تھپڑ

اسلم نے زاہد کے چہرے پر تھپڑ ماراتو چٹاخ کی آواز کے ساتھ ہی کلاس روم میں موجود لڑکے، جو آپس میں باتیں کرنے میں مگن تھے بے اختیار چونک پڑ۔ اور ان دونوں کو دیکھنے لگے۔ کلاس روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی۔ سب نے دیکھا کہ اسلم کے چہرے پر اطمینان جبکہ زاہد غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ اسے شاید توقع نہ تھی کہ اسے اسلم یوں تھپڑ رسید کرے گا۔ اسی لمحے ان کا کلاس فیلو بلال ان کے پاس آیا۔
’’کیا بات ہے اسلم، تم نے زاہد کو تھپڑ کیوں مارا ہے……؟‘‘ اس نے اسلم سے پوچھا۔
’’زاہد سے پوچھو۔ یہی بہتر طور پر بتا سکتا ہے……‘‘ اسلم نے اطمینان بھرے لہجے میں جواب دیا۔
’’بکواس مت کرو اسلم……‘‘ زاہد غصیلے لہجے میں بولا۔ ’’تم نے مجھے تھپڑ مار کر اچھا نہیں کیا۔ بہتر یہی ہے کہ تم مجھ سے آئندہ بات مت کرنا، آج سے تمہاری اور میری دوستی ختم……‘‘
’’جیسے تمہاری مرضی……‘‘ اسلم نے کہا۔ ’’مگر گھر جا کر یہ ضرور سوچنا کہ میں نے تمہیں تھپڑ کیوں مارا ہے……‘‘ زاہد نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور کلام روم سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ اسلم وہیں بیٹھا رہا۔ سب لڑکے اسلم کے چہرے پر اطمینان بھرے تاثرات دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ بالآخر دوسرے لڑکے کاشف نے اسلم سے پوچھا۔
’’یار اسلم…… آخر کیا بات ہے کہ تمہارے چہرے پر اطمینان ہے……‘‘
’’اس کی بھی و جہ ہے……‘‘ اسلم نے کہا۔ ’’میں نے جو کچھ بھی کیا ہے صحیح کیا ہے……‘‘
’’اب تو زاہد تم سے دوستی نہیں رکھے گا……‘‘
’’وہ دوستی دوبارہ کرے گا اور اپنی غلطی پر معافی بھی مانگے گا……‘‘ اسلم نے کہا۔ ’’صرف چند دن تک ……‘‘ پھر اسلم نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور کلاس روم سے باہر نکل گیا۔ کاشف اور دیگر لڑکوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا کچھ دیر پہلے اسلم اور زاہد کلام روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اس دوران ہی اسلم نے زاہد کو تھپڑ مار دیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی زاہد نے کسی سے کوئی بات نہ کی اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔ اس کے چہرے پر ابھی تک غصے کے تاثرات چھائے ہۃہوئے تھے۔ اس نے بیگ میز پر رکھا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ سب گھر والے حیران تھے کہ زاہد آج غصے میں تھا۔ نہ اس نے سلام کیا تھا اور نہ کوئی دوسری بات۔ وہ جانتے تھے کہ جب بھی زاہد غصے میں ااسکول سے واپس آتا تھا تو اس کا یہی رویہ ہوتا تھا۔ یقینا وہ آج بھی کسی سے جھگڑا کر کے آیا تھا۔ زاہد کا دماغ مسلسل انہی سوچوں میں گردش کر رہا تھا کہ اسلم نے اسے کس بات پر تھپڑ مارا تھا۔ حالانکہ وہ دونوں بہت اچھے دوست تھے اور ان کی دوستی کو سات سال ہو گئے تھے۔ آج تک اسلم نے اسے تھپڑ نہیں مارا تھا مگر آج خلاف توقع اس نے ایسا کیا تھا۔ اب اس کے دل میں ڈ اسلم کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی تھی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اسلم سے اپنی بے عزتی کا کیسے بدلہ لے۔
اگلے دن وہ ااسکول گیا تو اس نے اسلم کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنی سیٹ تبدیل کرلی۔ اب وہ کاشف اور بلال کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ اسلم نے اسے ایک نظر دیکھا۔ پھر اس نے کندھے اچکائے اور دوسری طرف متو جہ ہو گیا۔ زاہد کے دل میں ایک بار پھر نفرت کا لاوا ابھر آیا تھا۔ وہ نفرت آمیز نظروں سے اسلم کو دیکھ رہا تھا۔’’ زاہد……کچھ پتا چلا کہ اسلم نے کل تمہیں تھپڑ کیوں مارا تھا……‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’نہیں یار……‘‘ زاہد نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’میں نے بہت سوچا ہے مگر کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا……‘‘
’’ہم نے بھی اسلم سے و جہ پوچھنے کی بہت کوشش کی ہے……‘‘
’’پھر…… کچھ بتایا اس نے……‘‘
’’نہیں…… بلکہ وہ کہتا ہے کہ چند دن میں زاہد نہ صرف اس سے دوبارہ دوستی کرے گا بلکہ معافی بھی مانگے گا……‘‘
’’اچھا…… یہ کہا ہے اس نے……‘‘ زاہد کو پھر غصہ آ گیا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا تین دن ہو گئے تھے۔ اس دوران زاہد مسلسل یہی سوچتا رہا تھا کہ اسلم نے اسے تھپڑ کس بات پر مارا تھا مگر کوئی بھی و جہ نہ مل رہی تھی اس کا دماغ الجھا ہوا تھا۔ اس کی اس کیفیت کو گھر والے بھی محسوس کر رہے تھے کہ یقینا زاہد کسی الجھن کا شکار ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی نوٹ کی تھی کہ پہلے وہ روز اسلم کے ساتھ ااسکول جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اسلم روز شام کو اس سے ملنے بھی آتا تھا مگر ان دنوں نہ تو وہ اسلم کے ساتھ ااسکول جاتا تھا اور ہی اسلم شام کو آتا تھا۔ دو دن مزید گزر گئے ساتویں دن اتوار تھا اور اس کے ابو کو آفس سے چھٹی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ زاہد سے معلوم کریں کہ آج کل وہ اسلم کے ساتھ ااسکول کیوں نہیں جا رہا۔ آج بھی زاہد خلاف معمول گھر پر تھا حالانکہ ہر اتوار کو وہ صبح اسلم ، کاشف اور بلال کے ساتھ اسپورٹس گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے جاتا تھا۔ وہ کرکٹ کا تو شیدائی تھا۔ دن کے بارہ بج رہے تھے۔ ابو اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔ زاہد کرسی پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔ ابو نے اسے آواز دی۔ ’’زاہد بیٹا……‘‘
’’آں……ہاں…… جی ابو……‘‘ ابو کی آواز سنتے ہی وہ سوچوں کے محور سے باہر نکل آیا۔
ابو اس کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ ’’کیاب ات ہے۔ آج کل تم کن سوچوں میں گم ہو……؟مجھے بھی نہیں بتاؤ گے……؟‘‘ ابو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہو سکتا ہے میں تمہاری کوئی مشکل حل کر دوں……‘‘
زاہد چند ثانیے سوچتا رہا پھر دھیرے دھیرے بولا۔ ’’ابو…… کچھ دن پہلے اسلم نے مجھے تھپڑ مارا تھا‘‘۔
’’تھپڑ……‘‘ ابو چونکے۔ ’’کس بات پر……‘‘
’’یہی تو سمجھ نہیں آ رہا……‘‘ زاہد نے کہا۔ ’’اسلم نے بعد میں کہا تھا کہ سوچنا میں نے تمہیں تھپڑ کس بات پر مارا ہے۔ میں اسی دن سے سوچ رہا ہوں کہ میں نے ایسی کبا تا کہی تھی کہ جس کی و جہ سے اس نے مجھے تھپڑمارا تھا……‘‘
’’تو یہ بات ہے……‘‘ ابو نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر پرسوچ لہجے میں بولا۔ ’’کیا تم نے اسلم کی کسی بات سے اختلاف تو نہیں کیا تھا……‘‘ زاہد نے نفی میں سر ہلایا۔
’’اس کی کوئی چیز تو بغیر اجازت نہیں اٹھا لی تھی……؟‘‘ زاہد نے نفی میں سر ہلایا۔ اب تو ابو بھی سوچ میں پڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے۔ گتھی الجھتی جا رہی تھی۔ ’’کہیں تم نے گالی تو نہیں دی تھی……؟‘‘
یہ سن کر زاہد ٹھٹکا۔ اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔ اسے وہ منظر یاد آنے لگا جب وہ اسلم کے ساتھ کسی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا اور گفتگو کے دوران ہی اس نے اسلم کو گالی دے دی تھی۔ جس کی وجہ سے اسلم نے اسے تھپڑ جڑ دیا تھا۔ اب زاہد بات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔ ابو اس کی یہ ساری کیفیت بغور دیکھ رہے تھے۔ وہ ابو کے سانے شرمندہ ہو رہا تھا۔ ’’کیا تمنے اسلم کو گالی دی تھی……؟‘‘
’’جی ابو……‘‘ زاہد کے منہ سے بامشکل آواز نکلی۔
’’پھر تو اس نے تمہیں بالکل صحیح تھپڑ مارا تھا……‘‘ ابو نے کہا۔ ’’ایک تھپڑ کے بجائے دو تین مارتا تو اور زیادہ اچھا تھا۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ تم ایسے بچے ہو جو گالیاں دیتا ہے…… گالیاں دینے والا بچہ کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ یاتو اس کی پرورش میں کمی رہ جاتی ہے با وہ بری سوسائٹی کا شکار ہوتا ہے…… مگر تم تو ایسے نہیں ہو…… پھر تم نے اسے گالی کیوں دی۔ جانتے ہو ، روز قیامت گالی دینے والے کی زبان پر دہکتے انگارے رکھے جائیں گے……‘‘ یہ سن کر زاہد ششدر رہ گیا۔ اس کے جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی۔ شرمندگی کے مارے اس کا سر اوپر نہیں اٹھ رہا تھا۔ واقعی وہ دوسروں کو بات بے بات گالیاں دینے لگ گیا تھا جس پر اسلم اسے ہر بار منع کرتاتھا مگر وہ اسلم کی بات سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ ’’ابو…… مجھے معاف کر دیں……‘‘
’’زاہد…… معافی تم اسلم سے ہی مانگو…… کیونکہ تم نے اسے گالی دی ہے……‘‘
’’جی ابو……‘‘
’’اور سنو……‘‘ ابو نے مزید اسے سمجھایا۔ ’’گالی دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے…… اس سے انسان کا اپنا کردار خراب ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے گناہوں میں بھی اصافہ ہوتا ہے بلکہ اگر تم کسی کو گالی دو گے تو تمہارا ثواب اسے اور اس کے گناہ تمہارے اعمال میں لکھ دئیے جائیں گے……‘‘
زاہد اپنے ابو کی بات سمجھ چکا تھا۔ معاملہ حل ہو چکا تھا مگر اب مسئلہ اسلم سے معافی مانگنے کا تھا۔ زاہد واقعی بہت شرمندہ ہو رہا تھا۔ اگلے دن وہ ااسکول گیا تو اسلم اپنی سیٹ پر بیٹھا کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ بلال اور کاشف بھی آ چکے تھے۔ وہ سیدھا اسلم کے پاس گیا۔ ’’اسلم……‘‘ اس نے اسلم کو پکارا۔
اسلم نے چونک کر اسے دیکھا۔ ’’لگتا ہے تمہیں و جہ معلوم ہو گئی……؟‘‘
’’ہاں……‘‘ زاہد نے روہانسی آواز میں کہا۔ ’’یار…… تم مجھے اس وقت بتا دیتے تو میں سمجھ جاتا……‘‘ کاشف، بلال اور دیگر لڑکے بھی ان کے گرد جمع ہوگئے تھے۔
’’اگر میں تمہیں اس وقت بتا دیتا تو تم سنی ان سنی کر دیتے……‘‘اسلم نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے معلوم تھام کہ تم میرے پاس ضرور آؤ گے……‘‘
’’یار…… مجھے معاف کر دو…… میں نے تمہیں…… ‘‘ اس کی آواز لڑکھڑا گئی تھی۔
’’میں نے سچے دل سے تمہیں معاف کر دیا ہے……‘‘ اسلم نذے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ پھر جب وہ علیحدہ ہوئے تو زاہد نے اپنے آنسو پہنچے۔
’’یار……ہمیں ابھی تک و جہ معلوم نہیں ہوئی……‘‘ بلال نے کہا۔ ’’اسلم…… اب تو بتا دو……‘‘
’’میں بتاتا ہوں……‘‘ زاہد نے کہا پھراس نے ساری بات بتا دی۔ اسلم بہت خوش تھا کہ اس کے ایک ہی تھپڑ سے اس کا دوست راہ راست پر آ گیا تھا۔ زاہد نے عہد کر لیا تھا کہ وہ آئندہ کبھی بھی کسی کو بھی گالی نہیں دے گا تاکہ اس کا کردار خراب نہ ہو اور کوئی اسے برا بچہ نہ کہے……

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.