لکھیئے، لکھیئے اور لکھیئے

لکھنا ایک بہت ہی مشکل عمل ہے لیکن یہ عمل اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب انسان کی سوچ، جذبات اور اسک مشاہدات کو الفاظ مل جائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر انسان اپنی سوچ یا جذبات کوقلم کے ذریعے ورق پر اتار سکتا ہے؟ کیا وہ واقعی کوئی لڑی پرو سکتا ہے ؟ تو میرا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ بات اپنی حد تک درست ہے کہ لکھنا ایک ہنر ہے جو خدا کی طرف سے تحفہ ہوتا ہے اور اچھا لکھنے کیلئے انسان میں یہ قدرتی صلاحیت ہونا لازمی ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس ہنر سے محروم کوئی شخص اگر لکھنا چاہیے یا لکھنے کا شوقین ہو تو کیا وہ نہ لکھے؟ ضرور لکھے ۔ انسان کے پاس اپنی بات کہنے کیلئے الفاظ کا قیمتی ذخیرہ ہونا چاہیے طریقہ آ ہی جاتا ہے ۔ دوسروں کو کیسا لگے گے ، اچھا لگے گا یا برا لگے گا اس سوچ کو کچل کر لکھئے۔ ہر کسی کا آپ کی سوچ کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ صرف اسے خود پر اعتماد ہونا چاہیے ۔ جو کچھ بھی وہ لکھے دل سے لکھے ۔ کیونکہ دل سے نکلی ہوئی بات اثر رکھتی ہے ۔ معاشرے میں بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے وہ بھی صرف قلم کی طاقت سے۔ تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پڑھنے والا آپکی تحریر سے کوئی مثبت اثر لے ۔ ورنہ محض لکھنا ہی لکھاری نہیں بناتا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں کب کا لکھاری بن چکا ہوتا بلکہ ہم سب لکھاری
ہوتے۔ بچپن سے لکھتے آ رہے ہیں۔ سکول میں ، امتحانات میں ، نجانے کتنے اوراق کالے کئے ۔لیکن پھر بھی لکھاری نہیں بن پائے ۔ یا تو انجیئر بنے ڈاکٹر یا کچھ اور ۔ اتنے سال لکھنے کے بعد لکھاری کیونکر نہیں بنے ۔کیونکہ جو کچھ ہم لکھتے تھے وہ ہماری سوچ نہیں ہوتی تھی ۔ ہمارے دل کی آواز نہیں تھی ۔ ہمارا مشاہدہ نہیں تھا۔ ہمارے جذبات نہیں تھے ۔ جو کتابوں میں پڑھا چھاپ دیا۔ جو اساتذہ نے سمجھایا لکھ ڈالا اور اگر اپنی طرف سے کوئی ایک لفظ یا سطر بھی اضافی لکھ دی جاتی تو ڈانٹ پڑتی تھی ۔ لہذا محض لکھنا ہی لکھاری نہیں بنایا اپنی سوچ کو لکھنا ، اپنی مرضی سے لکھنا لکھاریی بناتا ہے ۔ قلم اٹھاؤ کیونکہ یہ تلوار سے زیادہ طاقتور ہے ۔ خدانخواستہ میں یہ اس لئے نہیں کہہ رہا ہے کہ اپنی یا کسی دوسرے کی سوچ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو۔ بلکہ اس لئے قلم اٹھاؤ کہ آپ کے قلم سے نکلنے والا ایک چھوٹا سا لفظ بھی کہیں میلوں دور بیٹھے کسی شخص کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ جوکوئی قلم کا وزن اٹھانا سیکھ جاتا ہے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے ۔ قلم سے اچھا کوئی دوست ، کوئی غم گسار نہیں ہو سکتا۔ جو آپکی خوشی اور درد دونوں بانٹ سکتا ہے ۔ آج کے نفسا نفسی کے دور میں اس عظیم ساتھی کی قدر کیجئے۔ اگر انسان میں لکھنے کی کوئی تھوڑی بہت صلاحیت ہے تو اسے استعمال میں لانا چاہیے۔ مزاح لکھ کر لوگوں کو ہنسایا جا سکتا ہے ۔ سنجیدہ شاعری سے محبت کرنے والے دلوں کو چھوا جا سکتا ہے ۔ معاشرتی برائیوں پر لکھ کر معاشرے کے بگاڑ کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ محبت پر لکھا جا سکتا ہے۔ ایک لکھاری ، وزرا اور ناظمین سے زیادہ سماجی کام کرتا ہے کیونکہ وہ ذہنوں کی نشوونما کر رہا ہوتا ہے۔
تو لکھئے لکھئے اور پھر لکھئے ۔ حقیقت پسندانہ انداز میں لکھئے ۔ پڑھنے والوں کی تعداد بے شک کم ہے لیکن انکے پڑھنے کا معیار پہلے سے کہیں بلند ہے۔ لہذا اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی سوچ کو لوگوں تک پہنچائیں یقینا لوگ اس کی قدر کریں گے

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.