سب منظر خاموش : تحریر: محمد بلال فیاض

ہم دونوں کے درمیان آواز کا رشتہ ہی تو ہے۔ کیا تم اسے بھی ختم کرنا چاہتی ہو؟ ساجد نے بے حد افسردہ لہجے میں کہا۔
’’میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ساجد۔‘‘ اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
پھر تم اس طرح مجھے نظر انداز کیوں کر رہی ہو ؟ آخر تم کیوں مجھے اگنور کررہی ہو؟ ساجد کے لہجے میں دکھ گھلا ہوا تھا۔
میں ہر گز آپ کو اگنور نہیں کررہی۔ مصروفیات آڑے آجاتی ہیں ورنہ اور کوئی بات نہیں۔ اس نے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
’’دیکھو انعم! تم جانتی ہو میری زندگی میں تمہاری کیا اہمیت ہے۔ تم سے بات کرکے میں اپنی جہنم جیسی زندگی میں مسرت کے چند لمحے کشید کرلیتا ہوں اور تم مجھ سے بات نہ کرکے مجھے ان لمحوں سے بھی محروم کردیتی ہو۔ مانتا ہو ہمارے درمیان محض آواز کا رشتہ ہے مگر یہ آواز کا رشتہ ہی ہے جو مجھے احساس دلاتا ہے کہ زندگی میں خوشی نام کی بھی کوئی چیز ابھی میرے لیے باقی ہے۔ تم یقین نہیں کرسکتیں تم سے بات کرکے میں اپنی زندگی کے ساری تخلیاں بھول جاتا ہوں۔ چند لمحوں کیلئے یوں لگتا ہے جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں آگیا ہوں۔‘‘ ساجد مسحور کن لہجے میں کہہ رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر وہ سرشاری سے مسکرارہی تھی۔
انعم کو اس بات کی خوشی تھی کہ اس کی وجہ سے کسی کی خزاں رسیدہ زندگی میں بہار آجاتی ہے۔ چند لمحوں کے لیے ہی سہی۔
****
انعم کتابوں سے مغز ماری کررہی تھی جب اس کی امی نے آواز دی۔ ’’انعم! ذرا ایک کپ چائے تو بنا د و سر میں بہت درد ہے۔‘‘
اچھا امی! کتابوں سے نظر ہٹائے بغیر اس نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے جواب دیا تھا۔ کتابیں رٹ رٹ کر اس کا بھی دماغ چکرانے لگا تھا۔ اس نے کتاب ایک طرف پٹخی اور کچن کی طرف چائے بنانے چلی گئی۔ امی کو چائے دے کر واپس اپنے کمرے میں آئی تو موبائل بج اٹھا۔
اسکرین پر ساجد کا نمبر جگمگا رہا تھا جو اس نے ثناء کے نام سے محفوظ کیا ہوا تھا۔
’’ہیلو! کیسی ہو؟‘‘ موبائل فون سے ساجد کی آواز ابھری۔
بہت اچھی ہوں۔ اس نے شوخی سے جواب دیا تو وہ کھل اٹھا۔
’’وہ تو تم واقعی ہو۔ اس میں تو کوئی شک نہیں۔ کیا کررہی تھیں؟‘‘ اس کی مسکراتی ہوئی آواز ابھری۔ ’’ کچھ خاص نہیں۔ آپ سنائیں کیا ہورہا تھا۔‘‘ وہ اٹھلائی۔
’’ارے یار‘ ہونا کیا ہے کچھ دیر پہلے ہی آفس سے آیا تھا اور اب بیوی کی جھک جھک، بک بک اور بچوں کی ریں ریں سن رہا ہوں۔‘‘ ساجد نے بیزاری سے کہا پھر وہ اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگا۔
’’میں تو تنگ آگیا ہوں اس زندگی سے۔ شادی سے پہلے کیا کیا سوچا تھا کہ شادی کے بعد لائف ایسے گزاروں گا۔ ویسے گزاروں گا مگر میری جاہل اور بدمزاج بیوی نے سارے خواب چکنا چور کردئیے۔ زندگی صحیح معنوں میں جہنم بن گئی ہے۔ ساجد کی بات سن کر ا نعم کو اس پر ترس آنے لگا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں خاموش رہی تو وہ مزید بولا۔
’’اماں نے ایسی جاہل اور لاپروا عورت پلے باندھ دی ہے کہ اس پر ساری زندگی کف افسوس ملا جائے تو بھی کم ہے۔ دفتر سے آکر سانس نہیں لیتا کہ شکایات اور مسائل کی پٹاری کھل جاتی ہے۔ اتنی بھی تمیز نہیں کہ شوہر سارا دن کا تھکا ہارا دفتر سے آیا ہے۔ کوئی چائے پانی ہی پوچھ لے مگر ناجی، وہ زبیدہ ہی کیا جو اس بات کا احساس کرلے۔ ساجد نے اپنے تےءں بات مکمل کی۔
بہت ہی بے وقوف عورت ہے۔ آخر کار انعم نے جل کر کہہ دیا۔
اور اس کی بے وقوفیوں کی سزا ساری زندگی مجھے ہی بھگتنی ہے۔ِ
ساجد کی آزردگی سے لمبی سانس بھر کر رہ گیا۔
اللہ ہدایت دے ایسی عورت کو۔ انعم نے کہا تو وہ بولا:
’’چلو چھوڑو گولی مارو۔ میں نے تمہیں کن جلی کٹی باتوں میں الجھا دیا۔ میری تو عادت بن گئی ہے جلنا کڑھنا۔ تم کیوں اپنا خون جلاتی ہو۔ چلو کوئی اور بات کرتے ہے۔ ساجد نے لہجے میں بشاشت پیدا کرنے کی کوشش کی اور موضوع تبدیل کردیا۔‘‘ آج کس کلر کا سوٹ پہنا ہے۔ میٹھے اور نرم لہجے میں اس نے دریافت کیا۔
’’پنک کلر کا۔‘‘ انعم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی جو آواز سے صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
’’پھر تو بالکل پری لگ رہی ہو گی تم۔‘‘ ساجد نے شوخی سے کہا تو انعم کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اور پھر وہ دونوں پورے دو گھنٹے گپ شپ کرتے رہے۔
****
ساجد اور انعم کی دوستی کسی رانگ نمبر کا نتیجہ نہیں تھی بکہ ان کا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ پہلے کچھ عرصے تھے وہ نیٹ پر ہی چیٹ(chat) کرتے رہے مگر کچھ عرصے بعد موبائل نمبر کا تبادلہ ہوا اور پھر ان کی فون پر براہ راست بات چیت ہونے لگی۔ انعم کی نظروں میں ساجد ایک سچا اور کھرا انسان تھا اور مخلص بھی۔ اس نے آج تک اپنی زندگی کے بارے میں اس سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی اور نہ ہی انعم کو دھوکے میں رکھا تھا۔
جب پہلی بار ان کی بات ہوئی تھی۔ تب ہی ساجد نے بتا دیا تھا کہ وہ ایک شادی شدہ مرد ہے اور دو بچوں کا باپ بھی مگر اس کی بیوی اس کے مزاج کے بالکل برعکس ثابت ہوئی تھی۔ بقول ساجد کے زبیدہ ایک لاپرواہ، زبان دراز اور جذبات و احساسات سے عاری عورت تھی جس نے ساجد جیسے حساس، لونگ کےئرنگ اور تعلیم یافتہ شخص کی زندگی عذاب بنا رکھی تھی۔
بقول ساجد کے ایسے میں انعم اس کی زندگی میں بادصبا کا جھونکا ثابت ہوئی تھی۔ اس سے بات کرکے وہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی اپنی زندگی کی سارای تلخیاں بھول جاتا تھا۔ انعم کا وجود اس کیلئے باعث راحت تھا اور انعم کے خیال میں کہ یہ کوئی غلط بات نہیں تھی کیونکہ اگر کسی سے موبائل پر چند لمحے بات کرنے سے کسی کو مسرت کے چند لمحے میسر آسکتے ہیں۔ کسی کی تلخیاں اور مشکلات کم ہوسکتی ہے تو اس میں ہرج ہی کیا تھا؟ اور ویسے بھی اسے ساجد سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں تھا۔ اس نے بھی کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔ ان کا تعلق صرف موبائل تک محود تھا اور ساجد کی ایک اور اچھی بات یہ تھی کہ اس نے اسے آج کے لڑکوں کی طرح سبز باغ نہیں دکھائے تھے۔ بس ایک آواز کا رشتہ تھا جو صرف دوستی اور کچھ درد شےئر کرنے تک محدود تھا۔ ساجد ایک سلجھا ہوا شخص تھا جو لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا تھا۔
****
بی ایس سی کے پیپرز ختم ہونے کے بعد انعم نے سکون کا سانس لیا تھا۔ بہت تھکا دینے والا دور ہوتا ہے یہ پیپرز کا بھی۔ بقول اماں کے اتنا سا منہ نکل آیا تھا دن رات پڑھ پڑھ کے۔
ابھی وہ پیپرز کی تھکن بھی نہ اتار پائی تھی کہ اس کیلئے آنے والے تازہ ترین رشتے نے گھر میں ہلچل مچا دی۔ بات یہ نہیں کہ یہ اس کا پہلا رشتہ تھا بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس سے پہلے جتنے بھی رشتے آئے تھے ان میں سے کوئی بھی گھر والوں کے معیار پر پورا نہیں اترا تھا۔ اماں ابا کی نظر میں رضا کا رشتہ انعم کیلئے ہر لحاظ سے موزوں تھا۔
رضا ایک پڑھا لکھا، خوش شکل نوجوان تھا۔ ایم کام کرنے کے بعد وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کررہا تھا۔
تھوڑی بہت چھان بین کے بعد رضا کا رشتہ منظور کرلیا گیا اور انعم کے بی ایس سی کے رزلٹ کے فوراً بعد شادی کی تاریخ ٹھہرا دی گئی۔
اسی دوران انعم کی ساجد سے فون پر بات ہوئی تو اس نے اپنے اس رشتے کے بارے میں بتایا۔ اس کی بات سن کر وہ چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا۔
کیا ہوا ساجد؟ آپ کو اچھا نہیں وہ کچھ دیر بعد بولی تھی۔
نہیں۔۔۔۔ نہیں‘ ایسی بات نہیں ہے۔ اس نے فوراً وضاحت کی۔
پھر آپ کی یہ معنی خیز خاموشی۔۔۔۔۔۔‘‘ انعم نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’انعم‘‘۔ وہ دھیرے سے کہہ کر چند ثانیوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ جیسے الفاظ تلاش کررہا ہو۔ پھر دوبارہ گویا ہوا۔ دیکھو انعم! ہم دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی کمٹمنٹ تو نہیں ہے مگر ایک بہت اچھا اور پیارا دوست اگر آپ کی زندگی سے دور جارہا ہو تو دکھ تو ہوتا ہے نا؟ اس کا لہجہ یاس لیے ہوئے تھا اور انعم اس کی صاف اور سیدھی بات پر پیار آگیا۔
’’ہوں‘ یہ تو ہے۔ اس نے کہا اور فوراً موضوع تبدیل کریا۔ کیونکہ وہ فی الحال ساجد کو یاسیت سے نکالنا چاہتی تھی۔
****
وہ ستمبر کی ایک حسین شام تھی جب وہ انعم ارشاد سے انعم رضا بن کر رضا کے سُونے آنگن کو رونق بخشنے آگئی تھی۔
رضا دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بڑی دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں اور اپنے گھروں میں خوشحال تھیں۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے ساس بھی بہت نرم طبیعت اور پیار کرنے والی ملی تھی۔
شادی کے ابتدائی ایام بے حد حسین تھے۔ ان کی زیادہ شامیں گھر سے باہر کسی ہوٹل کے پرفسوس ماحول میں کافی پیتے ہوئے یا تفریحی مقامات پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے پھرتے گزرتی تھیں۔
شادی سے کچھ دن پہلے ایک اہم کام جو انعم نے یہ کیا تھا کہ اس نے اپنی سم تبدیل کر لی تھی کیونکہ اب وہ ساجد سے رابطہ رکھ کر رضا کو دھوکا نہیں دینا چاہتی تھی کیونکہ اب رضا ہی اس کے دکھ سکھ کا ساتھی اور سب کچھ تھا۔
***
شادی کے ایک سال بعد مومنہ اس کی گود میں آئی تو اس کی روح سرشار ہو گئی۔ رضا بھی بے حد خوش تھے اور اس کی ساس تو مومنہ کی بلائیں لیتی نہ تھکتی تھیں۔
وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چل سکا اور مومنہ بعد احسن اور احمر بھی یکے بعد دیگرے ان کے آنگن کی رونق میں اضافہ کرنے چلے آئے۔ احسن اور احمر کی پیدائش کے بعد اس کی ذمہ داریوں میں اضاہ ہو گیا تھا۔
گھر کا کام، بچوں کی دیکھ بھال، ساس کا خیال رکھا۔ ساس ہائی بلڈپریشر کی مریضہ تھیں اور اسے خود بھی ان سے گھر کا کام کروانا پسند نہ تھا کیونکہ یہ عمر آرام کی ہوتی ہے نہ کہ کام کی!
گھر کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے پیش نظر ایک دن اس نے رضا سے کہا کہ رضا! میں چاہتی ہوں کہ کسی کام والی ماسی کا انتظام کرلیں۔ گھر کے کام کاج کی وجہ سے میں بچوں پر ٹھیک سے توجہ نہیں دے پاتی۔
کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس اضافی خرچے کی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے اس دور میں۔ میں یہ افورڈ نہیں کرسکتا اور تم جانتی ہو کہ میرے پرائیویٹ جاب ہے جہاں کام زیادہ اور سیلری کم ہے۔ رضا نے قطعی انداز میں کہا تو وہ چپ کی چپ رہ گئی۔
دیکھو انعم! جو پیسے ہم نے ماسی کو دینے ہے اگر وہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے محفوظ کرلیں تو کیا زیادہ بہتر ہے۔ اس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے رضا نے اسے آرام سے سمجھایا تو وہ اس دلیل پر گہری سانس بھر کر رہ گئی۔ اپنی جگہ رضا بھی ٹھیک تھا مگر سارا دن کام کرکے کے اس کا تھکن سے برا حال ہو جاتا اور شام کو جب رضا دفتر سے آتے تو اس وقت وہ سخت جھنجھلائی ہوئی ہوتی تھی۔ چڑچڑاپن جیسے اس کے مزاج کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔
****
ارے بھئی لے آؤ ناشتہ۔ مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔ رضا کی آواز سن کر اس کے ہاتھوں میں پھرتی آگئی۔ سب سے چھوٹا احمر بھوک سے چلا چلا کر رو رہا تھا۔ دماغ بھٹک کر اس کی جانب چلا گیا۔ ٹرے میں آملیٹ کے ساتھ سلائس رکھ کر جلدی جلدی کپ میں چائے انڈیلی تو دو سالہ احسن چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا کچن میں چلا آیا اور اس کی قیمض کا پلوکھینچ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
مومنہ کو کچھ دن پہلے کی سکول داخل کروایا تھا وہ روتی دھوتی، منہ بسورتی سکول تو چلی جاتی مگر اس کے بعد احسن اور احمر سارا دن ناک میں دم کیے رکھتے تھے۔ وہ کہیں بھی کوئی بھی کام کررہی ہوتی تو دھیان بچوں کی طرف لگا رہتا پھر دونوں بلا کے شرارتی بھی تھے۔ نچلا بیٹھنا تو انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔
’’کیا آج کی تاریخ میں ناشتہ مل جائے گا۔؟‘‘ رضا کی طنزیہ آواز بلند ہوئی تو وہ جل کر رہ گئی۔ رضا کو ہر چیز اپنے وقت پر چاہیے ہوتی تھی۔ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ بہلانے کی خاطر اس نے احسن کو ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا پکڑا کر ناشتے کی ٹرے اٹھائی اور کچن سے باہر نکلی۔
’’سارے عذاب میری جان کو ہی ہیں۔‘‘ رضا کے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے وہ بے اختیار بڑبڑائی۔ ابھی کچن میں جانے کیلئے وہ واپس پلٹی ہی تھی کہ برآمدے میں تخت پر بیٹھی اماں نے تسبیح ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ بہو مجھے بھی ناشتہ دے دو۔
’’اچھا اماں۔!‘‘ تھوڑی دیر بعد اماں کے سامنے دو سلائس اور پھیکی چائے کا ایک کپ رکھنے کے بعد وہ احمر کی طرف متوجہ ہوئی کیونکہ اماں کا ناشتہ بس یہی ہوتا تھا۔
*****
رضا کو بخار تھا۔ اس نے آج آفس سے چھٹی کی تھی۔ کچن سے بیڈروم اور بیڈروم سے کچن کے درمیان وہ شٹل کاک بنی ہوئی تھی۔ دوپہر ہونے کو آئی تھی اور مسلسل پریڈ سے اس کی ٹانگیں شل ہو چکی تھیں۔
رضا کو نیم گرم دودھ کے ساتھ دوا دینے کے بعد وہ لیٹی ہی تھی کہ مومنہ کی سکول وین کا ہارن سنتے ہی اسے دوبارہ اٹھنا پڑا۔ کمر سیدھی کرنے کی حسرت اس کے دل میں ہی رہ گئی تھی۔
مومنہ کو نہلا دھلا کر کھانا کھلانے کے بعد جب وہ بیڈروم میں آئی تو رضا ہشاش بشاش انداز میں فون پر کسی سے بات کررہے تھے حالانکہ جب وہ کمرے سے گئی تھی تو رضا دوا کے زیر اثر نیند میں تھے۔
’’ہاں یار‘‘ بس تھوڑا بخار ہو گیا۔ دوسر ی طرف سے کوئی جواب آیا تو وہ پھر سے بولے :
’’نہیں۔۔۔ نہیں تمہاری آواز سنتے ہی بھلا چنگا ہو گیا ہوں۔‘‘ لہجے میں خاصا جوش و خروس تھا۔
’’نہیں بھئی۔۔۔۔۔۔! اب تمہاری حسین آواز سننے کے بعد کس کافر کو نیند آئے گی؟‘‘ بڑے دلربا انداز میں انہوں نے کہا تو وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ ایسی بے تکلفی سے رضا کو اس نے کم ہی کسی سے بات کرتے سنا تھا۔ اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ یکدم چھٹی حس بیدار ہو گئی تھی۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی۔
’’اچھا ٹھیک ہے پھر بات ہوگی‘‘ اسے دیکھتے ہی رضا نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
مومنہ آگئی سکول سے؟ بہت نارمل سے انداز میں رضا نے پوچھا تھا۔ ان کے چہرے پر کسی ندامت یا شرمندگی کا شبہ تک نہ تھا۔
’’ہوں‘‘ وہ اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئی بولی تھی۔ کچھ دیر بعد رضا گہری نیند سو گئی مگر اس کی نیند اڑن چھو ہو گئی تھی۔ سوچوں کے بھنور میں پھنسی وہ بس کروٹیں ہی بدلتی رہی۔
***
اگلا دن اتوار کا تھا۔ مومنہ نے احسن اور احمر کے ساتھ مل کر خوب ہنگامہ مچا رکھا تھا۔ رضا کی طبیعت کافی حد تک بہتر تھی۔
وہ حسب معمول صبح سے ہی کچن میں جتی ہوئی تھی۔ مومنہ نے چاکلیٹ کیک کی فرمائش کردی تھی۔ احسن کی ضد تھی کہ آج اس نے اسپیگٹی کے علاوہ کچھ نہیں کھانا۔ رضا کیلئے دلیہ اور اماں کیلئے پھیکی کچھڑی بنانی تھی۔ کھانا، صفائی اور برتن۔۔۔ ان سب کے درمیان وہ گھن چکر بنی ہوئی تھی۔ ابلتے پانی میں اسپیگٹی ڈال کر اس نے دلیے پر نظر ڈالی جو بالکل تیار تھا۔ دلیہ ٹھنڈا کرنے کے بعد شیشے کے باؤل میں ڈال کر وہ رضا کی طرف جو بیڈ روم میں آرام کررہے تھے بڑھی مگر بیڈروم کے دروازے کے پاس پہنچ کر ٹھٹک کر رک گئی۔ رضا کسی سے فون پر بات کررہے تھے۔
شوہر کی جاسوسی کرنا یا ہر وقت ٹوہ میں رہنا اس کی عادت نہ تھی مگر کانوں میں پڑنے والی آواز ہی ایسی تھی کہ وہ سراپا سماعت بنی دروازے کے ساتھ لگی کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔
’’تم کیا جانو صبا! تم سے بات کرکے جو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کا دل جسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔
’’تمہاری آواز سن کر احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں ابھی کچھ دلکشی اور رعنائی باقی ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ میں دلیے کا باؤل لرزنے لگا۔
’’ارے‘ میری بدمزاج بیوی کا کیا پوچھتی ہو۔ اسے تو گھر کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی اور میری تو جیسے پرواہ ہی نہیں اسے جذبات و احساسات سے عاری عورت ہے۔ ہر وقت بات بے بات واویلا مچانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔‘‘
انعم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اسی لمحے اسے زور دار چکر آیا۔ برق رفتاری سے ہاتھ بڑھا کر اس نے دیوار کا سہارا نہ لیا ہوتا تو وہ وہیں ڈھیر ہو جاتی۔ اس کے سامنے اس کا ماضی کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔ ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ اُس کے ہاتھ سے شیشے کا باؤل فرش پر گرا اور کرچی کرچی ہو گیا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.