اِک عمر اثر ہونے تک

واجد ابرار

قسط نمبر 1
ویسے تم مجھ پر کہانئی کیوں لکھ رہی ہوں ! کیا کوئی خاص بات ہے مجھ میں!!
عامر نے خلاف توقع سنجیدگی سے پوچھا !!
میرے خیال میں تمہیں کوئی بہت بڑی غلط فہمی بلکہ خوش فہمی ہوئی ہے کہ میں تم پر کہانی لکھ رہی ہوں۔ تم پر ضائع کرنے کیلئے اتنا فضول وقت نہیں ہے میرے پاس میں نے کہانی میں صرف تمہارا نام استعمال کیا ہے اور اس دنیا میں صرف تمہارا نام عامر نہیں ہے۔ سحر کا لہجہ کافی لاپرواہ سا تھا۔
اوہ! اچھا اگر ایسی بات ہے تو تم پچھلے ایک گھنٹے سے میرے ساتھ کیا کررہی ہو؟
عامر نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
ٹائم پاس کرنے کیلئے !! تم کو پتہ ہونا چاہیے ڈرائیور تین بجے آتا ہے اور آج عمبرین بھی نہیں ورنہ تمہارے ساتھ تو ایک لمحہ بھی گزارنا مشکل ہے وہ قدرے بے زار انداز میں بولی جبکہ عامر کے چہرے پر خفگی کے تاثرات اب واضح ہوچکے تھے۔
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں ویسے بھی مجھے کوئی ڈرائیور تو لینے نہیں آتا بسوں پر لٹک کر جانا پڑتا ہے اور شہر کے حالات خراب ہوتے بھی پتہ نہیں چلتا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور یونیورسٹی کے مین گیٹ کی جانب بڑھا!!
تم تو برا ہی مان گئے !! میں تو مذاق کررہی تھی۔ اچھا ایک منٹ رکو!! سحر نے اُس کا ہاتھ پکڑا
اب کیا ہے ؟؟ عامر نے مڑ کر سحر کی جانب دیکھا !! حد سے زیادہ حساس ہو تم!! چھوٹی سے بات پر آنکھیں لال کرلیں سحر نے اس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
حساس نہیں ہوں!! لیکن تم مجھے باتوں ہی باتوں میں ایک دن کھو دوگی اور تب تمہیں میری اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
مجھے اندازہ ہے!! تمہاری اہمیت کا بھی اور تمہاری محبت کا بھی!! میرا وعدہ ہے کہ نہی تمہاری اہمیت کم ہوگی اور نہ ہی میری محبت!!۔۔۔۔
ہم دونوں کے درمیان جتے بھی ڈیفرنسس ہیں وہ ہمیں کبھی ایک نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے محبت کے خواب دیکھنا اور دکھانا فضول ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی عامر نا اُمید تھا۔
محبت انسان کو مضبوط بناتی ہے۔ تم میرے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں جانتے ہوں تم جانتے ہو کہ وہ کس قدر ڈوبے ہوئے ہیں دولت، تکبر اور روایات کی دلدل میں۔ اس کے باوجود مجھے تم سے محبت کرنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوتا۔ سحر کے ایک ایک لفظ میں سنجیدگی اور پختگی تھی۔
کہانیوں اور حقیقت کی محبت میں بہت فرق ہوتا ہے سحر !! جس طرح تم کہانی میں ٹوئسٹ ڈال کر لڑکا اور لڑکی کو ملا دیتی ہو اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا کہانیاں لکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق قسمت کو موڑا جاسکتا ہے لیکن زندگی ان تصوراتکا نام نہیں ہے۔ عامر کی باتیں سحر کو خوفزدہ کررہی تھیں۔
مجھے کوئی خوف نہیں ہے تمہارا ساتھ دینے میں لیکن اس معاشرے میں محبت ایک گالی کے سوا کچھ نہیں اور تم اس گالی کیلئے اپنی زندگی اور خوشیوں کو نظر مت لگاؤ۔ عامر نے اُسے خاموش پا کر اپنی بات جاری رکھی۔
تمہیں خوف نہیں اور مجھے بھی کسی کا ڈر نہیں تو پھر اتنے مایوس کیوں ہوجاتے ہو! سحر نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا
شائد اس لیے کے میرے لیے قربانی دینا بہت آسان ہے۔ میرے پاس اپنے علاوہ کھونے کیلئے اور کچھ نہیں اور تمہارے پاس تمہارے اپنے ہیں۔ تمہاری خوشیاں ہیں ان سب کو چھوڑنا تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا۔
کچھ مشکل نہیں۔ میرے اندر ہمت ہے اور میری ہمت میری محبت سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ سحر نے عامر کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور پھر اچانک اس کی نظر گاڑی پر پڑی ڈرائیور نجانے کب سے اُس کا انتظار کررہا تھا۔
وہ ایک دم گھبرا گئی اور عامر سے دور ہٹ گئی بیگ سے چادر نکالی اور اُوڑھتے ہوئے گاڑی کی جانب چل دی۔
عامر اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ مایوسی کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ رہی تھی۔ اُسے سحر کی وہ تمام ہمت بھری باتیں ایک بار پھر اس کی کسی کہانی کے ڈائیلاگ لگے
…………………………………………٭٭٭٭………………………………………………………………٭٭٭٭……………………………………………………٭٭٭٭……………………
تھکے تھکے قدموں سے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بے دلی سے اپنا بیگ ایک کونے میں پھینکا اور واش روم میں چلی گئی پانی کے ٹھنڈے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مارے آئینے میں اپنے چہرے کو غور سے دیکھا!! پہلی بار اُسے اپنے چہرہ اس قدر بے جان لگا۔ اس کے کانوں میں صرف ایک بات بار بار گونج رہی تھی۔ تم باتوں ہی باتوں میں ایک دن مجھے کھو دو گی۔ اس کی آنکھوں میں بار بار عامر کا مایوس چہرہ گھوم رہا تھا۔
کاش عامر تم میری کہانی کے کردار تک ہی محدود ہوتے۔ میں اپنی مرضی سے کوئی بھی ٹوئسٹ ڈال کر تمام کامیابیوں اور خوشیوں کو تمہارے قدموں میں ڈھیر کردیتی!! اُس نے سوچا!!
سحر بیٹا !! اُس کے کانوں میں امی کی آواز پڑی تو وہ چونک کر حقیقی دنیا میں واپس لوٹ آئی۔ جی امی آرہی ہوں۔ واش روم میں ہوں۔
بیٹا تمہاری بھابھی کی طبعیت بہت خراب ہے میں اور عادل اُسے ہسپتال لے کر جارہے ہیں۔ امی کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر وہ فوراً واش روم سے باہر آگئی۔
کیا ہوا بھابی کو ؟؟؟ کہاں ہیں وہ ؟؟ سحر نے پریشانی کے عالم میں آس پاس نگاہ دوڑائیے
کچھ نہیں ہوا !! بس یوں سمجھ کہ وہ گھڑی آگئی جس کا برسوں سے انتظار تھا اس گھرکو!! میں دادی بننے وائی ہوں۔ پہلی بار آج سحر نے امی کو اس طرح خوش دیکھا تھا۔
اچھا بیٹا میں چلتی ہوں۔ عادل اور رخشندہ گاڑی میں بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔ امی تو چلی گئیں مگر وہ خوشی کے عام میں وہیں بت بنی کھڑی تھی۔ اُسے خوشی تھی تو اس بات کی کہ اب عادل بھائی اور رخشندہ بھابھی کے لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ برسوں بعد گھر کا سکون واپس آجائے گا۔ اُس کے چہرے کی ساری تھکن دور ہوچکی تھی۔ وہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے کچن میں چلی آئی۔
آپ کو کچھ چاہیے چھوٹی بی بی ؟؟ برتن دھوتے ہوئے حاجرہ نے پوچھا۔
نہیں بس پانی چاہیے تھا۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے جواب دیا۔
اچھا سنو !! جب تمہارا کام ختم ہوجائے تو ایک کپ چائے بنا دینا۔ میں اُوپر اپنے کمرے میں ہوں اس نے خالی گلاس وہیں ٹیبل پر رکھ دیا۔
میں چھوٹی بی بی جی !! میں ابھی بنا دیتی ہوں۔ حاجرہ نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے ٹی وی آن کیا۔ وہ کافی پرسکون ہوچکی تھی۔
پھر اچانک اُسے کسی کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی شہباز اُس کے کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔
آپ!! اب سکے منہ سے بے اختیار نکلا۔ جبکہ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے شہباز کا آنا پسند نہیں آیا تھا۔
عادل اور رخشندہ تو میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے اس لیے میں سوچا آپ سے ہی مل لوں!! وہ نہایت شان سے اس کے بیڈ پر براجمان ہو گیا۔
کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کھٹکٹاتے ہیں اور اجازت لیتے ہیں اس طرح منہ اأھا کر کسی کی پرائیویسی کو ڈسٹرب نہیں کرتے۔ سحر کا لہجہ کافی جارحانہ ہوچکا تھا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا جب بھی شہباز اُس سے ملنے یا بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسی طرح کرتی تھی۔
ہاں بھی کہہ سکتی ہو۔ اب تم یونیورسٹی جاتی ہو۔ باقی سب تو تمہیں اب جاہل ہی لگیں گے۔ بہت غرور ہے تمہیں اپنی پڑھائی پر ہونا بھی چاہیے۔ خاندان کی واحد لکڑی ہو جو یونیورسٹی تک پہنچی ہے اس پر تو تمہیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے ورنہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی ایسی قسمت کہاں اور میرے خیال میں آپ کو اس وقت ہسپتال ہونا چاہیے وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
رخشندہ گھر آجائے گی تو مل بھی لوں گا اور مبارک بھی دے دوں گا۔ ہسپتال جانا ضروری نہیں ہے۔ شہباز ہمیشہ کی طرح بے فکر انداز میں بولا۔
ہاں یہ فارمیلٹی بھی ہم لڑکیوں کو نصیب نہیں ہوتی اس خاندان میں اس بار سحر نے بولنے کے بجائے سوچنے کو ترجیح دی۔
کیا سوچ رہی ہو ؟؟ وہ اٹھ کر اُس کے قریب آیا
کچھ نہیں۔ اُس نے بھی تلخ انداز میں جواب دیا۔ تو پھر سوچ اپنے بارے میں!! ویسے بھی اب تو تم پھوپھی اور میں ماموں بن گیا ہں۔ شہباز کا شریر لہجہ بھی اس شرانگیز لگ رہا تھا۔
دروازہ پر ستک ہوئی۔ بی بی جی چائے۔ حاجرہ نے آواز لگائی۔
آجاؤ!! سحر نے کہا تو دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ ساتھ ہی وہ شہباز کو دیکھ کر سہم سی گئی۔
سلام شاہ صاحب!! حاجرہ نے ادب سے نگاہیں جھکا کر سلام کہا جبکہ شہباز سلام کا جواب دینے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔
آپ کیلئے چائے لاؤں شاہ صاحب ؟ حاجرہ نے کپ بیٹ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہ۔
یہ شاہ صاحب کو دے دو کیونکہ وہ جلدی میں ہیں ویسے بھی میرا موٹ نہیں رہا چاہئے پینے کا۔ سحر نے دیکھے بغیر تلخ انداز میں حاجرہ سے کہا۔ حاجرہ نے کپ اٹھا کر شہباز کے پاس رکھ دیا اور باہر کی جانب مڑ گئی۔
میں جانتا ہوں کہ میرا آنا تم سے بات کرنا تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ لیکن مجبور ہوں اپنے دل کے ہاتھوں اس نے سینے پر ہاتھ کر عاشقانہ انداز میں اور قدرے نرم لہجے میں کہا۔
کسی سے محبت کرنے سے پہلے اُسکی عزت کرنا سیکھیں ورنہ ایسے ڈائیلاگ تو ہر کوئی بول سکتا ہے۔ وہ ابھی تک اُسی تلخ موڑ میں تھی۔ جاتے ہوئے چائے ضرور پی کر جانا!! ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ایک نظر اس نے شہباز پر ڈالی اور کمرے سے باہر آگئی جبکہ شہباز ابھی بھی اپنی مغرور نظروں سے دیوار پر لگی اسکی تصوویر کو گھور رہا تھا پھر ا سکی نظر ٹی وی کے ساتھ پڑی نوٹ بک پر پڑی۔
اِک عمر اثر ہونے تک !!! نوٹ بک کے پہلے صفحے پر اس نے خوبصورت انداز میں لکھا ہوا پڑھا۔ کہانی کا نام تو بہت اچھا ہے۔ شہباز نے دل ہی دل میں سوچا!!
…………………………………………٭٭٭٭………………………………………………………………٭٭٭٭……………………………………………………٭٭٭٭……………………
کافی عجیب لگ رہا ہے مجھے ایسا پہلی بار ہوا کہ میں نوٹس تیاری نہیں کر پائی۔ سحر کا چہرہ بجھا بچھا سا تھا۔
چھوڑ یار ہو جاتا ہے کبھی کبھی۔ تمہارے بھائی اور بھابھی کی خوشی سے تمہارا چہرا اور بھی کھل جانا چاہیے تھا اور تم ہو کہ بڈھی روح لگ رہی ہو۔ عمربین حسب عادت اس کا مذاق اڑانے لگی۔
پتہ نہیں خوش ہونا چاہیے یا نہیں !! گھر میں تو خاموشی چھا گئی ہے سب کچھ میری توقع کے برعکس ہوا ہے مجھے لگ رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حریم کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ پہلے تو ابھی بھی بہت خوش تھیں مگر اب وہ بھی خاص خوش نہیں لگتیں!! سحر کا لہجہ مایوس کن تھا۔
مگر ایسا کیوں ہے ؟ تمہارے گھر میں تو برسوں بعد ایسی خوشی آئی ہے تمہارے بھائی اور بھابی کے جھگڑے کی وجہ ختم ہوگئی۔ اب تو سب کو خوش ہونا چاہیے۔ عمبرین نے حیرن ہوتے ہوئے کہا۔۔
پتہ نہیں جھگڑے کی وجہ ختم ہوتی یا کسی نئے جھگڑے کا آغاز ہوا ہے
سب کو بیٹے کا انتظار تھا۔ بیٹی کے ملنے پر سب کو مایوسی ہوئی ہے حالانکہ بیٹی خدا کی رحمت ہوئی ہے اور اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگ کہ سب خدا کی رحمت سے مایوس ہو رہیں سحر بینچ پر بیٹھ گئی اُسے لگا تھا کہ شاید وقت پہلے سے بدل گیا ہے لیکن حریم کے آنے پر اسے اندازہ ہوا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔
برا مت ماننا سحر لیکن تمہاری فیملی کے خیالات اتنے پرانے ہوں گے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ اب تو زمانہ بدل چکا ہے تعلیم اور شعور کا دور ہے قسم سے سحر مجھے ان لوگوں کی سوچ سے بہت مایوسی ہوئی ہے !! عمبرین بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھی گئی۔
مگر حویلی کے اندر وہی زمانہ ہے وہی دور ہے روایات اور خاندانی سوچ کی دیواریں اس قدر مضبوط ہیں کہ نہ ہی وہ تعلیم سے گر سکتی ہیں اور نہ ہی شعور اس میں کوئی دراڑ ڈال سکتا ہے۔
لیکن مجھے اُمید ہے کہ تم ایک دن یہ سب بدل دوگی۔ عمبرین نے اس کی بات کاٹی !! اچھا آج عامر نظر نہیں آیا !! عمبرین نے آس پاس موجود لڑکے لڑکیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا!!
شائد آج یونیورسٹی نیں آیا مجھے بھی وہ سبح سے دکھائی نہیں سحر نے بیگ میں اپنا موبائل فون نکالتے ہوئے کہا کوئی مسیج بھی نہیں کیا !! اس نے اپنا موبائل چیک کیا۔
تمہیں صبح ہی اس سے پوچھنا چاہیے تھا!! اب میرے یاد دلانے پر تمہیں اس کا خیال ہے۔ یہ اچھی بات نہیں وہ ہے کہ ایک پل تمہارا نام نہیں بھولتا اور تم ہو کہ صبح سے اب تک تمہیں اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں !! عمبرین نے اسے اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
اچھا اب زیادہ میری ماں مت بنو گھر جاکر اُسے کال کرلوں گی۔ اُس نے موئال واپس بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
تم مجھے باتوں ہی باتوں میں ایک دن کھو دو گی۔ اس کے کانوں میں عامر کی وہ مایوس کن بات پھر گونجنے لگی۔
…………………………………………٭٭٭٭………………………………………………………………٭٭٭٭……………………………………………………٭٭٭٭……………………
محبت کرتے ہو تو پھر اُس پر بھروسہ رکھو۔ مرد کیلئے بہت آسان ہے محبت کرنا لیکن وہ لڑکی ہوتے ہوئے بھی محبت کرنے سے نہیں ڈرتی وہ تمہارا ساتھ ضرور دے گی بس وہ ٹھیک وقت کا انتظار کررہی ہوگی۔ اب سوچنا بند کرو اور چائے پیؤ ٹھنڈی ہورہی ہے۔ آصف نے اس کا کندھا تھپتپاتے ہوئے کہا۔
آصف اور عامر اچھے دوست تھے۔ عامر اپنی فیملی کو ایک حادثہ میں کھو چکا تھا تب سے اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اس کا یہ دوست آصف ہی تھا۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں سحر کو لے کر کسی اور ملک چلا جاؤں۔ جہاں انسانیت کی قدر ہو۔ محبت جیسے خوبصورت جذبے کو اہیمت حاصل ہو۔ میں بدگمان نہیں ہوں لیکن میں اگر پاکستان میں ہی رہا تو میں اپنے ماں باپ بہن بھائی کے بعد اپنی محبت کو بھی کھو دوں گا۔ عامر نے چائے کا ایک گھونٹ بھرنے کے بعد کپ نیچے رکھ دیا۔
حوصلہ رکھو یار !! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جو کچھ تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہوا وہ ان کی تصدیر تھی انہیں شائد اسی حادثے میں جانا تھا اس دنیا سے!! موت نے جب آنا ہوتا ہے تب وہ نہ تو ملک دیکھتی ہے نہ رتبہ دیکھتی ہے!! حالات اور موت سے کوئی نہیں بھاگ سکتا۔ بہتری اسی میں ہے کہ انسان ہمت اور بہادری سے مقابلہ کرے۔
تمہاری بات اپنی جگہ درست ہے لیکن جس کے ساتھ حادثہ ہوتا ہے وہی اس کی کیفیت جانتا ہے لوگ تو صرف چہر پڑھ کر اندازہ لگانا جانتے ہیں!! ورنہ یہاں نہ تو دلوں کو پڑھنے کا رواج ہے نہ آنکھوں کو!! عامر نے آصف کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
لیکن یار میں تیرا دل بھی پڑھا ہے اور تیری آنکھیں بھی مگر مجھے سوائے سحر کے اور کچھ نظر نہیں آیا آصف نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
اچھا چل اب نہ شرما!! کہیں باہر چلتے ہیں اور اچھا سا ڈنر کرتے ہیں!! آصف نے اسے خاموش پاکر اس موضوع کو بدلنے کی کوشش کی۔
ہاں چلو میں کپڑے بدل لوں پھر چلتے ہیں۔ عامر نے چالے کے دونوں خالی کپ اٹھائے اور اندر چلا گیا۔
پھر کچھ دیر بعد دونوں تکہ شاپ پر موجود تھے۔
یار کب سے آرڈر دیا ہوا ہے ابھی تک کھانا نہیں آیا!! آصف نے ویٹر سے کہا جبکہ عامر موبائل ہاتھ میں لیے بار بار چیک کررہا تھا۔
بار بار موبائل چیک کرنا سے جتنے مسیج ہیں اس میں اُتنے ہی رہیں گے بڑھ نہیں جائیں گے !! آصف نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
صبح سے اُس کا کوئی مسیج نہیں آیا۔ اس نے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا کہ میں یونیورسٹی کیوں نہیں آیا۔ آج صبح سے رات ہوگئی اس نے موبائل واپس جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔
کہیں مصروف ہوگی۔ خود فون کرکے بتا دیتے نا!! آصف نے سامنے پڑی اخبار اٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگا۔
تیری آنکھوں کے دریا کا اُترنا بھی ضروری تھا‘‘ محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا‘‘
واہ کیا گانا لگا رکھا ہے۔ عامر کا موبائل بجنے لگا آصف نے اُسے خوبصورت رنگ ٹون پر سراہا۔ عامر نے موبائل جیب سے نکالا۔ سحر کا نام دیکھ کر اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ کال اٹینڈ کرکے وہاں سے کچھ فاصلے پر چلا گیا۔
ہیلو!!!!
اسلام وعلیکم!!! عامر کے ہیلو کے جواب میں سحر نے سلا کرنا بہتر سمجھا۔
وعلیکم اسلام!!! لڑی عمر ہے تمہاری عامر نے رومانوی انداز میں جواب دیا۔
بڑی عمر‘ وہ کیسے؟؟ جواب میں سحر نے دریافت کیا۔
ابھی تمہیں ہی یاد کررہا تھا اور تمہاری کال آگئی۔ کیسا رہا آج کا دن یونیورسٹی میں؟ ساتھ ہی عامر مسکرا دیا جیسے اُسے اس سوال کا جواب پہلے ہی معلوم ہو۔
بہت اچھا گزرا!! آج ذرا بھی بوریت نہیں ہوئی۔ عمبرین کے ساتھ ٹائم گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔ سحر نے بھی شرارتاً جواب دیا۔ وہ جانتی تھی کہ حساس طبعیت کے مالک عامر پر یہ بات بجلی بن کر گرے گی۔۔۔
ہم م م م م ۔۔۔۔۔ اور اب عمبرین تو نہیں تمہارے ساتھ اور تمہیں بوریت ہو رہی ہوگی اسی لیے تم نے سوچا کہ عامر کو کال کر کے اس کے ساتھ ٹائم پاس کیا جائے عامر نے بظاہر منہ بناتے ہوئے کہا۔
بس ایسا ہی سمجھ لو اور ہاں ابھی ابھی مجھے یاد آیا کہ تم آج یونیورسٹی نہیں آئے‘ یہی پوچھنے کیلئے کال کی ہے۔ بتاؤ کیوں نہیں آئے آج ؟؟
سحر نے پہلی دولائنیں تو شرارتاً کہیں مگر آخری سوال میں کافی سنجیدگی تھی۔
شکر ہے ابھی ابھی ہی سہی تمہیں میری یاد تو آئی ورنہ مجھے تو اتنا بھی یاد نہیں آیا کہ میں ہی تمہیں کال کرلیتا۔ دراصل میں مصروف تھا۔ اسی لیے تمہیں کال یا مسیج کرنے کا خیال ہی نہیں آیا عامر نے بھی جوابی وار کیا لیکن اس کے لہجے میں سنجیدگی نے سحر کو سنجیدہ کردیا تھا۔
جھوٹ بول رہے ہو! تمہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ تم نے کتنی بار اپنے موبائل کا اِن باکس چیک کیا ہوگا کہ میرے مسیج کے انتظار میں!! میں نے بھی بہت مِس کیا تمہیں!!! لیکن تم نے ابھی تک نہیں بتایا کہ کیوں نہیں آئے آج۔
بس صبح بستر سے اٹھنے کا دل نہیں چاہا اس لیے سوچا کہ آج چھٹی مار لوں عامر نے ہلکا سا جواب دیا۔
تو کم از کم مجھے ایک مسیج ہی کرکے بتا دیتے میں سارا دن پریشان رہی کہ پتہ نہیں تمہاری طبعیت بھی ٹھیک ہے یا نہیں!! سحر کے انداز میں ہلکا سا غصہ اور فکر تھی۔
مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ تمہیں میرا خیال ہی نہیں آیا!! عامر اس موقع کے انتظار میں تھا۔
تم جانتے ہو کہ میں مذاق کررہی تھی اب مجھے شرمندہ کرنا بند کرو اور یہ بتاؤ کہ صبح آؤ گے یا نہیں سحر نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
دیکھوں گا!! اگر دل کیا تو آؤں گا۔ عامر نے جلتی پر تیل ڈالا۔
تو ٹھیک ہے جیسے تمہارا دل کہے ویسے ہی کرو مجھے کام ہے اس لیے پھر کبھی بات ہوگی۔ بائے اینڈ گڈ نائٹے سحر نے جلدی جلدی کہا اور کال ڈراپ کردی وہ ایک دم سیریس ہو جاتی تھی اور عامر کو بھی اندازہ تھا کہ اُس نے کس بات پر کال ختم کی ہے اس کے باوجود اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی محبت کے نشے سے اس کی آنکھیں مغرور ہونے لگیں۔
اگر بات ختم ہوگئی ہو تو آجاؤ کھانا آگیا ہے!! آصف نے اسے آواز دی
عامر نے جلدی سے سحر کو ’’I LOVE You‘‘ لکھ کر مسیج کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ مسیج سحر کیلئے کسی نیند کی گولی سے کم نہیں ہے اور وہ سکون کی نیند سو سکے گی۔
…………………………………………٭٭٭٭………

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.