ماہنامہ پھول ، اکادمی ادیبات اطفال اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے زیر اہتمام دوسری قومی کانفرنس

لاہور(آصف رضا بلوچ +ستارہ امین کومل +ببرک کارمل جمالی ) اگر خلوص کے ساتھ جدوجہد کی جائے، مشکلات کی پرواہ نہ کی جائے تو انسان ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ مجھے نئی نسل کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرنے والے ادیبوں کے درمیان آ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ نئی نسل کو احساس کمتری سے نکال کر خود اعتمادی سے ہمکنار کرنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار سابق چیف آف نیول سٹاف و چیئرمین معاون فاؤنڈیشن ایڈمرل(ر) محمد آصف سندھیلہ نے ماہنامہ ’’پھول‘‘، اکادمی ادبیات اطفال اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے اشتراک سے پی سی ہوٹل میں ہونے والی دوسری قومی کانفرنس ادب اطفال سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس کا موضوع تھا۔’’امن اور ترقی۔ بذریعہ ادبِ اطفال‘‘ انہوں نے کہا کہ میں نے شیخوپورہ کے گاؤں کے ایک ٹاٹ سکول سے تعلیم حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاک بحریہ کے سربراہ کے عہدے تک پہنچا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اسی سکول سے سماجی بہبود کے کام کا آغاز کیا۔ اپنے گاؤں کے سکولوں کی حالت بہتر بنائی اور اب دیگر شہروں کے سکولوں کی حالت بہتر بنا رہے ہیں۔ کانفرنس میں آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں کے بچوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن کی صدارت معروف ادیب و براڈ کاسٹر ابصار عبدالعلی نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں’’بچوں کا ادب۔ ماضی ،حال، مستقبل‘‘ کے حوالے سے کہا کہ ہمارے ہاں بچوں کے ادب کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا حالانکہ بچوں کا ادب بچوں کی شخصیت پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔ حکومت اور سرکاری ادبی اداروں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ادیبوں کو ان کا جائز مقام دیں۔ بچوں کے ادیبوں کو بھی سول ایوارڈز دیئے جائیں۔ ماضی او حال میں بچوں کیلئے بہت عمدہ ادب تخلیق کیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی بہتر سے بہتر ادب تخلیق کیا جائے گا۔ صرف بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ معروف ڈرامہ نگار اور ادیب اصغر ندیم سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامہ لکھنے کیلئے ڈرامے کی تکنیک سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت سی چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم نے طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں تو ابتدا میں آپ موبائل کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ڈرامے بنائیں جیسے جیسے آپ اس فن پر عبور حاصل کرتے جائیں مزید وسائل اور آلات استعمال کریں۔ انہوں نے کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ ایسی کانفرنسوں سے سوچ و فکر کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ ایڈیٹر ’’پھول‘‘ و صدر پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی محمد شعیب مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ بچوں کے ادیب دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی میں نوعمر نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے نوجوانوں کو اچھا ادب پڑھنے کو ملے تو وہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر گمراہ نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بچپن میں پڑھی ہوئی کہانیاں اور نظمیں آج بھی یاد ہیں اور ان کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اکادمی ادبیات اطفال کے وائس چیئرمین اور معروف مزاح نگار حافظ مظفر محسن نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہماری کانفرنس بہت کامیاب رہی اور ملک بھر سے بچوں کے ادیب اس کانفرنس میں شریک ہیں۔ جب تک سرکاری سطح پر بچوں کے ادب اور بچوں کے ادیبوں کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم بچوں کے ادب کے فروغ کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد میں تعاون کرنے والے تمام اداروں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کا آغاز قاری احمد ہاشمی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔ سرور حسین نقشبندی نے نعت پیش کی۔ محمد جمال الدین افغانی نے’’ قرآن و سنت کی روشنی میں شدت پسندی کے خاتمے میں اہل قلم کا کردار ‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر قرآن و سنت پر عمل کیا جائے تو دنیا سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کانفرنس کی نظامت شرمین قمر نے کی جبکہ بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شباہت قمر نے کہا کہ ہم بچوں کے ادیبوں کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہمارے رہنما اور استاد ہیں۔ ہمیں ہر سطح پر ان کا احترام کرنا چاہئے۔ کانفرنس میں اسسٹنٹ پروفیسرپی ای سی ایچ ایس کالج کراچی شیما ربانی نے ’’بچوں کے ادب کے معاشرے پر اثرات‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ بچے جو کچھ پڑھتے ہیں اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اس لیے بچوں کے لئے لکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئے اور بچوں میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانا چاہئے۔ معروف مزاح نگار اور ایف سی کالج یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے ’’بچوں کے ادب میں مزاح کی ضرورت و اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شگفتہ مزاح انسانی ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ انسان تعمیری انداز میں سوچتا اور عمل کرتا ہے اور معاشرہ بھی پرسکون اور نفرتوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب سے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔ لاہور کالج یونیورسٹی کی اُستاد ڈاکٹر شازیہ رزاق نے ’’جامعات میں بچوں کے ادب پر تحقیق کی ضرورت‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی یونیورسٹی میں بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کروایا ہے۔ بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کی بہت گنجائش موجود ہے کیونکہ اس شعبے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ان کی ایک طالبہ نے ماہنامہ ’’پھول‘‘ پر ایم فل کا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے۔
معروف شاعر، صدر بزم اہل قلم پاکستان ڈاکٹر فرحت عباس نے ’’بچوں کی کردار سازی اور منظوم اُردو ادب‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو نظمیں ہمیشہ پسند آتی ہیں۔ چھوٹی، رواں اور آسان نظمیں بچے جلد یاد کر لیتے ہیں۔ اچھے شاعر بچوں کو نظموں میں دلچسپی کے ساتھ سبق بھی دیتے ہیں یوں بچے نظموں سے اچھی باتیں بھی سیکھ لیتے ہیں اور ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
معروف ادیب ڈاکٹر امجد طفیل نے ایک سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ’’بچوں کا ادب مجموعی صورتحال‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہنامہ ’’پھول‘‘ اور اکادمی ادبیات اطفال مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ بچوں کے ادب کا علم اٹھائے محمد شعیب مرزا اور حافظ مظفر محسن کی قیادت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے بچوں کے ادب کو تقویت حاصل ہوگی اور دیگر ادیب بھی بچوں کے لئے لکھنے کی طرف مائل ہوں گے۔
پروفیسر مسرت کلانچوی، شیخ فرید، ببرک کارمل جمالی، محمد اسحق وردگ، ساجد محمود ساجد، ڈاکٹر مزملہ شفیق،ریاض عادل، نذیر انبالوی اور عبداللہ نظامی نے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تاثرات پیش کئے۔کانفرنس کا خصوصی سیشن ’’کہانی کی تلاش‘‘ تھا۔ جس میں ہمت و جرأت اور ایثار و قربانی کی سچی کہانیاں پیش کی گئیں۔ اس سیشن کے صدر سابق چیف آف نیول سٹاف محمد آصف سندھیلہ نے ٹاٹ سکول سے تعلیم حاصل کر کے پاک بحریہ کا سربراہ بننے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی بہبود کے کاموں میں کامیابی کی داستان بیان کی۔ بون میرو کے مرض میں مبتلا نوجوان انس عقیل نے ایڈیٹر پھول محمد شعیب مرزا کی کاوشوں اور وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے تعاون سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد صحت یابی کی اپنی کہانی سنائی۔ پھول ٹیم کی مستقل رکن اور ہونہار مقررہ شرمین قمر نے کم وسائل کے باوجود ماں باپ کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے انجینئرنگ کے بعد سی ایس ایس کرنے اور اسسٹنٹ کمشنر بننے تک کی اپنی سچی کہانی سنائی۔ محمدی آئی ہسپتال شاد باغ کے ڈائریکٹر اور چیئرمین ہمت ٹرسٹ پاکستان ندیم شفیق جنجوعہ نے اپنے والد محمد شفیق جنجوعہ جو مصروفیت کی وجہ سے آ نہ سکے تھے۔ انکی قیام پاکستان کے وقت تنگدستی میں پاکستان ہجرت کرنا، محنت سے کاروباری ترقی کرنا اور پھر سماجی خدمت کیلئے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے آنکھوں کا ایسا جدید اور وسیع ہسپتال قائم کرنا کہ جس کی خدمات کا اعتراف ملکی ہی نہیں عالمی اداروں نے بھی کیا۔ اس کے تمام مراحل کی کہانی بیان کی۔ شور کوٹ جھنگ سے تشریف لانے والے 80 سالہ بزرگ ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی نے بتایا کہ قلم سے ان کا قلبی تعلق تھا۔ لیکن پھر ان کی بینائی جاتی رہی لیکن ایک انجان لڑکی نے اپنی ایک آنکھ عطیہ دے کر ان کی زندگی کو دوبارہ پُرنور کر دیا۔ محمد شعیب مرزا نے کہا کہ ان کہانیوں کو اس سیشن میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سی قابل فخر سچی کہانیاں ملیں گی۔ ادیبوں کوچاہئے کہ وہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی کہانیاں بھی نئی نسل تک پہنچائیں تاکہ بحیثیت قوم وہ خود پر فخر کرسکیں۔مقالہ نگاروں اور معزز مہمانوں کو ’’مجید نظامی ایوارڈ‘‘صدر الدین ہاشوانی کی کتاب ’’سچ کا سفر‘‘ اور تحائف پیش کئے گئے۔سلک بنک کے صدر عظمت ترین کی شیلڈ مارکیٹنگ سروسز کے ہیڈ حامد ایم مرزا، اخوت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب کی شیلڈ ریحان غوری، پنجاب ایجوکیشنل انڈوومنٹ فنڈ کے سی ای اورڈاکٹر کامران شمس کی شیلڈ محمد اسماعیل، ہاشو گروپ کے چیئر مین صدر الدین ہاشوانی کی شیلڈ ڈائریکٹر فوڈ اینڈ بیوریجز پی سی ہوٹل فیصل رحمن اور صدر ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان محترمہ سعدیہ راشد کی شیلڈمینجر پبلک ریلشنز لاہور سید علی بخاری نے وصول کی۔ٍ
پروفیسر مسرت کلانچوی نے اپنی پینٹنگز، تعمیر ادب کے روح رواں عبداللہ نظامی نے ملتانی اجرک اور ستارہ آمین کومل اور سدرہ نے ایوارڈز اور تسنیم جعفری نے اپنی کتابیں محمد شعیب مرزا اور حافظ مظفر محسن کو پیش کیں۔
اس کے علاوہ میاں محمد حمزہ نظامی (نظامی برادرز) میاں محمد نعیم شیخ (صدیق لیدر پرائیویٹ لمیٹڈ)، محترمہ رمیزہ نظامی (نوائے وقت گروپ) راجا جہانگیر انور (سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب) ابوذر غفاری (گوہر پبلشرز/ بابر بکڈپو)، ایڈمرل (ر) محمد آصف سندھیلہ، قاری احمد ہاشمی، سرور حسین نقشبندی محمد جمال الدین افغانی، شرمین قمر، شباہت قمر، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر امجد طفیل، ابصارعبدالعلی، ڈاکٹر شیما ربانی، ڈاکٹر مزملہ شفیق، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر فرحت عباس، شیخ فرید، ببرک کارمل جمالی، ساجد محمود ساجد، اسحاق وردگ، نذیر انبالوی، حافظ عبدالعظیم (دارالسلام) ، عمار سلیمانی، (ادارہ مطبوعات سلیمانی) گل فراز، (علم و عرفان پبلشرز)، محمد فہیم عالم (بچوں کا کتاب گھراور ان کے نمائندوں کو ’’مجید نظامی ایوارڈز‘‘، تسنیم جعفری، پروفیسر مسرت کلانچوی، ڈاکٹر فوزیہ سعید اور ان کی ہلال احمر کی ٹیم کو کتابوں کے تحفے پیش کئے گئے۔
تمام شرکاء کو خوبصورت بیگز، پھول میگزین، کتب، بروشرز اور اسناد پیش کی گئیں۔ مہمانوں اور شرکاء نے کانفرنس کو یادگار اور بچوں کے ادب کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا۔
کانفرنس میں ملک بھر سے درج ذیل مہمانوں اوربچوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔
لاہور سے ابصار عبدالعلی،اصغر ندیم سید، مسرت کلانچوی ،فضل اعوان ،حامد ایم مرزا، سید علی بخاری، جمال الدین افغانی ، خالد یزدانی ، ندیم شفیق ،زاہد حسن ،گلزار احمد ملک، ڈاکٹر امجد طفیل ،سرور حسین نقشبندی ، ڈاکٹر اشفاق احمد روک، احمد سہیل نصر اللہ،احمد اسماعیل ،ریحان احمد،جاوید اقبال،ڈاکٹر چوہدری تنویر مسرور،افتخار خان،مقدس فاروق،ڈاکٹر فوزیہ سعید،رانا سہیل نصیر،ذیشان اشفاق، حسیب اعجاز عاشر،دیا خان بلوچ،نذیر انبالوی،محمد نعیم امین،شہزاد اسلم راجہؔ ،عائشہ جمشید،سیدہ عطرت بتول نقوی،حاجی محمد لطیف کھوکھر،منزہ اکرم،عثمان اکرم،تہذین طاہر، مہ جبین ملک،ڈاکٹر آمنہ مسعود قریشی، خالدہ ناز، چوہدری قمر الحسن،شباہت قمر، شہریار احمد نعیم، سید اسعد نقوی،ممتار راشد لاہوری، وسیم عباس،مظہر اقبال چوہدری،آعز ندیم سحر،عقیل انجم اعوان، غلام زہراء، سدرہ امبرین،ایم آر شاہد، عبدالمنان، عمران علی، محمد اکرم، علینہ ٹوانہ، خالد نجیب، مس فریحہ حسین، زہرین تبسم، ماریہ تبسم، مہوش جبین،فضیلت اکرم،زاہد محمود شمس،شرمین قمر، مہرال قمر، امان اللہ نیئر شوکت، محمد فہیم عالم،اُفق دہلوی،محمد شریف شیوہ، ایم امتیاز عارف،حافظ اسحق جیلانی، حافظ احمد ہاشمی، تسنیم جعفری،حافظ معاویہ ظفر، حافظ محمد جنید رضا، ریاض راشد،محمد نادر کھوکھر، محمد عادل بٹ،ریاض احمد جسٹس۔گوجرانوالہ سے محمد وسیم عالم، محمدصدام ساگر،سمیرا شریف قادری،امجد شریف۔فیصل آباد سے ریاض احمد قادری،مزمل صدیقی،محمد عادل گلزار، زاہد سرفراز۔لیہ سے عبداللہ نظامی،ناصر ملک۔خانیوال سے طاہر فاروق(فردین علی ساگر)،آفاق احمد خان۔مانسہرہ سے اعجاز احمد لودھی،ملتان سے فریدہ گوہر،علی عمران ممتاز، احتشام الحق ، محمد جبران،مجید احمد جدائی ۔راولپنڈی سے خالد بھوترال،ڈاکٹر فرحت عباس،c/oڈاکٹر فرحت عباس۔بورے والا سے رانا محمد شا۔رحیم یار خان سے شہزاد عاطر۔بہاولنگر سے فرحان اشرف۔مردان سے شاہد انور شیرازی۔جھنگ سے عبدالعزیز چشتی، عنیزہ کنول،فرخندہ جہانزیب، جہانزیب عزیز۔ٹوبہ ٹیک سنگھ سے سدرہ گل مہک، ستارہ آمین کومل۔کسووال سے اختر سردار چوہدری،غلام مصطفی۔سیالکوٹ سے اسامہ منور۔اوکاڑا سے ڈاکٹر فضیلت بانو،احتشام جمیل شامی۔آزاد کشمیر سے ساجد محمود ساجد۔ڈیرہ غازی خان سے نیئر رانی شفق۔کوئٹہ سے شیخ فرید۔چارسدہ سے محمد ارشد(محمد ارشد سلیم)۔بلوچستان سے ببرک کارمل جمالی۔اسلام آباد سے ریاض عادل۔قصور سے گلزار احمد ملک۔کراچی سے پروفیسر مزملہ شفیق،ڈاکٹر شیما ربانی۔ساہیوال سے فیاضی ظفر۔پشاور سے اسحاق وردگ و دیگر ادیبوں نے شرکت کی۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.