عمل

میں اس وقت بچوں کو پڑھا رہا تھا جو دروازے پر دستک ہوئی میں نے خالد سے کہا۔
’’خالد ……ذرا باہر دیکھنا……‘‘
’’جی سر……‘‘ خالد جو میرا اسٹوڈنٹ ہے میں نے کہا اور باہر چلا گیا چند لمحوں بعد وہ واپس آ گیا میں نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’کون ہے……؟‘‘
’’سر آپ کا دوست فاروق صاحب آئے ہیں……‘‘ خالد نے بتایا۔
’’اچھا……‘‘ کہتے ہوئے میں باہر آ گیا۔ فاروق ایک طرف اضطراب کے عالم میں کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے۔ مجھے دیکھتے ہی سلام کیا۔ میں نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
’’سناؤ فاروق…… کیسے آنا ہوا……؟‘‘
’’ناصر…… یار…… مجھے تم سے بہت ضروری کام ہے……‘‘
’’ہاں …… بتاؤ…… ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ناصر…… مجھے ایک سو روپے کی سخت ضرورت ہے‘‘۔
فاروق کہنے لگا۔ ’’ میں تمہارے پاس اس لئے آیا تھا کہ مہربانی کر کے مجھے ایک سوروپے ادھار دے دو۔ میں تمہیں پرسوں تک لوٹا دوں گا‘‘۔
’’میرے پاس اس وقت تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے‘‘۔ میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ ’’میں اس وقت تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا‘‘۔
فاروق کے چہرے پر پہلے سے بھی زیادہ پریشانی کے تاثرات چھا گئے۔ شاید وہ میرے پاس پوری امید کے ساتھ آیا تھا اور میرے جواب نے اسے ناامید کر دیا تھا۔ حالانکہ اس وقت میری جیب میں پانچ سو روپے موجود تھے مگر میں نے فاروق سے جھوٹ بول دیا تھا۔ فاروق نے مجھے ڈسٹرب کرنے کی معافی مانگی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ میں اندر کمرے میں آ کر بچوں کو پڑھانے لگا۔ میری نظروں کے سامنے فاروق کا پریشان زرد چہرہ بار بار گھوم رہا تھا۔ پتا نہیں اسے کیا ضرورت تھی۔
میں خود سیکنڈائر کا سٹوڈنٹ ہوں۔ کالج سے واپسی کے بعد میں تین سے پانچ بجے شام تک بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ میرے ابو فوت ہو چکے تھے۔ میں اپنی والدہ اور ایک بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ میری بہن مجھ سے تین سال چھوٹی تھی اور آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ ابو ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ پچھلے سال وہ ایک ٹریفک حادثے میں چل بسے تھے۔ ان کی جو پنشن ہمیں ملتی تھی وہ گھر، کالج اور دیگر اخراجات کے لئے بہت کم تھی۔ جس کی و جہ سے میں نے ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ میرے پاس میٹرک تک تقریباً بارہ کے قریب طالب علم پڑھنے آتے تھے۔ جھوٹ بولنا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اس سے انسان کا اپنا وقار خرارب ہوتا ہے۔ فاروق میرا کالج کا دوست تھا۔ اسے پیسے نہ دینے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس سے بھی پیسے لیتا تھا اسے بہت مشکل سے واپس کرتا تھا۔ میں نے اسی و جہ سے اسے پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ اس سے جھوٹ بولا تھا۔
اگلے دن میں جب کالج پہنچا تو مجھے فاروق کہیں بھی نظر نہ آیا۔ میں نے اقبال سے فاروق کے بارے میں میں پوچھا تو اقبال نے بتایا کہ وہ آج کالج نہیں آیا۔
’’اس نے کوئی و جہ نہیں بتائی‘‘۔ میں نے اقبال سے پوچھا۔
’’بتائی تھی……‘‘اقبال نے کہا۔ ’’اس کے والد صاحب بہت بیمارہیں اور وہ ہسپتال میں داخل ہیں‘‘۔ یہ سن کر مجھے پریشانی ہو گئی۔
’’کیا ہوا ہے اس کے والد کو‘‘۔
’’پتا نہیں……‘‘ سنا تھا کہ وہ کافی دنوں سے علیل ہیں……‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا۔ کل یقینا فاروق وقعی کسی ضرورت کے تحت سو روپے مانگتے آیا تھا۔ اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے والد کی دوائی کے لئے پیسے لینے آیا ہو۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میں فاروق کا گھر بھی نہ جانتا تھا اور یہ بھی نہ جانتا تھا کہ اس کے ابو کس ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے اقبال سے پوچھا تو اس نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
فاروق دو دن کے بعد کالج آیاتو میں نے اس سے پوچھا۔
’’اب تمہارے ابو کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ فاروق نے چونک کر مجھے دیکھا اور بولا۔ ’’اب وہ پہلے سے بہتر ہیں‘‘۔
’’مجھے اقبال نے بتایا تھا کہ وہ ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں تمہارا گھر نہیں جانتا تھا اس لئے نہ آ سکا‘‘۔
’’کوئی بات نہیں‘‘۔ فاروق نے کہا۔
’’سوری یار۔ کل میں تمہاری مدد نہ کر سکا تھا۔
’’اﷲ بڑا مسبب الاسباب ہے‘‘۔ فاروق نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں اس وقت بھول گا تھا کہ مجھے اس وقت کسی انسان کی بجائے اﷲ سے مدد مانگنی چاہیے تھی۔ وہی سب کا مدد گار ہے۔ میں نے اﷲ سے مدد مانگی اور اس نے غیب سے میری مدد کر دی‘‘۔
مجھے سخت ندامت ہو رہی تھی۔ فاروق واقعی صحیح کہہ رہا تھا جو انسان اﷲ سے مدد مانگتا ہے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے سے بہت پیار ہے۔ اس کے علاوہ اﷲ نے مجھے نیکی کرنے کا موقع دیا تھا جو میں نے فاروق کی مدد نہ کر کے گنوا دیا تھا۔ یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہی تو ہمارے اعمال میں اضافہ کرتی ہیں۔
سہ پہر کو جب میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگا تو اس دن میرے لیکچر کا موضوع جھوٹ تھا۔ بچوں کو تعلیمی نصاب پڑھانے کے بعد میں انہیں دس منٹ کا لیکچر ضرور دیتا تھا۔ ہر روز میرے لیکچر کا موضوع مختلف ہوتا تھا۔ میں نے بچوں کو لیکچر دیتے ہوئے کہا۔
’’پیارے بچو۔ جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے۔ جس سے انسان کا کردار خراب ہوتا ہے اور ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ۔ ’’بے چینی اور سچ میں اطمینان ہے‘‘۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے جھوٹ بولتے ہیں وہ جھوٹ بول کر بہت بے چین رہتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ان کا جھوٹ پکڑا گیا تو ان کی جتنی بے عزتی ہو گی۔ شرمندگی کا سامنا ہو گا۔ جب کہ سچ بولنے والا ہمیشہ مطمئن رہتا ہے۔ اس کے چہرے پر رشنی رہتی ہے، نور رہتا ہے‘‘۔ یہ لیکچر دیتے ہوئے مجھے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ میرے دل کی عجیب سی حالت ہو رہی تھی۔ حالانکہ میں بھی جھوٹ بولتا تھا۔ یہ قول مجھ پر بالکل صادق آ رہا تھا کہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لو کہ تم خود کتنا عمل کرتے ہو‘‘۔
میں نے اپنا لیکچر سمیٹا اور بچوں کو چھٹی دے دی۔ میں اپنے دل پر ایک بوجھ سا محسوس کر رہا تھا۔ میں اپنا احتساب کر رہا تھا کہ کیا میں خود عمل کرتا ہوں جو بچوں کو لیکچر دے رہا ہوں۔ میرا دل و دماغ نفی میں جواب دے رہا تھا۔ اس دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا یہی طریقہ تھا کہ میں آئندہ کے لئے توبہ تائب ہو جاؤں۔ آئندہ بچوں کو بہ نصیحت کروں جس پر میں خود بھی عمل کروں۔ نہ کر دوسروں کو نصیحت دیتا رہوں اور خود گہرے گڑھے میں گرتا چلا جاؤں اور روز قیامت اس کی بہت سخت سزا تھی۔ اس وقت قریبی مسجد سے مغرب کی آذان ہونے لگی۔ میں اٹھا اور مسجد کی طرف بڑھ گیا۔ تاکہ اﷲ سے اپنے جھوٹ بولنے سے توبہ کر سکوں اور آئندہ کے لئے عہد کر لوں۔ جب میں مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ میرے دل پر جو بوجھ تھا وہ اب ختم ہو گیا تھا۔ اور میں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ آئندہ وہ نصیحت کروں گا جس میں پہلے سے بذاتِ خود عمل کرتا رہوں گا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.