کہانی میں جان ہو،تاکہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں آخر تک رکھے:منیر احمد راشد

بچے اور بچوں کا ادب‘‘کے عنوان سے نشست ،ابن آس، ،سلیم فاروقی، اعظم طارق کوہستانی اور دیگر شامل
کراچی( لکھاری نیوز)آفاق ریڈرز کلب اورکاروان ادب اطفال کے تحت بچوں کے ادیبوں کی ماہانہ نشست فاران کلب میں منعقد ہوئی جس میں منیر احمد راشد، ابن آس، سلیم فاروقی، اعظم طارق کوہستانی، اسلم غوری، محمد الیاس نواز، عشرت زاہد، حسام چندریگر، عبد الرحمٰن المومن، ٓصف مہک، احمد کمال، ندا خان، محمد اسامہ، زاہد حسین شریک ہوئے جبکہ اسامہ خان اور بلال نے آفاق ریڈرز کلب کی طرف سے قلم کاروں کو خوش اآمدید کہا۔’’بچے اور بچوں کا ادب‘‘ کے عنوان سے اس نشست میں محمد الیاس نواز نے ایک کہانی پیش۔ جس کے بعد قلم کاروں نے تحریر کے حسن و قبح پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سلیم فاروقی نے کہا کہ اچھی کہانی یا شعر کو جانچنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اسے آنکھیں بند کر کے سنا جائے اگر آنکھوں کے سامنے اس کا منظر قائم ہو جائے تو سمجھئے کہ تحریر اچھی ہے۔ اسلم غوری نے کہا کہ کہانی سنتے ہوئے بعض جگہ بے ساختہ ہنسی آئے تو کہا جا سکتا ہے کہ تحریر دل چسپ ہے۔محمد اسامہ نے کہا کہ قلم کار نے تاثرات بھی رقم کئے ہوں تو تحریراور اچھی ہوجاتی ہے۔حسام چندریگر نے کہا کہ بعض کہانیاں سبق آموز نہیں ہوتیں مگر ان میں کچھ جملے اصلاحی ضرور ہوتے ہیں۔عبدالرحمن المومن نے کہا کہ کہانی ایسی ضرور ہونی چاہئے کہ شروع کرنے کے بعد قاری پڑھتا چلا جائے۔ابن آس نے کہا کہ مزاحیہ تحریر خود اپنے آپ کو مزاحیہ بتائے ناکہ قلم کار کو بتانا پڑے۔ لہٰذا جو قلم کار سنجیدہ تحریریں زیادہ اچھی لکھتے ہیں وہ زبردستی مزاحیہ تحریریں لکھنے کی کوشش نہ کریں تو اچھا ہے کیوں کہ مراح لکھنا مذاق نہیں۔آخر میں معروف ادیب اور استادمنیر احمد راشد نے کہا کہ کہانی سبق آموز نہ ہو مگر کہانی کو کہانی ہونا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلا جملہ سوچ کر لکھنا چاہئے۔اس کے بعد کہانی میں اتنی جان ہونی چاہئے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں آخر تک رکھے۔ منظر کشی کے ساتھ ساتھ جذبات نگاری بھی ہونی چاہئے۔ واقعات کا ربط بھی ہونا چاہئے کہ ہر واقعہ دوسرے سے جڑا ہواہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک نئی تخلیق پیدا کرنا بڑا کمال ہے اور یہی ادیب کا کام ہے۔ جس عمر کے بچے کے لئے لکھیں محاورہ اور الفاظ اسی طرح کے استعمال کیجئے۔ اگر آپ زبردستی کچھ سکھانا چاہتے ہیں تو یہ پروپیگنڈا ہوگا ادب نہیں۔ ہماری توجہ اس پر ہوتی ہے کہ اخلا قیات کیسے بتائیں، اخلاقیات بتائی نہیں سکھائی جاتی ہیں۔آخر میں شام کی چائے پر ہونے والی اس نشست کا اختتام منیر احمد راشد کی دعاپر ہوا۔

Facebook Comments

Website Comments

  1. عارفہ صدیقہژ
    Reply

    سلام مہربانی ہمیں اپنی بات کو کہنے کا کچھ موقع ملا دراصل میں کہانیاں اور کچھ افسانے لکھ چکی ہوں جسے شائع کرنا چاہتی ہوں مگر میرا آپسے یہ سوال ہے کہ کسطرح اپنا ادب با آسانی آپ تک پہنچایاجائے اس بارے میں آپ کی مدد جلد ہو اور مہربانی کرکے مجھے اس کا کوئ طریقہ بتایا جاے میں آپ کی اطلاع کا انتظار کروں گی شکریہ۔

  2. عارفہ صدیقہ
    Reply

    سلام مہربانی ہمیں اپنی بات کو کہنے کا کچھ موقع ملا دراصل میں کہانیاں اور کچھ افسانے لکھ چکی ہوں جسے شائع کرنا چاہتی ہوں مگر میرا آپسے یہ سوال ہے کہ کسطرح اپنا ادب با آسانی آپ تک پہنچایاجائے اس بارے میں آپ کی مدد جلد ہو اور مہربانی کرکے مجھے اس کا کوئ طریقہ بتایا جاے میں آپ کی اطلاع کا انتظار کروں گی شکریہ۔

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.