تربیت میں کمی ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ ؟

اکیسویں صدی جہاں اپنے ساتھ بہت ساری نئی ایجادات، سہولیات اور مفروضات لائی ہے ،وہاں کچھ ایسی خرافات بھی لے آئی ہے جس نے معاشرتی توازن میں بگاڑ پیدا کردیا ہے۔اپنی آسانیوں کے لیے حضرتِ انسان نے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات کیں۔جہاز بنا ڈالے،دو سوکلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرینیں وجود میں آگئیں۔الیکٹرسٹی کا جدید نظام متعارف کرایا گیا۔مصنوعی بارشوں کا انتظام بھی کر لیا۔ قدرتی آفات سے بچنے کے لیے حفاظتی اشیاء بھی بنا ئیں،موسموں کا مقابلہ کرنے کے لیے اے،سی اور گیزر،ہیٹر بنائے۔آپس میں روابط بڑھانے کے لیے ماس کمیونیکیشن اور ٹیلی کمیونیکیشن جیسی اشیاء متعارف کرائی گئیں۔انٹرنیٹ،ٹیلی فون، موبائل،ٹیلی وژن،کمپوٹر اور کیبل نے جہاں بہت سی سہولیات فراہم کیں وہاں بے سکونی کو بھی پروان چڑھایا ۔حضرتِ انسان نے سب کچھ کیا،ستاروں پر کمندیں ڈالیں۔چاند پر قدم رکھا،سیاروں کی کھوج میں پیش رفت کی،ہواؤں،فضاؤں اور سمندوں کا سینہ چیر ڈالا،اندھیروں میں اُجالے کر دیے،دوریاں ختم ہوگئیں،میلوں کا سفر مہینوں کی بجائے گھنٹوں میں ہونے لگا،بیماریوں کے لیے نئی نئی ادویات اور علاج کے طریقے دریا فت کر لیے۔غرضیکہ موت کے علاوہ حضرتِ انسان نے ہر چیز پرتجربات ومشاہدات کرڈالے اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔
ماڈرن انسان نے اپنی ضروریات زندگی کے لیے ہر وہ چیز بنا ڈالی جس سے وہ فائدہ حاصل کر سکتا تھا لیکن ماڈرن انسان اخلاقی برائیوں پر چاہ کر بھی قابو نہیں پاسکا۔یہ چیز انسان کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسی پریشانی نے موجودہ انسان کو ڈیپریشن اور انزائٹی جیسی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔موجودہ دور کاہر دوسرا فرد اس موذی مرض میں مبتلا ہے،ماڈرنزم نے انسان کو سہولیات تو فراہم کیں ہیں لیکن روحانی طور پر بہت کمزور بھی کر ڈالا ہے۔شجاعت،عفت،عدل، سخاوت، صدق،حلم،صبر ،حیا،ایفاء عہد،عیب پوشی اور غیرت کی جگہ بدگوئی،فحش ،بدعہدی،بخل، کم حوصلہ بے صبری،تکبروغرور، بے حیائی،بزدلی،عصبیت،سود،قمار اورنا شکری نے حضرت انسان کے اندر بسیرا کرکے اس کو اخلاقی طور پر اتنا کمزور بناد یا ہے کہ اسے اب اندھیرے میں اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ایجادات کے ساتھ ساتھ اگر اخلاقیات پر بھی زور دیا جاتا تو موجودہ انسان بہت ساری انجانی اور ان دیکھی برائیوں سے بچ جاتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا تربیت میں کمی ہے یا کوئی اوربات ہے ؟اگر انسان اپنی سہولت کے لیے خدا کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے ایجادات نہ کرتا ،ضروریات زندگی کے لیے سامان بہم اکٹھا نہ کرتا تو پھر وہ زندگی کیسے گزارتا؟
معاشرے میں اپنا نام کیسے بناتا؟ تو اس سب کاآسان جواب ہے کہ آج سے چودہ سو سال پیچھے چلے جاؤ۔جہاں انٹر نیٹ نہیں تھا،ہوائی جہاز ،گاڑیاں اور بحری جہاز نہیں تھے۔موجودہ دور کی خرافات نہیں تھیں لیکن اس سب کے باوجود وہ لوگ پُر سکون اور مطمئن زندگی بسر کررہے تھے۔یہ سب کا سب آقا دوجہاں جناب محمد الرسول اللہ ﷺکی تربیت کا اثر تھا۔وہ تھوڑا کھاتے لیکن شکر ادا کرتے،سہولتیں کم تھیں لیکن سکون تھا۔ دولت کی ہوس نہیں تھی،عبادت میں مزہ تھا ۔دنیا سے زیادہ آخرت کی فکرتھی اس لیے دنیا سے بے رغبتی تھی۔مرد وعورت دونوں ہی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہے تھے۔بچے کی پیدائش پر اس کا اسلامی نام رکھا جاتا اور دودھ پلاتے وقت مائیں باوضو ہوتیں اورقرآن پاک کی تلاوت کرتیں۔ناچ گانے اور میوزک کی بجائے بچوں کو سورتیں اور دعائیں یادکرائی جاتیں۔ان پر حکم چلانے کی بجائے ان کے سامنے عمل کیا جاتا جس کو دیکھ کر وہ خود ہی اچھے کاموں میں لگ جاتے۔سب ہی پر سکون تھے اور ڈیپریشن جیسی لعنت نہیں تھی۔ اولاد جوان ہو جاتی تو ماں باپ کا سہارا بنتی اور والدین بھی اولاد کی خوشی میں خوش ہوتے لیکن آج سب کچھ اس کے الٹ ہو رہا ہے،غلے سے گودام توبھرے پڑے ہیں لیکن پھر بھی سب ہی بھوکے ہیں ۔پانی کے دریاؤں اور چشموں کی فراوانی ہے لیکن پھر بھی پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔مسجدوں،مدرسوں،مندروں اور گرجاگھروں کی بھر مار ہے لیکن پھر بھی لوگ بے نمازی ہیں،دین سے دور ہیں،والدین اولاد سے خوش نہیں اور اولاد کو والدین سے گلے ہیں۔مائیں منہ دھوئے بغیر ہی بچوں کو کھانا پکا دیتی ہیں اور سکول بھیج دیتی ہیں۔قرآن وسنت کی تعلیم تو صرف رسماً ہی رہ گئی ہے،جو پڑھ رہے ہیں وہ بھی حق ادا نہیں کر رہے کیونکہ معاشرہ تو ماڈرنزم کا قائل ہے وہ ان لوگوں کو قبول ہی نہیں کر رہا۔’’جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے‘‘کے مصداق لوگ جدیدیت کی پیروی کر رہے ہیں اور گلیمرکی دنیانے بچوں،بڑوں اور بوڑھوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ہر گھر میں بے سکونی ہے۔والدین اور اولاد ایک دوسرے سے بیزار ہیں ، سب ماڈرنزم کی آگ میں جل رہے ہیں۔لیکن یہ آگ بھی تو حضرت انسان نے خود ہی لگائی ہے ۔ جب بچوں کی تربیت مکمل نہیں ہوگی تو پھر معاشرہ بھی مکمل نہیں ہوگا۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری تربیت کا ہی نتیجہ ہے ۔ جب بیج لگایا جائے اوروہ ننھا سا پودا بن جائے تو کانٹ چھانٹ میں آسانی ہوتی ہے ۔ تناور درخت کی صفائی ستھرائی مشکل ہوجاتی ہے۔ ضروریات نہ ملنے سے جسم مردہ ہو جاتا ہے جبکہ اخلاقیات کا فقدان روح کو مار دیتا ہے ۔
فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ یہ تربیت میں کمی ہے یا ہمارے اعمال ایسے ہیں۔۔۔؟

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.