بلکتے ہوئے گل

چوہدری دلاور حسین
گل گلشن کی رونق وطفل مکتب کا قیمتی سرمایہ ۔ حدیقہ ہمیشہ پھولوں کی خوبصورتی و رنگینی ہی کے بل بوتے پر اپنی اہمیت قائم رکھتا ہے ۔آنگن کی شادمانیاں وچہل پہل ان معصوم فرشتوں کی کلکاریوں سے وابستہ ہوتی ہیں مسکن کی درو دیوار پر کھینچی گئی لکیریں و نقش و نگار خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہیں ۔یہ کھل کھلاتے ہوئے ننھے فرشتے بزرگوں کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ چمن کی دیدہ زیبی کا محور ہیں جو ہرطرح کی دماغی پریشانیوں کیلئے مقفل کا کام کرتے ہیں۔دن بھر کی تھکاوٹ و ذہنی پریشاینوں کو ڈیلیٹ کرنے میں یہ کامیاب ٹانک ہیں۔ کتاب اپنی اہمیت دلچسپ مضامین و خوبصورت جملوں کے بل بوتے پر قاری کیلئے لطف ِمطالعہ ہے ۔کلاس روم کا لطف اُستاد کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت وطلباء کی درست سمت میں رہنمائی پر منحصر ہوتا ہے چنانچہ یہ ادب و احترام و علمی توجہ شاگردوں کو معاشرے کا فعال رکن بناتی ہیں ۔کسی بھی ملک میں قائم نظم و ضبط کا تعلق وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک ہوتا ہے۔چادر و چار دیواری کا تقدس اُس وقت مضبوطی کے ساتھ اپنی منازل طے کرتا ہے جب چاروں اطراف بسنے والے افرادخواہ وہ امیر ہوں یا غریب خود کو محفوظ سمجھیں اور اُنہیں کسی قسم کا خوف نہ ہو۔کسی بھی ملک کی عوام کاباشعور ہونے کے ساتھ اعلیٰ ثقافتی اقدار سے روشناس ہونا بھی ازحد ضروری ہے ۔ نوجوان نسل کو جدید تعلیمی ماحول کے خطوط پر اُستوار کرنا بھی وقت کااہم تقاضا ہے۔اگر خدانخواستہ پرائمری کلاس کے طلباء کو بُری سوسائٹی میسر آجائے تو صد افسوس نہ تو وہ ملک و قوم کے بہترین معمار بن سکتے ہیں اور نہ کسی ترقی یافتہ ملک کے کامیاب شہری ۔چمن کے ان کھلتے ہوئے گل بوٹوں کی ہر لمحہ نگہداشت نہایت ضروری ہے عموماً والدہ /والد دونوں کا جاب سے وابستہ ہونے کی بنا پر بچوں کو توجہ نہ دینا یا مصنوعی تربیت کسی اور کے سپر د کر دینے سے اغلاظی وائرس جنم لیتے ہیں ان ہی کی بدولت ہونے والے نقصانات کا ازالہ تا دمِ زیست ممکن نہ ہو سکتا ہے ۔ اگر اپنی مصروفیات پر پردہ ڈال دیا جائے اور تربیت کسی اور کے حوالے کر دی جائے تو نہ تو چمن مہکتا ہے اور نہ ہی وہاں کے نونہال۔ مستقبل کے یہ سپوت ۔سکول، کالج و یونیورسٹی طلباء و طالبا ت مسافتِ علمی کی طرف رواں دواں۔سکول چونکہ بچوں کیلئے ابتدائی درسگاہ ہے اس لئے یہاں انہیں مختلف قسم کی صحبت جلد میسر آجاتی ہے آج کل جدید دور نے انگلش میڈیم سسٹم متعارف کروا کے والدین کی ذہنی کوفت کو آرام دہ بنا دیا ہے۔پلے گروپس میں ایڈمشن ہولڈرز کی عمر صرف اڑھائی سے تین سال پر محیط ہوتی ہے جہاں پندرہ سو ماہوار پر بھرتی کی گئی میٹرک تھرڈ ڈویژن ٹیچر ان کیلئے ٹیچر/آیا کے فرائض سرانجام دینے و سکول انتظامیہ کے ظلم و ستم سہنے پر مجبور ہو تی ہے ۔ننھے فرشتے یہاں ہر طرح کا عذاب سہنے پر مجبور ۔جاب پر مامور والدہ /والد سکول ٹیچر پرمکمل بھروسہ کرتے ہوئے خود کو تمام تر ذمہ داری سے مبرا گردانتے ہیں۔اکثر ذمہ داران اپنی جان اس شور وغوغا سے چھڑانے کیلئے انہیں سیرپِ سکون پر لگا دیتے ہیں یا پھر نیند کی چوتھائی گولی دیکر خود کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں چنانچہ ان کے منفی کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
سکول یا ٹیوشن رومز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ ان کو اپنے مغموم مقاصد کی تکمیل کیلئے بے راہ روی پر مائل کیا جاتا ہے۔عموماً اس کا شکار اُن غریب ہونہاروں کو کیا جاتا ہے جن کے والدین اپنا دووقت کا پیٹ کاٹ کر بچوں کو انجینئریا ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔
قارئین !کبھی ہم نے یہ سوچا کہ جیلوں میں قید یہ معصوم جن کا کسی بھی جرم سے دور کا واسطہ نہیں وہ ناکردہ گناہوں کی سز ا بھگت رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ وہ بے گناہی کی سزا پا رہے ہیں بلکہ اُنہیں جرائم کی دُنیا کا بادشاہ بنایا جا رہا ہے۔معصوموں کے یہ کچے ذہن و جرائم کی گھٹا ٹوپ دُنیا انہیں گناہوں کی دلدل کے قریب کر دیتی ہے ۔آغاز عمری میں ہونے والے حادثات بچوں کے ذہنوں پر گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں جن کا عکس مہد تک قائم رہتا ہے ۔ بدقسمتی سے یہاں اچھے اور بُرے کی پہچان شدید مشکل کا باعث ہے ۔مٹھاس سے تر گفتگو شیرینی بچوں کو فوری طور پر اُس منفی شخصیت کاگرویدہ بنا دیتی ہے جو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ہوا میں اُڑنے والی دو روپے کی پتنگ کی طرح بچے بھی بلندی پرواز کے شوقین ہوتے ہیں مگر وہ اس بات سے نہ بلد ہیں کہ یہ آسمان کو چھوتی ہوئی پتنگ جب کٹ کر یکدم زمین پر آن گرتی ہے تو نہ تو اس کا کوئی معیار قائم رہتا ہے اور نہ ہی حجم۔یہ صرف راہ چلتے لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکر ثابت ہوتی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ماحول اور حالات تیزی سے بتدیلی کی طرف گامزن ہوتے چلے جارہے ہیں۔جدید کیبل سسٹم کے زیر اثر معاشرہ میں بسنے والے افراد جن کا آدھے سے زیادہ دن قہوہ خانوں میں بسر ہوتا ہے منفی ذہنیت کو عروج دینے میں بھرپور کردار ادا کرتاہے ۔ایک چائے کا پیالہ اور مست ذہن نے معاشرے کے سکون پرور ماحول کو تیزی سے سبوتاژکر ڈالا۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس بے روزگاری و جدید سکون آور ادویات نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔دُنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ادویاتی مراکز پر گاہکوں کو فحاش لٹریچر نظر نہیں آئے گا مگر صد افسوس یہاں آپ کو ہر جگہ اخلاق سوز میٹریل کی فراوانی ملے گی۔گذشتہ ادوار میں بزرگ بچوں کو عشاء کی نماز کے بعد سختی سے جلد سونے کی تلقین کرتے ۔دادای اماں کوّے اور پھلے والی کہانی سنا کر بچوں کو خوش کر دیتیں اور وعدہ لیتیں کہ فجر کی نماز میں پہل کرنے والے بچے کو پراٹھے کے ساتھ مکھن کی ٹکیاں دوں گی اور سکول جاتے ہوئے چار آنے بھی ملیں گے ۔بچے کہانی سننے کے بعدسب کو رات کا سلام کرتے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے ۔الصبح دادی جی کی آواز پر چاپائی چھوڑ دیتے سب کو صبح کا سلام کرتے اور فٹا فٹ وضو کے بعد فجر کی نماز ادا کرتے اور ناشتے میں دادی جی سے انعام وصول کرنے کا شدت سے انتظار کرتے ۔محسن انسانیت فخر موجدات سرورسینہ آنحضور پاک ﷺ نے بچوں کی نگہداشت و درست تربیت پر بہت زور دیا ہے۔آپﷺ بچوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے، بچوں کے کھانے پینے سے لیکر تعلیم ، کھیل کود اور ذہنی نشوونما کے کاموں میں بھرپور رہنمائی فرماتے۔یہ جملہ روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ماں اگر دیندار ہو تو دین نسلوں تک پہنچتا ہے۔ صد افسوس کہ آج ہمارا یہ بگڑتا ہوا مفلوج سسٹم جس نے بچوں کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ نہ تو بڑوں کا احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اپنا اچھا بُرا سمجھنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ہر گلی ، بازار میں ریڑھیوں پر فحاش سی ڈیز کی فروخت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ چھٹی کے وقت سکول ، کالج کے طلباء کا ان ریڑھیوں پر جم غفیر نہ صرف اردگرد کے مسافروں کیلئے شدید پریشانی کا باعث ہوتا ہے بلکہ والدین اور انتظامیہ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔تھیٹرز کے باہر عیاں فحاش تصاویر، جدید خطوط پر استوار سُر سُرا میموری کارڈ اخلاقی گرواٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔موبائل شاپس پر کسٹمرز کو مہیا کی جانے والی موویز و کلپس کو گیمز کے نام سے لوڈ کیا جاتا ہے۔
نوجوان نسل کو بچانے کیلئے وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ یہ نسلوں کو برباد کرنے والا میٹھا زہر بربادی کی تمام منازل عبور کرتا رہے گا اور اسی طرح پیارے دیس کے یہ پیارے پیارے گل پاکستان کے ہر شہر، گاؤں ، قصبے اور شہروں میں بسنے والے نوعمر اغلاظی درندگی کا شکار ہوتے رہیں گے غیر ممالک میں آج بھی زیادتی جیسے گھناؤنے فعل پر ملزم کو سرِعام گولی مار دینے کی سزا دی جاتی ہے ۔محکمہ ماحولیات ، سوشل ویلفیئر، پنجاب پولیس کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ شہر بھر میں تیزی سے پھیلنے والی اخلاقی بے راہ روی کا فوری نوٹس لیں اور ملزمان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لاتے ہوئے اُنہیں سخت سے سخت سز ا دی جائے ۔یہ پھول ہمارے گلشن کی زینت ہیں اس زینت کی حفاظت ہم سب کا اوّلین فرض ہے۔ اگر آج ہم نے ان گلوں کو بے رحم مافیا کے ناپاک عزائم سے نہ بچایا اور ان کی صحیح معنوں میں نگہداشت نہ کی تو شاید پھر مستقبل کے یہ سالار ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.