ طلوع ہوتے سورج کی کرنیں جب اُسکی تھکی آنکھوں سے ٹکرائیں تو اُس نے آنکھیں کھول دیں۔
بھابھی آپ کو آج صبح صبح کیسے جاگ گئیں؟ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھی بیٹھی۔
تمہاری وجہ سے جلدی اٹھنا پڑا ہے آج مجھے !! بھابھی نے اسکے بیڈ پر بکھرا پڑا اُس کا ڈوپٹہ اُسے پکڑواتے ہوئے کہا۔
میری وجہ سے کیسے ؟؟ سحر نے ڈوپٹہ پکڑ لیا جبکہ وہ حیران بھی ہورہی تھی۔
حاجرہ کو چھٹی کس نے دی؟؟ تم نے ہی دی نا!! اس لیے ناشتہ بھی تو کسی کو بنانا تھا۔ چلو شاباش جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آجاؤ نیچے۔ اگر تمہیں دیر ہوگئی تو میرا جلدی اٹھنا ضائع چلا جائے گا وہ اُسے تاکید کرکے خود نیچے چلی گئیں۔
بوجھل قدموں سے وہ واش روم تک پہنچی۔ اس کی سوچ ابھی تک اسی بات پر اٹکی تھی کہ وہ یونیورسٹی جائے یا نہ جائے۔
کل بھی عامر سے ملاقات نہیں ہوئی۔ آج میں نہ گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اگلے دو روز پھر ویک اینڈ کی وجہ سے اُس سے نہیں مل سکوں گی۔ نہیں میں اُس سے اتنے روز تک دور نہیں رہ سکتی۔ پھر بجلی کی تیزی سے اُس نے برش کیا ہاتھ منہ دھو کر وہ برق رفتاری سے سیڑھیاں اترتی ہوئی کچن کی جانب لپکی۔
مجھے پتہ تھا کہ دیر ہورہی ہے تمہیں!! اس لیے ناشتہ بالکل تیار ہے آؤ بیٹھو جلدی سے!! رخشندہ بھابھی نے کپ میں گرما گرم چائے انڈیلتے ہوئے کہا اور وہ بھی تیزی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ کل جو کچھ ہوا۔ بھابھی نے کتنی آسانی سے بھلا دیا۔ وہ ایسی ہی تھیں۔ ہر روز نئی صبح نئی اُمید کے ساتھ دن کا آغاز کرنا اُن کی عادت بن چکا تھا۔
بھابھی یہ میرا ناول یہاں کچن میں کون لایا؟ اچانک اُسکی نظر فریج کے اوپر پڑے اپنے ناول پر پڑی۔ اُس نے کپ رکھ دیا وہ کافی حیران تھی۔
رات کو میں لے کر آئی تھی تمہارے کمرے سے۔ نیند نہیں آرہی تھی حریم کو سُلا کر میں نے سوچا کہ تمہارا ناول پڑھوں اور تمہیں لکھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو تجسس ہوا تھا۔ بھابھی نے وضاحت کی۔
اور پھر آپ نے میرا ناول پڑھا اور آپ کو نیند آگئی ہے نا؟ سحر نے بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔
خیر اتنا برا بھی نہیں لکھتی تم کہ بندے کو نیند آجئے۔ بہت اچھا لکھا ہے تم نے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری ہی کہانی ہو۔ بھابھی اسکے پاس ہی آکر بیٹھ گئیں۔
حریم ابھی صرف دو دن کی ہے اور آپ نے کچن میں کام بھی کرنا شروع کردیا۔ آپ کو تو کم سے کم دس دن آرام کرنا چاہیے تھا۔ سحر نے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن اُسے ناکامی ہوئی۔
سحر!! کیا سچ مچ میں ایک دن اتنی تبدیلی آئے گی کہ سب کچھ بدل جائے گا؟ وہ ابھی بھی سحر کے ناول کے سحر میں گرفتار تھیں۔
ہاں!! مجھے اُمید ہے بھابھی ایک دن ایسا ضرور آئے گا بس آپ کو بھی ثابت قدمی دکھانی ہے ہمیشہ!! کبھی مایوس نہیں ہونا !! جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا اور کچھ ہو رہا ہے اس کا صلہ حریم کو ملے گا وہ آپ سے بالکل مختلف زندگی گزارے گی!! آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی!! سحر نے رخشندہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے کہا۔
اپنا ناول جب مکمل کرلو تو مجھے پڑھنے کیلئے دینا۔ باقی سارا تو میں نے پڑھ لیا لیکن جو رہتا ہے وہ لکھ لو تو بتانا۔ مجھے اس کا اختتام پڑھنے کا تجسس ہو رہا ہے۔ بھابھی نے فریج سے ناول اُتار کر اس کے پاس میز پر رکھ دیا۔
بسں تقریباً پورا ہوچکا ہے۔ اچھا ہوا آپ نے یاد دلا دیا۔ چائے کا آخری گھونٹ بھر کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم نے اس ناول میں اپنا نام کیوں استعمال کیا؟ مطلب لڑکی کا کوئی اور نام بھی تو رکھ سکتی تھی۔ بھابھی نے خالی برتن اٹھاتے ہوئے کہا۔
بس یونہی!! کہانی کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے میں نے اس میں سب حقیقی نام استعمال کیے ہیں!! سحر کا کردار بھی اسی لیے میں اچھی طرح لکھ پائی کیونکہ میں اس کا حصہ ہوں۔ مگر ساری کہانی حقیقی نہیں ہے۔ کچھ کچھ کردار فرضی بھی ڈالنے پڑتے ہیں۔ اس نے ناول میز پر سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
جیسے تم نے عامر کا کردار ڈالا ہے مجھے اُس کا فرضی کردار بھی بہت اچھا لگا۔ تم واقعی بہت اچھا لکھتی ہو۔ بھابھی نے ایک بار پھر اس کی کہانی کی تعریف کی۔
نہیں بھابھی وہ حقیقی کردار ہے۔ میری زندگی سے جُڑا ایک جیتا جاگتا کردار اُس نے سوچا۔ ساتھ ہی وہ کچن سے باہر آگئی۔
کہاں مگر گئے ہیں سب؟ کب سے آوازیں دے رہا ہوں!! رخشندہ کہاں ہے؟
عادل نے سحر کو دیکھتے ہی پوچھا۔
کیا ہوا ہے بھائی؟ بھابھی کچن میں ہیں۔ اُس کے کہتے ہی بھابھی بھی کچن سے باہر آگئیں۔
کچھ چاہیے آپ کو ؟ ناشتہ بنادوں آپ کیلئے؟ رخشندہ نے لڑکھڑاتے الفاظ میں پوچھا۔
وہ جو مصیب میرے گلے میں ڈال دی ہے تم نے اُسے سنبھالو جاکر کہیں رو رو کر اس کی آواز ہی نہ دب جائے۔ بھائی کا اشارہ حریم کی طرف تھا اور خود واش روم کی جانب چل دئیے۔
سحر نے بولنا چاہا مگر وہ اپنے جذبات کو اندر ہی اندر پی گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اب اُس نے جواب دیا تو اس کا سارا اثر بھابھی پر پڑے گا کیونکہ خود تو وہ یونیورسٹی چلی جائے گی۔ اُس نے بھابھی پر ایک خاموش نظر ڈالی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جذبات کو اندر چھپالینا کتنا درد ناک عمل ہے۔ خاص طور پر جب جذبات اتنے بھڑک رہے ہوں اور بھبھای نجانے کتنے سالوں سے کتنی آسانی سے یہ سب سہہ رہی تھیں۔ جذبہ کوئی بھی ہو مگر جب وہ بھڑکنے لگے تو اُسے دبانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اندر سے اپنے آپ کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ تب انسان بے حس ہو جاتا ہے۔ وہ آسانی سے کسی بھی تکلیف کا سامنا کرلیتا ہے جیسے بھابھی کررہی ہیں۔ کیا وہ سچ میں اتنی ہی بے حس ہوگئیں ہیں۔ اُس نے سوچا اور پھر ایک دم سے اُسے خیال آیا کہ اُسے یونیورسٹی سے دیر ہورہی ہے۔
…………………………٭٭٭٭…………………………٭٭٭٭…………………………
اسلام و علیکم بابا جان!! رخشندہ نے ادب سے سرجھکاتے ہوئے سلام کیا۔
وعلیکم!! قادر شاہ نے حسب توقع سلام کا آدھا جواب دیا۔
شہباز!! صوفی کو کہو کہ گاڑی سے مٹھائی لے آئے۔ قادر شاہ نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
جی ابا جان!! شہباز گیراج کی طرف بڑھا۔
فصیلت کہاں ہے؟ نظر نہیں آرہی؟ انہوں نے گھر کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اپنے کمرے میں ہیں۔ آپ بیٹھیں ابا جان!! میں انہیں بلا کر لاتی ہوں! رخشندہ نے انہیں بیٹھنے کا کہا اور خود فضیلت بیگم کے کمرے کی طرف چل دی اور پھر کچھ ہی دیر میں سحر کی امی فضیلت بیگم ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔
اسلام وعلیکم بھائی صاحب!! آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھی پاس صوفے پر ہی بیٹھ گئیں جبکہ رخشندہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھی کہ اس کا باپ اور بھائی حریم کی مبارکباد دینے آئے ہیں اور اس بات کی اسے اور بھی خوشی تھی کہ وہ باقاعدہ مٹھائی کے ساتھ آئے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ خاندان میں لڑکی پیدا ہونے پر خوشی منائی گئی ہو۔ مبارکباد دی گئی ہو یا سب سے بڑھ کر مٹھائی خریدی گئی ہو اس کیلئے یہ بات کافی حوصلہ افزاء تھی اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب عادل اس سے اور حریم سے بے زار تھا۔ اس نے جلدی جلدی حریم کے کپڑے بدلے اور اسے لے کر ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔
اتنے میں شہباز اور صوفی کمرے میں داخل ہوئے۔
یہاں میز پر رکھ دو!! شہباز نے صوفی کو مٹھائی رکھنے کیلئے کہا!! اس نے مٹھائی رکھی اور واپس گاڑی کی طرف چلا گیا۔
آپ نے یونہی تکلف کیا بھائی صاحب!! اس سب کی کیا ضرورت تھی!! آپ خود چل کر آگئے اتنا کیا کم تھا؟
رسمیں تو نبھانی پڑتی ہیں فضیلت!! انہوں نے رخشندہ کی بانہوں میں لپٹی حریم پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ رخشندہ کو تبدیلی کی ہوا چھو کر گزر گئی۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا اُس کی زندگی میں اُس نے تصور نہیں کیا تھا۔
سحر میں اگر گھر پر ہوتی تو بہت خوش ہوتی اس موقع پر اس موقع کی تلاش شائد ہی کسی اور کو ہو جتنی اسے تھی!! رخشندہ نے حریم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جب کہ خوشی اس کے چہرے پر عیاں تھی کاش کہ عادل بھی گھر پر ہوتا تو اس موقع پر اس نے سوچا۔
جبکہ اس کی اس بات پر شہباز اور قادر شاہ دونوں ہی حیران ہوئے تھے۔
رخشندہ بیٹا ادھر لاؤ حریم کو میرے پاس!! جا کر چائے کا پانی کا انتظام کرو!! حاجرہ کا نہ ہونا اس وقت رخشندہ کو بھی برا لگ رہا تھا۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دراصل شکارپور جانا ہے زمینوں پر صوفی باہر گاڑی میں انتظار کررہا ہے۔ اس بار شہباز نے جواب دیا۔
میرا خیال ہے ہمیں کام کی بات کرنی چاہیے۔ قادر شاہ نے ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے کہا۔ 62 سال کی عمر میں بھی رعب اور دبدبہ کم نہیں ہوا تھا اُن کی شخصت سے جی جی کہیے بھائی صاحب!! فضیلت بیگم نے ادباً کہا۔
ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ شہباز اور سحر کی تاریخ پکی کرسکیں۔ میرا مطلب ہے دونوں کی شادی کی تاریخ!! فیصلہ کن لہجے میں انہوں نے اپنا کام بتایا
جبکہ رخشندہ کے چہرے پر خوشی جتنی تیزی سے آئی تھی اتنی تیزی سے غائب ہوگئی وہ غلط سوچ رہی تھی نہ تو کوئی مبارکباد اسے ملی تھی نہ ہی مٹھائی حریم کیلئے تھے۔ وہ بدستور حریم کے سرپر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں۔ اُسے پھر سے یاد آیا کہ وہ ایک لڑکی ہے اور اُس سے بڑھ کر وہ ایک لڑکی کی ماں ہے۔ اتنے میں حریم نے بھی رونا شروع کردیا جس کی آواز سن کر قادر شاہ کے چہرے پر ناگواری واضع تھی۔ رخشندہ حریم کو لے کر وہاں سے چلی گئی کیونکہ وہ موقع کی نزاکت جان چکی تھی۔
…………………………………………٭٭٭٭………………………………………………………………
بھائی صاحب !! آپ جانتے ہیں کہ اس کے امتحانات ابھی نہیں ہوئے!! یونیورسٹی کا ڈیڑھ سال باقی ہے۔ وہ پڑھائی مکمل کیے بغیر شادی کیلئے راضی نہیں ہوگی۔ فضیلت نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
لڑکیوں کا راضی ہونا یا نہ ہونا کب سے اہمیت کا حامل ہوا ہے اس خاندان میں ؟؟ فیصلہ ہوی ہے جو بڑے کرتے ہے اور بس میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے قادر شاہ نے اس بار قدرے غصے میں کہا۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی صاحب !! لیکن وہ اس طرح کی لڑکی ہرگز نہیں ہے جو سر جھکا کر ہر بات مان لے جب تک وہ اس شادی کیلئے راضی نہیں ہوجاتی میں آپ کو شادی کی تاریخ نہیں دے سکتی۔ آپ بات سمجھنے کی کوشش کریں بھائی صاحب!!
مجھے سمجھانے سے بہتر ہے اپنی بیٹی کو سمجھاؤ!! ویسے بھی مجھے لگ رہا ہے کہ بہت پر پُرزے نکل آئے ہیں اس کے میں نے اسے بڑھائی کی اجازت اس دن کیلئے نہیں دی تھی کہ وہ مرد کی بات کو ہوا اُچھال دے عادل اور رخشندہ کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ شہباز اور سحر کی رسم بھی پوری کردی جائے۔
آپ ناراض نہ ہوں میں اسے سمجھاؤں گی۔ میری بات نہیں ٹالے گی وہ فضیلت نے گھبراتے ہوئے کہا۔ وہ قادر شاہ کے غصے سے بخوبی واقف تھی۔
وہ ہماری بات نہ ٹالے تو اس میں اس کی بھلائی ہے ورنہ جو ہوگا اس کے ساتھ اسے ابھی طرح بتا دیا۔ انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا اور جبکہ شہباز خاموشی سے سب سن رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سحر کا ماننا مشکل ہے۔ وہ اُس سے نفرت کرتی تھی۔ بچپن سے ہی رخشندہ کو عادل کیلئے اور بدلے میں سحر کو شہباز کیلئے منتخب کرلیا گیا تھا۔ ایسا ہی ہوا تھا ہمیشہ پھر جو لکھیر کھینچی جاتی تھی وہ کبھی مٹائی نہیں جاسکتی تھی وہ دونوں تو وہاں سے چلے گئے تھے لیکن فضیلت بیگم کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ ایک طرف اکلوتے بیٹے عادل اور رخشندہ کے خراب تعلقات اور دوسری طرف سحر کی زندگی کا بڑا فیصلہ اسی کی مرضی کیخلاف ہورہا تھا۔ وہ خاموشی سے ٹیبل پر پڑے مٹھائی کے ٹوکرے کو دیکھ رہی تھیں کچھ دیر پہلے وہ مٹھائی اسے تبدیلی کی نوید سنا رہی تھی جبکہ وہ مٹھائی اب اسے ایک طوفان کا پیغام دے رہی تھی۔
…………………………………………٭٭٭٭………………………………………………………………
آج بہت خوش ہو۔ اس خوشی کی کوئی خاص وجہ ؟؟ عامر نے کلاس سے نکلتے ہوئے سحر کو چھیڑا۔
میں تو میہش ہی خوش ہوتی ہوں پریشانیاں میری شان کیخلاف ہیں۔ اُ سے نے بھی فخریہ انداز میں بالوں کو سلجھاتے ہوئے کہا۔ چلو کینٹین چلتے ہیں۔ عمبرین بھی وہیں ہوگی۔
بس یہی تھوڑا وقت ہوتا ہے ہمارے پاس بات چیت کا اور وہ بھی تم عمبرین کے نام کررہی ہو۔ عامر نے خفگی کا اظہار کیا۔
فکر مت کرو۔ یہی وقت ہے ورنہ تم سے شادی کے بعد نہ عمبرین ملے گی نہ ہی خوشی کے ایسے لمحات!! وہ ابھی تک مذاق کے موڈ میں تھی۔
ارے واہ!! آج تو بالکل بڈھی روح نہیں لگ رہی۔ تم پر یہ لائٹ پنک کلر بہت سوٹ کرتا ہے۔ ہلکی سے اگر لپ اسٹک بھی ہوتی تو قیامت لگتی تھ۔ عمبرین نے وہاں ٹپکتے ہی مخصوص انداز میں اس کی تعریف کی۔
تم کیوں شرما رہے ہو مجنوع!! میں سحر کی تعریف کررہی ہوں نہ کہ تمہیں لپ اسٹک کا مشورہ دے رہی ہوں۔ عمبرین نے عامر کے چہرے پر نظریں ٹکراتے ہوئے کہا جبکہ سحر میں مسکرا دی۔
یہ جو تمہیں آج اتنی ہنسی آرہی ہے۔ میں پوچھ سکتی ہوں کہ اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ اس بار اس نے سحر پر جملہ کہا۔
بہت گہرا راز ہے۔ اس نے عامر پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
دراصل مجھے شہباز نے پرپوز کیا ہے۔ سحر کی شریر نظریں ابھی عامر پر تھیں۔ جو کہ کچھ دیر پہلے شرما رہا تھا اور اب سحر کا راز سننے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل چکے تھے۔
پرپوز کرنے والی کیا بات اس میں!! تم تو بچپن سے ہی اس کی منگیتر ہو۔ عمبرین نے سحر کا اشارہ سمجھ گئی تھی اس نے عامر کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔
اچھا تو اس کا مطلب میں جو آج انگوتھٹی لے کر آیا ہوں واپس لے جانی پڑے گی۔ عامر نے بھی موقع کا فائدہ اٹھایا۔ خوامخواہ میں نے دس ہزار روپے ضائع کردئیے۔ اس نے بے زاری سے کہا۔
نہیں خیر اب ایسی بھی بات نہیں۔ انگوٹھی واپس لے جانا بدشگونی ہوتی ہے۔ مجھے ابھی تک کسی نے پرپوز نہیں کیا۔ اگر تم چاہو تو………… عمبرین نے چور نظروں سے سحر کو دیکھا۔
کتنی بے شرم ہو تم !! سحر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدل جاتا ہے تمہارا !! میرے ہی سامنے میرے ہونے والے شوہر کو پرواز کرنے کا کہہ رہی ہو۔
سحر نے محبت بھری نظر عامر پر ڈالتے ہوئے مصنوعی غصے میں عمبرین کو ڈانٹا۔
واہ، واہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے اپنے پرپوزل کے قصے سنا رہی تھی اور اب ایک انگوٹھی کے بدلے تم نے اپنے ہی منگیتر کو ٹھینگا دکھا دیا اور بے شرمی اور گرگٹ کے طعنے مجھے دے رہی ہے مہارانی !!! ویسے مجھے لگتا ہے کہ تم دونوں کا کھانے پینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے آج!! اس لیے تم دونوں یہاں بیٹھ کر صرف قسموں اور وعدوں پر گزارہ کرو مجھے تو بھوک لگ رہی ہے میں کینیٹن جارہی ہوں۔ عمبرین نے ایک نظر دونوں پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئی۔ عامر اور سحر دونوں ہی مسکرا دئیے۔
چلو ہم بھی آج کچھ بنا کھاتے ہیں۔ قسمیں تو رہی ہی کھاتے ہیں۔ اب دل بھر گیا ہے قسموں سے!! عامر نے سحر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
تم ناراض ہو نا!! میں نے جو مذاق کیا وہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سحر اسکی آنکھوں کو ہمیشہ پڑھ لیا کرتی تھی اور اُسے لہجے میں پشمانی تھی۔
ایسا مذاق نہیں کیا کرتے!! مجھے ایسے مذاق سے بھی ڈر لگتا ہے!! مذاق میں بھی تم سے جدائی کا تصور میرے رونگٹنے کھڑے کردیتا ہے تمہیں مذاق کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔!!!
تم بھی بہت عجیب ہو!! سحر نے جواباً کہا۔
میرے سر پر سینگھ ہیں یا میرے کان لمبے ہیں!! جو تم عجیب کہہ رہی ہو مجھے؟ عامر نے منصوعی خفگی کا اظہار کیا!!
سینگھ تو نہیں ہیں لیکن کان تھوڑے سے ضرور لمبے ہیں تمہارے!! سحر نے شریر لہجے میں کہا۔
اچھا وہ تمہاری کہانی کہاں تک پہنچی !! مکمل کی یا نہیں ابھی ؟؟ عامر نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
اوہ!! ہاں اچھا کیا تم نے یاد دلا دیا۔ اس نے بیگ میں سے اپنا ناول نکالتے ہوئے کہا!! تقریباً مکمل ہی ہے!! میں آخری کچھ سطریں باقی ہیں۔ کیونکہ آخری سین تمہارا ہی ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس کا اختتام تم ہی لکھو۔ اس نے ناول عامر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
کیا مطلب میں لکھوں !! مجھے سے نہیں ہوتا یہ کام۔ اس نے ناول پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اس میں مشکل کیا ہے۔ پہلے سارا ناول پڑھ لو اور پھر اپنے حساب سے اس کو مکمل کردو۔ ویسے بھی کہانی میں عامر کا کردار تم سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے تم مجھ سے بہتر لکھ سکتے ہو اپنے بارے میں اپنی فیلنگز کے بارے میں اس لیے پلیز اب انکار مت کرنا۔ ایک ہی تو سین ہے اس نے عامر کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
پھر بھی میں نے آج تک نہیں لکھا کچھ۔ اچھا پھر بتا دو کہ کیا کچھ لکھنا ہے تاکہ میں آج ہی اس کہانی کو مکمل کردوں۔ عامر نے کندھے اچکائے۔
حد کرتے ہو تم!! اگر میں نے ہی بتانا ہے تو لکھ بھی خود ہی لوں گی۔ میں نے سوچا اگر تم لکھو گے تو حقیقت سے قریب تر ہوجائے گا۔ ویسے بھی تمہاری اور میری کہانی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ کمال لکھو گے۔ اس نے سرخ نظریں عامر پر ڈالتے ہوئے کہا۔
حقیقت سے قریب تر ہی ہوگا۔ لیکن فی الحال تم اپنا ہاتھ دکھاؤ!! عامر کو جیسے کچھ یاد آگیا ہو اور اس نے جیب میں سے ایک ڈبیا نکالی جبکہ اس دوران سحر کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ڈبیا میں کیا ہے۔
کیا تم مجھ سے شادی کرو گی !!! ؟؟ فلمی انداز میں عامر نے انگوٹھی لہراتے ہوئے کہا۔ سحر نے شرماتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا!!!
مجھے نہیں علم کہ اس موقع پر کیا کہتے ہیں لیکن شکریہ۔ سحر نے غور سے انگلی میں چمکتی انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آئی لو یو!! عامر نے حسب معمول اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جبکہ سحر شرم کے مارے سرخ پڑ رہی تھی۔ پھر ایک دم اس کے چہرے پر پریشانیوں نے ڈیرے ڈال دئیے۔
کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ عامر نے اس کے بدلتے تاثرات کو محسوس کرلیا تھا۔
میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کا لمحہ شائد ہی کوئی ہو !! لیکن یہاں تک کا سفر تو آسان تھا جو ہم نے طے کرلیا آگے نجانے کیا کیا موڑ آئیں گے۔ خدانخواستہ اگر ہم کہیں راستے میں بھٹک گئے تو ہماری محبت کا کیا بنے گا۔ بھٹکی ہوئی محبت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے نہ ہی جینے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے۔ سحر کی نظر ابھی تک اس چمکدار انگوٹھی پر تھی۔
مجھے منزل کی پرواہ نہیں ہے سحر !! لیکن سفر جتنا بھی ہوگا تمہارے ساتھ ہی ہوگا۔ مجھے بھٹکنے سے ڈر نہیں لگتا لیکن ساتھ چھوٹنے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔ بتاؤ سحر کیا ساتھ دو گی میرا؟؟ حالات چاہیے جو بھی ہوں !! راستے کتنے ہی دشوار ہوں!! منزل ملے نہ ملے ان سب خدشوں کے باوجود کیا تم میرا ساتھ دوگی؟؟
تمہارا ساتھ نہ بھی دینا چاہوں تب بھی میرے اندر جو بغاوت ہے!! جو محبت ہے اور وہ ماحول جو میں ہر وقت اپنے گھر میں دیکھتی ہوں وہ تمہارا ساتھ دینے پر مجبور جکرتا ہے مجھے۔ میری خود غرضی سمجھو یا میری محبت سمجھو میں شہباز کے ساتھ بھابھی والی زندگی نہیں گزار سکتی۔ اسی لیے مجھے ہر حال میں تمہارا ساتھ دینا ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ بے بسی سحر کے لہجے میں عیاں تھی۔
مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھو۔ میں محبت بھرے تمام رشتوں سے محروم رہا ہوں ہمیشہ!! میں وہ ساری محبت تمہیں دینا چاہتا ہوں۔ میں وہ ساری محبت پوری کرنا چاہتا ہوں اس ایک رشتے کے ذریعے۔ عامر کا ایک ایک لفظ محبت سے سرشار تھا۔
مجھے بھروسہ ہے محبت پر اور یہی احساس مجھے مضبوط بناتا ہے۔ مجھے ان رسموں اور سوچوں کیخلاف بغاوت پر اُکساتا ہے۔ کبھی کبھی ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں محبت بھی بغاوت نہ کردے۔ اس نے انگوٹھی اتارتے ہوئے کہا اور پھر دوبارہ انگلی میں سجالی۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ تمہیں گھر میں اب ہمارے بارے میں بات کرلینی چاہیے۔ تمہاری ابھی اور بھابھی کو میرے بارے میں علم ہونا چاہیے ورنہ ایسا نہ ہو کہ دیر ہوئے اور وہ شہباز تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز!! ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ شہباز آئے گا اور اپنی مرضی سے میرا ہاتھ پکڑ کر لے جائے گا مجھے!! میں اس سے شادی سے کئی بار امی کو انکار کرچکی ہوں اور وہ کبھی بھی میری مرضی کے بغیر میری شادی شہباز سے نہیں کریں گی۔ سحر کی آنکھوں میں یقین کی چمک تھی۔
پھر بھی اتنا آسان مت لو اس صورتحال کو!! تم ہی نے بتایا تھا کہ تمہارے خاندان میں خاندان سے باہر شادی نہیں کی جاتی تاکہ خاندان کی دولت خاندان میں ہی رہے۔ اسی لیے وٹے سٹے کی رسم برسوں سے چلی آرہی ہے۔ اگر شہباز کی بہن کی شادی تمہارے بھائی سے ہوئی ہے تو وہ کس طرح قبول کریں گے کہ بدلے میں تمہاریی شادی شہباز سے نہ ہو بلکہ خاندان سے باہر ایک ایسے لڑکے سے ہو جس کے پاس نہ تو جائیداد دولت ہے اور نہ ہی کوئی سٹیٹس ہو۔ اتنا آسان نہیں ہے سحر جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ عامر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
مجھے ڈراؤ مت!! کم سے کم مھے کچھ وقت دو گھر میں پہلے ہی بھائی اور بھابھی کی لڑائیاں ختم نہیں ہوئے اور اوپر سے میں ایک نئی پریشانی نہیں دے سکتی امی کو۔ سحر نے بے زاری سے کہا۔
ڈرا نہیں رہا۔ حقیقت یاد دتا رہا ہوں تمہیں!! اگر تمہیں برا نہ لگے تو ایک بات کہوں!! عامر نے اجازت چاہی۔
کیا بات !! سحر ایک دم متوجہ ہوئی۔
تمہارے بھائی اور بھابھی کے خراب تعلقات تمہارے حق میں بہتر ہیں۔ عامر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
کیا مطلب ہے تمہار!! اُن کے لڑائی جھگڑوں سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟؟ سحر حیران تھی۔
ہو بھی سکتا ہے۔ تمہاری بھابھی اگر تمام شکائیتں شہباز اور اپنے باپ تک پہنچائے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے دکھ کے پیش نظر تم لوگوں سے تعلق توڑ لیں۔
وہ کیسے؟ اتنی آسانی سے کیسے ؟ سحر ابھی تک باس سمجھ نہیں پائی تھی۔ تم اپنی بھابھی کا ساتھ دینے کے بجائے روز ان کے حالات اور تعلقات بہتر بنانے کے بجائے اپنے بھائی کا ساتھ دو۔ عامر نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا!! اسے خوف بھی تھا کہ کہیں اس کا مشورہ سحر کیلئے ناراضگی کا سبب نہ بن جائے۔
تم یہ کہہ رہے ہو کہ بھابھی کے ساتھ جو ہورہا ہے اور میں وہ ہونے دوں!! بھائی کو داد دوں ان کی سوچ اور مردانگی کی؟ سحر کا لہجہ ایک دل بدل گیا۔ اگر میں ایسا کروں بھی تو اس سے ہمارے لیے کیا آسانی ہوگی!! اُس کے لہجے سے بے یقینی تھی۔
فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں میں علیحدگی ہوجائے گی اور بدلے میں تمہارے رشتے سے بھی انکار ہوگئے گا اور پھر تم آسانی سے اپنے اور میرے بارے میں گھر میں بات کرسکتی ہو اور یوں وٹہ سٹہ کی رسم کا فائدہ اٹھا سکتی ہو تم ہمارے لیے عامر بول رہا تھا جبکہ سحر بے یقینی سے اُسے دیکھتی رہی۔
مرد ہی ہونا آخر تم !! وہی روایتی مرد جو اپنی خوشی کیلئے کسی بھی عورت کی زندگی برباد کرتا ہے کسی کا بھی گھر برباد کرسکتا ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ صرف ہائی سوسائٹی کے مرد ہی خود غرض ہوتے ہیں صرف محلات میں رہنے والے۔ وہ غصے میں پھٹ پڑی!! اس کی آنکھوں نے بند کھول دئیے اور پھر اس کے خوبصورت گال تر ہوتے چلے گئے۔
تم غلط سمجھ رہی ہو سحر!! عامر کو اندازہ ہوا کہ اس نے کیا کیا!!
پہلے غلط سمجھ رہی تھی۔ سمجھی تو اب ہوں!! سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہے اپنی خواہشات کے غلام کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان میں چاہیے وہ محلات میں رہتے ہوں یا بلدیہ ٹاؤں!! اس نے انگھوٹھی پھر اتاری!! آنسو اپنی حدوں کو چھو رہے تھے۔
پلیز سحر معافی دے دو مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لوگ دیکھ رہے ہیں پتہ نہیں وہ کیا سمجھیں گے۔ پلیز رونا بند کرو۔ پلیز میری خاطر!! عامر کے چہرے پر ندامت تھی۔ اس کے لہجے میں پچھتاوا تھا۔
میں ایک لڑکی ہوں ۔ عورت ہوں اپنی بھابھی کا دکھ اپنا دکھ سمجھتی ہوں۔ میں ان کی اُمید اور خوشی کا چراغ بجھا کر خود روشنی کی تمنا کیسے کرسکتی ہوں؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ سب کرکے ہم خود خوشی خوشی زندگی گزار سکیں گے۔ یاد رکھنا عامر!! وقت گردش میں رہتا ہے۔ کبھی بھی گھوم کر کسی کے پاس جا سکتا ہے۔ اُس نے انگوٹھی اتار کر عامر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی!! وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دی۔
پریشان مت ہو! وہ خود ہی تھوڑی دیر بعد نارمل ہوجائے گی۔ ویسے غلطی تمہاری ہے عامر! تم اُسے اچھی طرح جاتے ہو!! اس کی سوچ سے واقف ہو۔ تمہیں ایسی بات اس سے کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ عمبرین جو کہ کینٹین سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی عامر کے پاس آئی اور ان کے درمیان ہونے والی تکرار کی وجہ جاننے کے بعد اسے سمجھا رہی تھی۔
بے شک میری غلطی ہے لیکن ہر غلطی کرنے والے کو معافی کا ایک موقع تو ملتا ہے نا۔ اس نے اتنا بھی موقع نہیں دیا مجھے! عامر نے مین گیٹ کے پاس اپنے گاڑیکا انتظار کرتی سحر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
پریشان نہ ہو وہ جب اپ سیٹ ہوتی ہے تو کسی سے بھی بات نہیں کرتی میں اس کی عادت سے اچھی طرح واقف ہوں خیر تم پریشان مت ہونا۔ وہ صبح خود ہی تم سے بات کرے گی۔ عمبرین نے بیگ میں سے اپنے گلاسز نکالتے ہوئے کہا۔
صبح تو ہفتہ ہے اور پھر اگلے دن اتوار !! مطلب دو دن بعد ہی اب اُس سے بات ہوسکے گی وہ بھی اگر اس کا موڈ ٹھیک ہوا تو عامر نے مایوسی کے عالم میں کہا۔ نگاہیں اس کی ابھی بھی خاموش سحر پر تھیں۔
مجھے یاد ہی نہیں تھا کہ ویک اینڈ ہے کل سے چلو مجنوع اچھا ہی ہوا تمہارے ساتھ ان دو دنوں میں پتہ چلے گا کہ محبت آسان نہیں ہوتی خاص طور پر جب وہ ناراض ہوجائے۔ اچھا میں بھی اب گھر چلتی ہوں تم یہاں کھڑے کھڑے اُسے منانے کے فلمی طریقے سوچو! حسب عادت عمبرین نے اسکا مذاق اڑاتے ہوئے کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ عامر اُسے دیکھتا رہا۔ وہ سحر کے پاس پہنچ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے باہر چلی گئی۔ شاہد وہ جانتی تھی کہ اس سے زیادہ سحر برداشت نہیں کرے گی۔ اس صورتحال میں!! وہ بھاگتا ہوا گیٹ کی جانب بڑھا کیوں کہ اس نے دیکھا کہ سحر اپنے بیگ سے چادر نکال رہی تھی۔ شائد ڈرائیور گاڑی لے کر آگیا تھا۔
سحر!! اُس نے پاس پہنچ کر آواز دی۔ عامر کے دل ڈوبا جا رہا تھا۔ دھڑکنیں پوری رفتار کے ساتھ دھڑک رہی تھیں۔ وہ سحر کو اس طرح ناراضگی میں جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
سحر نے مڑ کر اس پر ایک نگاہ ڈالی۔ اس کی آنکھیں بھیگنے کے بعد خزاں کی مانند ویران ہوچکی تھیں یہ وہ آنکھیں نہیں ہیں جو ہمیشہ سے وہ دیکھتا آیا تھا۔ محبت بھری گہری آنکھیں!! وہ سوچ رہا تھا۔
میں معافی چاہتا ہوں!! عامر نے کانپتے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔ عامر کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ کچھ دیر پہلے اس کا ہنستا مسکراتا ، شفاف چہرہ اب غم کی اور ندامت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کی حساسیت اس کے پورے وجود پر بکھری ہوئی تھی۔
میں نے معاف کیا۔ سحر نے ہلکا سا جواب دیا اس کے جواب میں بے شمار شکوے تھے۔ مایوسی تھی، بے یقینی تھی اور پھر وہ گیٹ سے نکلتی ہوئی سامنے موجود چمکتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھول کر سیٹ پر براجمان ہوگئی۔ اس نے مڑ کر نہیں جبکہ عامر وہیں بت بنا اسے دیکھتا جا رہا تھا پھر جیسے اُسے ہوش آیا ہو۔ وہ تیزی سے گیٹ سے باہر آگیا اس کی نظریں التجا کررہی تھیں معافی کی طلب گار تھیں۔ سزا پانے کی خواہش مند تھیں مگر سحر نے اس کی طرف نہیں دیکھا جیسے جانتی ہی نہ ہو۔
چلیں بی بی جی ؟؟ صوفی نے اجازت چاہی جبکہ وہ صورتحال کو کافی حد تک سمجھ چکا تھا۔
ہاں! چلو! اس نے گاڑی کے بلیک شیشے چڑھاتے ہوئے کہا اور عامر اس کا مایوس چہرہ شیشے کے پیچھے چھپا ہوا دیکھ رہا تھا اور پھر گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
عامر نے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر ایک گہری نظر ڈالی! فلمی ہیرؤں کی طرح اُسے سڑک پر پھیکنے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لی اور بس سٹاپ کی طرف بڑھ گیا۔ بس کے آنے میں ابھی وقت تھا پھر اسے جیسے کچھ یاد آیا اس نے موبائل فون نکالا اور سحر کو ٹیکسٹ لکھنے لگا۔
مجھے پتہ ہے کہ تم بات نہیں کرو گی لیکن پلیز مجھے گھر تک ڈراپ کردو آج بس نہیں آئے گی کیونکہ ہڑتال ہے اور پھر Send کا بٹن دبا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب جواب ضرور آئے گا سحر کی طرف سے۔
گاڑی واپس موڑو سحر نے SMS پڑھنے کے بعد صوفی کو گاڑی یونیورسٹی کے پاس موجود بس سٹاپ کی طرف موڑنے کو کہا۔
جی بہتر بی بی جی!! اس نے ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا لیکن اسے معلوم تھا کہ گاڑی واپس کس لیے ہورہی ہے۔
…………………………………………٭٭٭…………………………………………
شکریہ عامر نے شرمندہ مگر تروتازہ لہجے میں اس کا شکریہ ادا کیا۔
کس بات کیلئے؟ سحر نے بظاہر حیران ہوتے ہوئے پوچھا
مجھے معاف کرنے کیلئے اور کس لیے؟ وہ خوشی کو چھپا نہیں پا رہا تھا
اچھا اب چھوڑ بھی دو اس بات کو میں نے ضرورت سے زیادہ ردعمل دکھایا اس بات پر اب اگر مجھے بار بار شکریہ کہو گے تو میں احساس جرم میں مبتلا ہو جاؤں گی۔
اچھا نہیں کہوں گا لیکن یہ تو بتاؤ کہ آج اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ تم ڈرائیور کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھا کر یہاں لے گئی ساحل سمندر پر عامر نے بات بدلی۔
جہاں معاملہ محبت کا ہو وہاں خوف ڈر اور ہمت کا کوئی بھی قانون دلیل نہیں رکھتا صوفی شہباز کا ڈرائیور ہے یونیورسٹی تک پڑھنے کی اجازت اسی شرط پر ملتی تھی کہ مجھے صرف صوفی پک اینڈ ڈراپ کرے گا شہباز مجھے اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور اسے شائد یہ خوف تھا کہ کہیں میں جاگیر پر کوئی قبضہ نہ کرنے اور یہ ڈر انسان کو تب ہوتا ہے جب وہ خود کسی اور کی جاگیر پر قابض ہو۔ سحر نے قدرے کڑوے انداز میں کہا۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ سچ مجھ تم سے محبت کرتا ہو! بس ذرا اس کا انداز الگ ہو! عامر نے نہ چاہتے ہوئے بھی کہہ ڈالا
محبت! سحر نے تلخ لہجے میں زیرلب دہرایا۔ میں محبت نہیں ضد ہوں اس کی ایک رسم ہوں اور ہمارے ہاں ضد اور رسم صرف مرد کے حق میں ہوتی ہے۔ نشانہ صرف لڑکی بنتی ہے۔ اگر اُسے واقعی مجھ سے محبت ہوتی تو مجھے آج صوفی پک اینڈ ڈراپ نہ کررہا ہوتا وہ ڈرائیور نے جاسوس ہے اس کا۔
اور تم اُس جاسوس کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر یہاں لے آئی! اور وہ ایک ایک بات جا کر شہباز کو بتائے گا!! عامر نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
یہی چاہتی ہوں میں کہ وہ میرے اور تمہارے بارے میں شہباز کو بتا دے کم از کم اُسے پتہ تو چل جائے میرے اور تمہارے بارے میں!! اُسے خود بھی تو ایک نہ ایک دن بتانا ہی پڑتا۔ سحر نے دور پارکنگ میں موجود صوفی پر نظر جماتے ہوئے کہا۔
اتنا تیز مت بھاگو سحر! ٹھوکر لگے گی تو سنبھل نہیں پاؤ گی۔ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے اور خاص طور پر تمہارے لیے مجھے تو کوئی جانتا بھی نہیں ہے جو ظلم ہو گا وہ صرف تمہارے ساتھ ہوگا میرا مطلب ہے کہ بس تھوڑا انتظار کرو گھر والوں اور شہباز کو ٹھنڈا رکھو پھر مناسب وقت آنے پر ہم دونوں آسانی سے ایک ہوسکتے ہیں۔ عامر نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔
کیسا مناسب وقت ؟ سحر نے متوجہ ہوتے ہئے کہا! اس کی نظر اب صوفی سے ہٹ کر عامر پر تھی۔
میرا ایک دوست اٹلی میں سیٹلڈ ہے اپنی فیملی کے ساتھ اُس نے کئی بار مجھے کہا کہ وہ مجھے اٹلی کا ویزہ بھیج سکتا ہے لیکن میں اپنی سٹڈی پوری کرنا چاہتا ہوں اس لیے منع کردیا اس آخری سمسٹر کے بعد میرا وہاں جانے کا ارادہ ہے اور تب تک میرے پاس کچھ پیسے بھی جمع ہوجائیں گے وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
لیکن سٹڈی کے بعد تو تمہیں یہاں بھی اچھی جاب مل سکتی ہے اتنی دور جانے کا کیا فائدہ ہے۔ سحر نے حیرتاً کہا
بات صرف جاب کی نہیں ہے سحر! میں بس پاکستان میں نہیں رہنا چاہتا یہاں سوائے پریشانیوں کے اور کچھ نہیں ہے سب کچھ تو چھین لیا گیا مجھ سے یہاں اب ایک محبت بچی ہے اور میں اُسے کھونا نہیں چاہتا عامر کا پرجوش لہجہ ایک دم سنجیدگی میں بدل گیا۔
سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کہوں میں اب؟ سحر نے شور مچاتی لہروں کو دیکھتے ہوئے کہا سمندر میں بھی جیسے بھونچال سا آگیا تھا۔
بات سمجھنے کی کوشش کرو سحر! کچھ ہی مہینوں کی بات ہے پھر میرا ویزہ بھی آجائے گا اور پھر میں نکاح کے بعد تمہیں اس چنگل سے نکال کر اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور وہاں ہمیں کسی شہباز کا خوف نہیں ہوگا۔ ہم دونوں کی خوشیاں کوئی نہیں چھین سکتا۔
مگر اتنا عرصہ میں کیسے؟ پلیز میری خاطر! ہم دونوں کی خاطر بس تھوڑا سا انتظار کرو اور مجھ پر بھروسہ رکھو! میں جاتے ہوئے تمہیں اپنا بنا کر جاؤں گا۔ تم سے نکاح کرکے جاؤں گا اور پھر کچھ عرصہ بعد آکر تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔ بس تب تک تمہیں حالات کو قابو میں کرنا ہے۔ عامر نے اس س آنکھیں ملاتے ہوئے اُسے یقین دلایا۔
پیسوں کا انتظار کیسے کرو گے؟ سحر نے فکر انگیز لہجے میں کہا۔
ہو جائے گا تم فکر مت کرو۔ تم جانتی ہو کہ میں نے اپنا گھر کرائے پر دیا ہوا ہے اور خود آصف کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں اُسی گھر کے سہارے اپنی سٹڈی جاری رکھے ہوئے ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو میں وہ گھر بیچ دوں گا۔
پاگل ہوگئے ہو ایک وہی تو نشانی ہے تمہارے پاس تمہارے اپنوں کی تم ایسا ہرگز نہیں کرو گے میں انتظار کر لوں گی۔
زندگی گزارنے کیلئے اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی موجودگی کی اہمیت ہوتی ہے ورنہ محض نشانیوں پر کہاں زندگی گزرتی ہے۔ صرف یادوں یا نشانیوں کے سہارے زندگی صرف کہانیوں میں گزرتی ہے۔ حقیقت اس سے کہاں زیادہ مختلف ہے عامر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اس کا ناول دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا اب بہت وقت ہوگیا!! ہمیں چلنا چاہیے ورنہ تمہارے شہباز صاحب تمہیں خود پک اینڈ ڈراپ کرنے لگ جائیں گے۔ سحر کو خاموش پا کر اس نے شرارتاً کہا تو جواب میں سحر بھی مسکرا دی۔
صوفی کو کہتی ہوں تمہیں گھر چھوڑ دے گا اور ہاں سوموار تک ناول کا آخری حصہ مکمل ہوجانا چاہیے سحر نے اسے تاکید کی۔
تم ساتھ نہیں چلو گی؟ عامر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
نہیں تم نے ہی تو کہا ہے کہ حالات کو قابو میں رکھوں اس لیے اب پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑیں گے۔
اوہ اچھا! میں سمجھ گیا! چلو اچھا ہے تم تب تک سمندر کی لہروں کو دیکھو ہوسکتا ہے کہ تمہیں اگلی کہانی کیلئے کوئی سین یہاں سے مل جائے عامر نے مذاقاً کہا اور جیب سے انگوٹھی نکالی۔
اس بار مت اتارنا پلیز ورنہ بدشگونی ہوجائے گی۔ عامر نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی تھماتے ہوئے کہا۔
سٹار پلس کے ڈائیلاگ چھوڑو اور انگوٹھی خود پہناؤ مجھے۔ سحر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
پہناؤں گا تو صوفی دیکھ لے گا اور اب کچھ عرصے کیلئے احتیاط ہی ضروری ہے۔ عامر نے سرگوشی کی!
ایسے کیوں دیکھ رہی ہو! اتنی مسکین نظروں سے!! عامر نے اُسے اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا۔
یونہی! تم سے جدا ہونے کا وقت جو آگیا ہے! سحر نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
صرف ویک اینڈ کی ہی تو بات ہے! سوموار سے ہم ایک بار پھر ساتھ ہوں گے! عامر نے اُسے تسلی دی۔
میں جانتی ہو ! اچھا اب جاؤ تم! میں یہیں رکوں گی تھوڑی دیر صوفی کو کہہ دو کہ تمہیں ڈراپ کردے۔ کہہ دینا کہ چھوٹی بی بی نے کہا ہے سحر نے اُسے دیکھے بغیر کہا۔
او۔۔ ہو۔۔ چھوٹی بی بی! کیا نام ہے! عامر نے مخصوص انداز میں دہرایا۔ اگر بی بی سے پہلے چھوٹی نہ لگاؤ تو یہی نام کسی دادی اماں کا احساس دلانے لگتا ہے۔ عامر نے اُس کا موڈ بدلنے کیلئے اُسے چھیڑا۔
اچھا اب باتیں نہ بناؤ اور جاؤ! مجھے بھی دیر ہورہی ہے۔ سحر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اور پھر عامر وہاں سے چل دیا۔ اُس نے ایک بار پھر مڑ کر سحر کی جانب دیکھا لہروں کے شور میں سے جیسے اُسے سحر کی آواز سنائی دی! عامر مت جاؤ! پلیز عامر مت جاؤ!
لہریں بھی عجیب ہوتی ہے کنارے کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں اور جب کنارہ ملتا ہے تو ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہے! جیسے ایک لمحے کا ٹکرانا ان کی پوری جدوجہد کا حاصل ہو۔ سحر نے سوچا! بالکل محبت کی طرح! میں بھی تو رسموں میں قید ایک لہر ہوں کنارے کی متلاشی! میرا صرف کنارے سے ٹکرانا ہی کافی ہوگا؟؟ نہیں نہیں مجھے تو اس کنارے سے بھی کہیں آگے جانا ہے! مگر نہیں! لہروں کا کنارے سے آگے جانے کا مطلب تو صرف تباہی ہوتا ہے! اس نے سوچا۔
…………………………٭٭٭٭…………………………٭٭٭٭…………………………
واہ۔۔۔ اتنی ساری مٹھائی! سحر نے اپنا بیگ صوفہ پر پھینکا اور ٹیبل پر پڑے مٹھائی کے بند ٹوکرے کی طرف لپکی۔۔۔
کہاں سے آئی اتنی مٹھائی!! ؟ اس نے اپنا من پسند گلاب جامن منہ میں رکھا! بہت مزے کی ہے! لیکن آپ دونوں بول کیوں نہیں رہیں؟ اُس نے امی اور بھابھی کو خاموش پا کر دوبارہ پوچھا۔
شہباز بھائی اور ابا لے کر آئے تھا! رخشندہ نے بے نیازی سے کہا!
سچ؟ اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا! مجھے اُمید تھ یکہ وہ حریم کو دیکھنے ضرور آئیں گے۔ دیکھا بھابھی آپ نے! وقت بدل رہا اور پھر حریم ہے ہی اتنی پیاری کہ اُسے کوئی نظر انداز کر ہی نہیں سکتا سحر کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ اُسے کتنی خوشی ہوئی! وہ اس عالم میں رخشندہ کے پاس آئی اور ان کی گود سے حریم کو اٹھا لیا۔
میں بھی یہی سمجھ رہی تھی! یہی سوچ رہی تھی جو تم سوچ رہی ہو! کاش کہ ایسا ہی ہوتا! رخشندہ نے بے بسی کے عالم میں کہا۔
کیا بات ہے بھابھی؟ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں! تھوڑی سی ہی سہی! ہوا تو چلی ہے نا! آپ دیکھنا ایک دن بھائی کی سوچ بھی اسی ہوا میں اڑ جائے گی اور وہ بھی حریم سے پیار کرنے لگیں گے۔ سحر نے دوسرے ہاتھ سے برفی کا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ خواب دکھانا بند کرو سحر! رخشندہ بھابھی اٹھ کر اس کے پاس آگئیں۔
بندی سے گر کر چور چور ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اتنا ہی اڑے جتنے اس کے پر اُسے اڑا سکیں۔ انہوں نے سحر کی بانہوں سے حریم کو چھڑایا اور کمرے سے باہر چلی گئیں جبکہ سحر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بھابھی نے ایسا کیوں کہا۔
کیا بات ہے امی؟ بھابھی نے ایسا کیوں کہا؟ کیا وہ خوش نہیں کہ قادر چاچا اور شہباز اسے مبارکباد دینے آئے ہیں خود چل کر! سحر پاس آکر امی کے ساتھ بیٹھ گئی! وہ ابھی تک حیران تھی۔
بیٹا میں نے اور رخشندہ نے بھی یہی سمجھا تھا جو تم سمجھ رہی ہو! ہمیں بھی یہی غلط فہمی ہوئی تھی جو تمہیں ہورہی ہے! تمہارے چچا اور شہباز اس مٹھائی کے ساتھ حریم کی مبارکباد دینے نہیں آئے تھی بلکہ تمہارے اور شہباز کے رشتے کی بات کرنے آئے تھے، بات کیا، بلکہ سمجھو رشتہ پکا کرکے گئے ہیں اور جلد شادی کی تاریخ بھی مانگ کر گئے ہیں۔ امی نے ڈرتے ڈرتے سحر کو اصل بات بتائی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ سحر کا ری ایکشن کیا ہوگا۔
میری اور شہباز کی شادی؟ وہ کبھی امی کو دیکھ رہی تھی تو کبھی سامنے پڑے میز پر رکھے مٹھائی کے ٹوکرے پر۔
امی مجھے لگتا ہے کہ غلط فہمی مجھے نہیں بلکہ شہباز اور قادر چچا کو ہوئی ہے میں مر کر بھی اس مغرور لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔ پہلے بھی آپ کو کئی بار بتا چکی ہوں کہ میں شہباز سے شادی نہیں کرسکتی۔ آپ کو فوراً منع کردینا چاہیے تھا وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔
ہوش سے کام لو بیٹا! اس طرح جذباتی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تمہارے باپ کے مرنے کے بعد اس گھر کا ہر فیصلہ تمہارے چچا نے کیا ہے اور بہتری اسی میں ہے کہ تم اس فیصلے کے آگے اپنا سر جھکا دو۔ امی نے پتھر دل سے یہ بات کہہ دی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ اپنی بیٹی کی تقدیر کا وہ فیصلہ کبھی نہیں بدل سکتیں جو بچپن سے رسموں رواجوں کو گواہ بنا کر کیا گیا تھا۔
آپ اتنی کمزور ہوں گی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا امی! اپنی بیٹی کیلئے اس کی خوشی کیلئے دو لفظ بولنے کی کوشش نہیں کرسکیں؟ آپ جانتی ہیں کہ میں اُس سے شادی نہیں کروں گی۔ پھر بھی آپ اُن کے سامنے خاموش رہیں؟ وہ ابھی تک جارحانہ انداز میں بول رہی تھی۔
کمزور نہیں ہوں بیٹا! ایک عورت ہوں اور سب سے بڑھ کر ایک لڑکی کی ماں ہوں اور ماں کبھی اپنی اولاد کو دکھ میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ جو ہورہا ہے اُسے ہونے دو بیٹا! اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ انہوں نے سحر کے قریب آتے ہوئے کہا۔
میں آپ کو اپنی طاقت سمجھتی رہی ہوں امی! ابو کے مرنے کے بعد ہمارا سب کچھ تو آپ ہی تھیں امی! یہ گھر، دولت، یہ سب کچھ آپ کا ہے۔ اس گھر میں ہر فیصلہ آپ کا ہونا چاہیے۔ شہباز اور قادر چچا کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم پر اپنی خواہشات اور فیصلوں کی تلوار لٹکائیں۔ کاش کہ آج ابو زندہ ہوتے تو ہمیں کسی کے اشاروں پر ناچنے کیلئے اپنی مرضی اور خواہشات کا گلہ نہ گھوٹنا پڑتا۔
وہ اگر زندگی بھی ہوتے تو بھی اس فیصلے اور تمہاری قسمت کو بدل نہیں سکتے تھے۔ فضیلت بیگم نے سامنے دیوار پر لگی نادر شاہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا!!
قسمت نہ بھی بدل سکتے مگر کم از کم کوشش ضرور کرتے۔ آپ کی طرح اپنی بیٹی کے مستقبل کو تاریک کرنے کے اس یکطرفہ فیصلے کے سامنے یوں بے بسی کی تصویر نہ بنتے۔ سحر نے مایوسی سے ایک نظر امی پر ڈالی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
جس باپ کی عقیدت میں تم اپنی ماں کی محبت اور ممتا پر شک کررہی ہو اس باپ نے تمہارا نام تک رکھنے سے منع کردیا تھا! سحر کے کانوں سے جب یہ بات ٹکرائی تو اس کے قدم وہیں رک گئے۔
امی پلیز! اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے ابو پر الزام لگانا بند کریں۔ اس نے مڑے بغیر کہا۔
ناکامیاں؟؟ میں نے تو ساری عمر ساری جوانی تم دونوں کی تربیت میں گزار دی! بیٹے کو اگر باپ پر جانا تھا تو پھر بیٹی کیوں ماں پر نہیں گئی۔ تمہیں بہت مان ہے نہ اپنے باپ پر! اُس باپ پر جس نے نہ تمہارے پیدا ہونے پر کوئی خوشی منائی نہ تمہیں اپنی بیٹی تسلیم کیا۔ نام تک رکھنے پر پابندی لگا دی تھی تمہارے باپ نے آخر تھا تو وہ قادر کا بھائی نا! خون کو تو خون پر جانا تھا اور تم اپنی ماں پر الزام لگارہی ہو اس کی ممتا پر سوال اٹھا رہی ہو۔ وہ چلتے چلتے نادر شاہ کی تصویر کے پاس چلی آئیں۔ میں نے ساری عمر تمہارے باپ کا کردار تم دونوں سے چھپا کر رکھا تاکہ تمہاری نظروں میں اس کا جو مقام ہے وہ قائم رہے۔ مگر تم نے مجھے مجبور کردیا ہے۔
سحر کے پاؤں وہیں سن ہوچکے تھے۔ ایک ایک لفظ اسے اپنی سوچ میں پیوست ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہورہا تھا۔ وہ بت بنی امی کی ساری باتیں سن رہی تھی۔ مڑ کر دیکھنے کی ہمت ہی نہ رہی تھی اُس میں
اتنا کافی ہے یا اور بتاؤں تمہیں!! فضیلت بیگم اس بارے میں اپنے غصے کو قابو میں نہیں رکھ سکیں۔
اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر ایک لڑکی کی جان بچانے کیلئے انہوں نے جان کیوں دے دی؟ سحر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ بولنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس نے مڑ کر امی کی طرف دیکھا۔
جھوٹ بولا تھا میں نے انہوں نے کسی کی خاطر جان نہیں دی۔ وہ تو خود اپنی کھودی ہوئی قبر میں اتر گیا۔ امی کی آنکھیں اب تر ہونے لگیں تھیں۔
کونسی قبر؟ آپ کیا چھپا رہی ہیں مجھ سے؟ سحر کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
شہر کی سب سے مشہور رقاصہ کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا تمہارا باپ۔ پہلے صرف رقص کی محفلوں میں ملتا تھا اس سے مگر پھر گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ اُس کا اپنے گھر میں آنا جانا مہمانوں کی طرح ہوگیا تھا نہ میری کوئی فکر نہ اپنے بچوں کی کوئی پرواہ اور پھر ایک دن خبر ملی کہ تمہارے باپ نے اس رقاصہ سے شادی کرلی ہے۔ آنسوؤں کی قطاریں فضیلت بیگم کے چہرے پر سے ہوتی ہوئیں قدموں میں گر رہی تھیں جبکہ سحر اپنی آنکھیں بے یقینی میں ڈبوئے کسی بے جان بت کی طرح کھڑی تھی۔
شادی کرلی؟ سحر کے منہ سے صرف اتنا نکلا
ہاں شادی کرلی! مگر اُسے مایوسی ہوئی جب انجمن نے بیٹی کو جنم دیا۔ اسی خاندان کا مرد تھا تمہارا باپ! تمہاری پیدائش کو تو اس نے بھلا دیا تھا انجمن کی محبت میں مگر جب خدا نے اسے دوسری آزمائش میں ڈالا تو وہ ناکام ہوگیا اس نے خدا کی رحمت کو ریل گاڑی کی پٹڑی پر ڈال دیا۔ اسے مار دیا۔ دس دن بھی برداشت نہ کرسکا وہ اس کا وجود امی کی آواز رندھ گئی۔ ان سے جیسے بولا نہیں جا رہا تھا اور پھر انجمن نے ایک رات اُس کی شراب کی بوتل میں زہر بھر دیا! وہ ماں تھی۔ ممتا کا کسی پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پھر اگلے دن خبر چھپی کہ شہر کی مشہور رقاصہ نے اپنے شوہر کے ساتھ خودکشی کرلی۔ امی نے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا۔
سحر اب تک خاموش تھی۔ وہ سرجھکائے زمین کو تکتے جارہی تھی۔ اس کے اندر ایک طوفان برپا تھا جو اُس کے اندر امید اور ہمت کے درختوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر پھینک رہا تھا۔ آپ کا اس بات کو چھپانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر کبھی شہباز یا چچا یا کسی اور نے اس بات کو کیوں نہیں چھیڑا؟ سحر نے خاوشی کا بت بالاآخر توڑ دیا۔
وہ کیوں چھڑیں گے اس بات کو جس سے اس خاندان کے مردوں کی توہین ہو! امی نے معنی خیز لہجے میں جواب دیا۔
مجھے معاف کردیں امی! میں نے آپ کو غلط سمجھا! آپ کی محبت پر انگلی اٹھائی سحر کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ امی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی تھی اپنے اندر دوڑنے والا خون اُسے تیزاب کی مانند اندر سے جلا رہا تھا۔
بس بس میری جان! ماں اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتی بلکہ اُسے تو اپنی اولاد پر فخر ہوتا ہے جب وہ اپنی غلطی تسلیم کرے۔ امی نے سحر کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
اب آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گی بس آپ میرے الفاظ کو نظر انداز کردیں۔ اُس نے امی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے کہا۔
بیٹا میں نے شہباز سے تمہاری شادی کا فیصلہ تمہاری سوچ کو دیکھتے ہوئے ہی کیا تھا کیونکہ مجھے پورا بھروسہ ہے اپنی بیٹی پر کہ وہ سب کی سوچ بدل دے گی وہ رسموں کے بتوں کو توڑ دے گی امی نے اس کے گال سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کررہی تھیں جیسے دل سے ایک بوجھ ہٹ گیا ہو۔ مگر کمرے سے نکلتے وقت وہ دروازے کی اوٹ میں موجود عادل کو نہیں دیکھ پائی تھیں جبکہ سحر نے دیوار سے نادر شاہ کی تصویر ہٹا دی۔
…………………………٭٭٭٭…………………………٭٭٭٭…………………………
میں نے سوچا لیا ہے اور اب اگر تم مجھے معاف کر بھی دو تو بھی میں خود کو سزا سے نہیں بچا پاؤں گا۔ حوصلہ ہی نہیں رہا سحر! کہ میں تم سے تمہارے سامنے یہ سب کچھ کہہ سکوں۔ اس لیے قلم کا سہارا لے رہا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ جب میرے الفاظ تمہاری آنکھوں سے ٹکرائیں گے تو تم ان کے اندر ضرور جھانکو گی۔ تمہیں وہ سارے درد، ساری محرومیاں اور بکھرے ہوئے خوابوں کی ساری کرچیاں دکھائی دیں گی۔ محبت میرے بس کی بات کہاں تھی سحر! مجھ میں تو رشتہ نبھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے سحر! کاش کہ میرے پاس کوئی ایک رشتہ بھی باقی بچا ہوتا تو محبت مجھ سے یوں نہ روٹھتی۔ تمہاری بے پناہ، بے لوٹ محبت بھی مجھے ان محرومیوں سے نہیں نکال سکتی جو بچپن سے میرے وجود کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا کمزور ساتھ تمہیں تمہارے جذبوں، تمہارے ارادوں سے دور نہ کردے۔ تمہیں تمہاری منزل ملنی چاہیے سحر! جس کا ہمیشہ سے تم نے خواب دیکھا ہے۔ میں تمہاری منزل میں رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ اس سے پہلے کہ تم کوئی غلط قدم اٹھا لو میں تمہیں اس محبت سے آزاد کرتا ہوں۔ تمہارے نصیب کو اپنے نصیب سے الگ کرتا ہوں۔ میں تمہیں پا بھی لوں تو بھی تمہیں کوئی خوشی نہیں دے سکوں گا۔ تمہارے سارے خواب ٹوٹ جائیں گے۔ تم جانتی ہو سحر کے خوابوں کے ٹوٹنے پر کس قرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں اُس عذاب کو جھیل چکا۔ تمہیں نہیں گزرنے دوں گا اُس عذاب سے! محبت کا کیا ہے وہ تو گردش کرتی ہی رہتی ہے۔ محبت کبھی نہیں رُکتی! خاص طور پر ایک بھٹکی ہوئی محبت! اُس کو جب بھی، کہیں بھی کوئی دروازہ کھلا ملتا ہے وہ وہیں پناہ لے لیتی ہے اور پھر پرانی اور بھیانک یادوں کو وہاں سے نکلنا پڑتا ہے۔
محبت کو قید مت کرنا سحر! اُسے کھلا چھوڑ دینا۔ وہ لوٹ کر ضرور آئے گی۔ مجھ سے وعدہ کرو سحر کہ تم مجھے بھلا کر ایک نئی زندگی شروع کرو گی اور پھر میں سمجھوں گا کہ تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔ مجھے برا بھلا کہنا، برے ناموں سے پکارنا مگر کبھی بے وفا مت کہنا! بس اب اور کچھ نہیں کہنا جس طرح تم اپنے ناول میں سے غلطی ہونے پر ورق پھاڑ کر پھینک دیتی ہو بالکل اسی طرح اپنی زندگی کی کتاب سے مجھے غلطی سمجھ کر نکال دینا۔ اک نئی تحریر لکھنا سحر! اک نیا خواب دیکھا، ایک نئی جدوجہد شروع کرنا، ایک نئی منزل کا راستہ بنانا، خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ میرے پاس تمہیں دینے کیلئے دعا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے معاف کردیا ورنہ میری روح تڑپتی رہے گی۔ مجھے قبر میں بھی سکون نصیب نہیں ہوگا۔ اب قلم بند کرتا ہو کیوں کہ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ غم کی یہ رات آخری رات ہے۔ صبح کے نئے سورج کے طلوع ہوتے ہی سارے غم اسی رات کے اندھیروں کے ساتھ غائب ہوجائیں گے۔ کل تمہاری سالگرہ ہے نا! اس لیے کل سے ایک نئی زندگی شروع کرنا اور اب جاتے جاتے تمہارے نام ایک نظر!! اُمید ہے کہ تمہیں پسند آئے گی۔
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے، حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
پر تو حور سے ہے، شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں اک عنایت کی نظر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تفافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک!!
خاک ہو جاؤں گا تم کو خبر ہونے تک!!
تمہاری خوشی اور معافی کا طلبگار ’’عامر‘‘
کچھ سوچے سمجھے لکھ تو دیا مگر پتہ نہیں اسے پسند بھی آئے گا کہ نہیں۔ قلم بند کرکے اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور لیمپ آف کردیا۔
ہو گیا اختتام ناول کا ؟ آصف نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
ہاں یار لکھ تو دیا۔ دیکھو اب اسے پسند بھی آتا ہے کہ نہیں! عامر نے بے یقینی سے جواب دیا۔
تم نے بات کی اس سے اٹلی والی؟ آصف نے لیٹے لیٹے پھر سوال کیا۔
ہاں! بات کی تھی اور اُس کا ردعمل بھی بہت پازیٹو تھا۔ بس یار دعا کرو کہ کسی طرح یہ سارا وقت آسانی سے گزر جائے، میں نے اُسے تو حوصلہ دے دیا ہے لیکن اندر سے ایک عجیب سا خوف کھائے جارہا ہے۔ عامر نے بستر پر لیٹتے ہوئے جواب دیا۔
فکر مت کرو!! جیسے تین سال گزر گئے ہیں بنا کسی مشکل کے اسی طرح یہ مہینے بھی گزر جائیں گے۔ اب سوچنا بند کرو اور سکون سے سو جاؤ مجھے بھی نیند آرہی ہے۔
او کے صبح بات ہوگی۔ شب بخیر عامر نے کمبل اوڑھتے ہوئے کہا۔
شب بخیر! صف نے جلدی سے جواب دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.