شاہین نامہ

ہر لکھاری کے روحانی استاد ہوتے ہیں جن سے ان کا غائبانہ تعارف ہوتا ہے اور کئی لکھاری تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے روحانی سے زندگی میں کبھی ملنے کی کوشش کے باوجود نہیں مل سکتے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنے روحانی استاد کے بارے میں ضرور بات کرتے ہیں۔
میرے دو روحانی استاد ہیں۔ پہلے جناب مظہر کلیم ایم اے اور دوسرے جناب ایم اے راحت۔ ہر رائٹر سے انٹرویو کے دوران یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ آپ کا پسندیدہ رائٹر کون ہے جس سے متاثر ہو کر آپ نے لکھنے کا آغاز کیا تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ انہیں فلاں رائٹر پسند ہے جسے پڑھ کر انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا۔ میں بھی یہی کہوں گا کہ میں نے بھی کسی سے متاثر ہو کر لکھنے کا آغاز کیا تھا۔جب میں نے ادبی دنیا میں قدم رکھا تو سب سے پہلے میں نے مظہر کلیم ایم اے کی لکھی ہوئی ٹارزن کی کہانی پڑھی تھی۔ بس اسی دن سے میرے اندر بھی لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ کے مصداق میں نے ایک ہفتے میں چار کہانیاں جن میں ایک ٹارزن اور تین عمرو عیار کی تھیں لکھ ڈالیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب میں بڑوں کے ادب کی طرف آیا تو ان میں ایم اے راحت صاحب سرِ فہرست تھے۔ ایم اے راحت کے لکھنے کا انداز، کہانی کا انداز مجھے اس قدر اچھا لگا کہ میں نے ان کے ناول پڑھنے شروع کر دئیے۔ ’’صدیوں کا بیٹا‘‘ ان کا لکھا ناول مجھے بے حد پسند آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے ان کے دیگر کئی ناول بھی پڑھ ڈالے۔ جناب ایم اے راحت صاحب سے ملاقات کی مجھے بے حدخواہش تھی لیکن افسوس کہ یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ حالانکہ گرمیوں کے بعد میں نے لاہور جانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا اور سوچا تھا کہ جناب ایم اے راحت سے بھی مل لوں گا۔ جناب مظہر کلیم ایم اے سے تو میں دو تین بار شرفِ ملاقات حاصل کر چکا ہوں لیکن جناب ایم اے راحت صاحب سے ملاقات کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔
ایم اے راحت صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کا آبائی وطن علی گڑھ ہے۔ان کے مرحوم والد علی گڑھ یونیورسٹی کی مقتدر شخصیات میں سے
تھے۔ پروفیسر راغب سیمابی کے نامے سے انہیں جانا جاتا تھا۔ وہ پاکستان یہ سوچ کر آئے کہ کراچی میں ان کے شاگرد جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ بد دل ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ بڑی بے کسی کے عالم میں زندگی کا آغاز ہوا، ہر وہ کام کیا جس سے گھر کا خرچ چل سکے۔ انہوں نے گھر کا خرچ چلانے کے لئے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ایم اے راحت صاحب نے بتایا کہ ایک روز مرحوم ابن صفی کا ایک ناول ہاتھ لگا تو ناول پڑھنے کے بعد میں بھی ان کا دیوانہ ہو گیا۔ ایم اے راحت صاحب کی پہلی تحریر ایک جاسوسی ناول تھا۔ پھران کا قلم چلا اور چلتا گیا۔انہوں نے سیاست اور مذہب کے علاوہ سب موضوعات پر لکھا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کہانی میں دلکشی اور کہانی پن ہونا چاہئے ۔ جس موضوع پر لکھا جا رہا ہو اس کے ساتھ انصاف ہو۔
جناب ابم اے راحت صاحب کے بارے میں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ان کا اصل نام مرغوب علی راحت تھا اور وہ ہاتھ سے نہیں لکھتے تھے بلکہ اگر انہیں جو کچھ بھی لکھنا ہوتا تھا وہ ریکارڈ کرتے تھے۔ ان کے سامنے ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا اور وہ اپنے مضامین، ناول یا افسانے ریکارڈ کر دیتے تھے اور ان کے ساتھی سن کر کاغذ پر منتقل کر دیا کرتے تھے۔ ایم اے راحت صاحب نے کہا تھا کہ قلم کار کی سب سے بڑی ذمے داری ہے کہ لکھا کچھ بھی جائے نیکی اور برائی پر تحریری گرفت سخت ہونی چاہئے، برائی کو چاہے کتنا ہی پھلتے پھولتے دکھایا جائے اس کا انجام بھیانک ہی ہونا چاہئے اور سچائی کے راستوں کی تلقین ایک قلمکار کا سب سے بڑا فرض ہے۔
ایم اے راحت کے ناولوں کا اسلوب آسان اور عام فہم نہیں لیکن انہوں نے اپنی تحریروں کو بوجھل پن سے دور رکھا۔وہ جاسوسی ادب میں مرحوم ابن صفی اور تاریخی ادب میں نسیم حجازی سے متاثر تھے لیکن ان کا لکھنے کا اپنا ایک جداگانہ انداز تھا جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ایم اے راحت صاحب ڈائجسٹ ادب کے بے تاج بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں انہیں عالمی شہرت یافتہ ہونے کا اعزاز بھی تھا۔ایم اے راحت کے مداحوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔
ایم اے راحت صاحب گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے چند روز ہسپتال میں زیر علاج رہے اور 24اپریل 2017ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔یوں اردو ادب ایک بہت بڑے ناول نگار سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کا خلاء کوئی بھی پر نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ جناب ایم اے راحت نے 15سو سے زائد ناول تخلبق کئے ۔ جاسوسی ادب میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔انہوں نے عمران سیریز بھی لکھے تھے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ایم اے راحت صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.