ملاقات‌ ’’ندیم اختر ‘‘سے

السلام علیکم لکھاری ساتھیو! آج جس لکھاری کا انٹرویو پیش خدمت ہے وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ میرے ہمصر لکھنے والوں میں سے ہیں۔ کاروان ادب اطفال پاکستان کے روح رواں اور بچوں کے معروف ادب ندیم اختر کی سچی اور کھری باتیں پڑھیں ۔
سوال۔اپنے بارے میں کچھ بتائیں، کہاں پیداہوئے ، تاریخ پیدائش کیا ہے ، سٹار کیا ہے ۔ پچپن کیسا گزرا؟
جواب۔(سوچتے ہوئے)12دسمبر 1981کو لیہ کے ایک نواحی گاؤں چک 152ٹی ڈی اے میں پید ا ہوا ۔ یہاں میرے ننھیال رہتے تھے جبکہ میرے دادیال چک جھمرہ فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں ڈیڑھ میں رہتے تھے ۔ میرا بچپن دوسرے بچوں کی طرح خوبصورت بچپن تھا ۔ چونکہ والد صاحب آرمی میں تھے ۔ جب میری پیدائش ہوئی تو وہ ان دنوں نوشہرہ کینٹ (خیبرپختونخواہ ) میں تعینات تھے ۔ تو پیدائش کے بعد کے ابو کی ریٹائرڈمنٹ تک ہم لوگ ابو کے ساتھ نوشہرہ میں ہی رہائش پذیر ہوئے ۔ گاؤں سے مختلف ماحول تھا ۔ وہاں زندگی میں ایک ترتیب تھی ۔
سوال۔والدکیا کرتے ہیں؟ کہا ں سے تعلق ہے ؟ والدین میں سے کس سے زیادہ قریب ہیں جس کے اپنے دل کی بات کر سکتے ہیں ؟
جواب۔جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ ابوجان آرمی میں تھے ۔ میں ابو جان کے زیادہ قریب ہوں ۔ ان سے تقریباً ساری دل کی باتیں ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے میری تربیت دوستوں کی طرح کی لیکن شیر کی آنکھ رکھ کر ، کبھی بھی ایسی غلطی جو نہیں ہونی چاہئے تھی اس پر ڈانٹ بھی پڑی اور مار بھی ، لیکن امی جان سے ہمیشہ خوف کھاتا کیونکہ بچپن میں زیادہ مار امی سے ہی پڑی ۔
سوال۔ گھر والے پیار سے کیا پکارتے ہیں؟
جواب:(مسکراتے ہوئے)امی جان مجھے نومی اور ننھیال میں گوشی کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ لیکن اب تو میں ایک عرصہ ہوا ان ناموں کو ترس گیا ہوں کہ میرے گھر والے مجھے انہیں ناموں سے پکاریں ۔ اب تو مجھے میرے نام ندیم سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ مجھے امی جان کی ایک بات جو ہر لمحہ میرے ساتھ رہتی ہے۔ وہ جب بھی کبھی پیار سے بلاتیں تو مجھے کہتیں،ندیم اختر ، جاوے دفتر۔
سوال۔کتنے بہن بھائی ہیں ۔ آپ کا کیا نمبر ہے ۔ بہن بھائیوں سے لڑائی تو ہوتی ہو گی ۔ کس بات پر سب سے زیادہ جھگڑا ہوتا تھا۔
جواب۔ہم چار بہن بھائی ، یعنی دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ میں اپنی بہنوں اور بھائی میں سب سے بڑا ہوا۔ ویسے ہماری لڑائی زیادہ نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سب سے بڑا تھا تو سارے مجھ سے دب کر رہتے تھے ۔
سوال: سکول میں کیسے طالب علم تھے ۔ اس وقت کے ندیم اختر اور اب کے ندیم اختر میں کیا فرق ہے ؟
جواب:سکول میں لائق فائق طالب علموں میں میرا شمار ہوتا تھا ۔ میں گورنمنٹ مڈل سکول چوک اعظم میں پڑھتے ہوئے اپنی ہر کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔آج کے دور میں تو پرائیویٹ سکولوں میں تقریبا تمام بچوں کی پوزیشنیں ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ وہ دو ر تھا جب کلاس میں مقابلہ ہوا کرتا تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے مڈل سکول میں سنٹر اور وظیفہ کے امتحانات بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیے ۔ سکول کے زمانے کا ندیم اختر لاابالی سا کھلنڈرا سا ندیم اختر تھا ۔ لیکن ایک بات اس وقت کی اور آج کی مشترک ہے کہ سکول کے زمانے میں بھی میں نے دوست بنائے اور آج کے زمانے میں بھی میں نے بہت سے دوست بنائے ۔ یہ میرے رب کا مجھ پر کرم ہے ۔
سوال۔ کب آپ پر انکشاف ہو ا کہ ندیم اختر کو لکھنا آتا ہے ۔ پہلی بار کب قلم اٹھایا ۔
جواب۔(سنجیدہ انداز میں)یہ تو اندازہ نہیں کہ انکشاف کب ہوا ۔ چونکہ بچپن میں ابو جان اخبار جہاں گھر لاتے تو مجھے اس میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتے ، کہانی سنتے سنتے اسی زمانے میں میں نے کہانیاں پڑھنا شروع کر دیں ۔ اور یہ کوئی 1995کادور تھا کہ جب مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں لکھ سکتا ہوں۔ پہلی کہانی لکھی جو پھول اور کلیاں کو بھیجی ۔’’ چھٹیوں کا کام ‘‘ اور مزے کی بات وہ کہانی چھپ گئی ۔یہ سلیم ناز بھائی جان کا لگایا ہوا پودا ہے کہ لکھنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
سوال۔ادب میں کس کس صنف میں لکھا ۔ سب سے زیادہ کون سی صنف میں لکھنا پسند ہے ۔
جواب: میں نے نثر جس میں کہانی اور فیچر ، انٹرویو ، سفرنامہ ، تجزیہ۔ شاعری سے دور رہا ۔
سوال۔جب آپ ادب کی دنیا میں آئے اس وقت ادب کیسا تھا اور آپ کی نظر میں آج کا ادب کیسا ہے؟
جواب۔آج سے بہتر تھا ۔ اس وقت لکھنے والے اور چھاپنے والے دونوں کی قدر تھی ۔ جہاں تک ادب کی بات ہے تو اس وقت کہانی اپنے آپ کو پڑھواتی تھی ۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ حال ہوگیا تھا کہ پڑھنے والا زبردستی پڑھنے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔ اب تین چار سالوں میں ادب پھر سے قدرے بہتر ہوا۔ لیکن بچوں کے ادب میں بچوں کی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے خصوصا کہانی میں نئے تجربات کی ضرورت ہے ۔
سوال۔کیا بچوں کے لئے ادب ضروری ہے؟
جواب۔جی بالکل !ایسے ہی جیسے جینے کے لیے پانی اور ہوا ضروری ہے ۔
سوال۔ کیسا آپ نے مزاحیہ ادب بھی لکھا؟
جواب۔میں نے سنجیدہ ، فکشن ،زیادہ لکھاہے ۔ دو تین بار تجربات کیے کہ مزاحیہ لکھوں ، شاید میرے اندر مزاح لکھنے والے حس نہیں ہے ۔
سوال۔آج انٹر نیٹ کا دور ہے اور قارئین ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لکھاری متعارف ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے ۔
جواب۔جی یہ دور انٹر نیٹ کا دور ہے ، لیکن کہنا غلط ہو گا کہ قاری ادب سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ جس نے کتاب پڑھنا ہے وہ کتاب ہی پڑھتا ہے ۔ ہاں جہاں تک سوشل میڈیا کے لکھاریوں کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے ان لوگوں کے لیے راستہ نکالا جن کے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود تھی ، لیکن بات کہنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں مل رہا تھاتو سوشل میڈیا خصوصا فیس بک ، ویب سائیٹ اور بلاگز ان لوگوں کے لیے بڑے پلیٹ فارم میسر ہوئے ۔ لیکن دیکھنے میں آیا کہ ان میں سے اکثریت لکھنے والے شتر بے مہار لکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور پڑھنے کی عمر لکھنے پر لگارہے ہیں ۔ ہمارے دور میں تو دعوۃ اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب ، بزم پیغام او ر پھول کلب کی صور ت میں ایسے ادارے موجود تھے جنہوں نے ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر ، اشفاق احمد خان اور اختر عباس کی سربراہی میں لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی سمت کا تعین کرنے میں بھرپور معاونت کی ۔ لیکن سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کے لیے ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود نہ ہے جبکہ یہاں اب ضرورت ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے فیس بک پر ایک گروپ دیکھا جس میں جید لوگ جن میں معروف ناول نگار امجد جاوید اور ایڈیٹر آفاق انسائیکلو پیڈیا اشفاق احمد خان کہانی لکھنے کی تربیت کے لیے سرگرم ہیں ۔
سوال۔ ادب کی دنیا میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ادیب ایک دوسرے سے دل میں کدورت رکھتے ہیں۔ یہ چیز آپ نے بھی محسوس کی ہے ؟ تو ایسا کیوں ہے ؟
جواب۔میں سمجھتاہوں کہ مجھے ایسے سوال کا جواب نہیں دینا چاہئے۔ لیکن آپ فرما رہے ہیں توٹھیک فرما رہے ہوں ۔ جیسے ساحر مادام میں کہتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں ، میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی ۔ میرے دور میں انسان نہ رہتے ہوں گے ۔ کون ہے کتنا گنہ گار ۔ کہوں نہ کہوں ۔
سوال: بچوں کے ادب میں کون سا لکھاری آپ کی نظر میں بہترین لکھ رہا ہے ۔ ؟
جواب : ویسے تو آج کل ایک محاورہ چل نکلا ہے ۔ تو مجھے حاجی کہہ ، میں تجھے حاجی کہتا ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں بہت سے ایسے نام ہیں جو بہترین لکھ رہے ہیں ۔بہترین لکھنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ کسی ایک ادیب کے بارے میں ہم رائے نہیں دے سکتے ۔
سوال۔کوئی کتاب شائع ہوئی ہے ۔
جواب۔جی الحمد للہ میری تین کتابیں اور دو سیریز جن میں مریم کی کہانی سیریز اور نور کی کہانی سیریز شائع ہوچکی ہیں ۔ سفرنامہ ذرا ایوبیہ تک، بچوں کے لیے منتخب کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں ’’شرارت کی چالاکی ‘‘ اور ’’چاند کی بڑھیا ‘‘شامل ہیں ۔ جب کہ جن سیریز کی بات کی یہ دو مختلف قومی و بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں اور این جی اوز کے لیے لکھیں جن میں سے مریم کی کہانی سیریز دریائے چناب کے کنارے آبادیوں کے بچوں میں صحت و صفائی کی افادیت پر مشتمل ہیں ۔ جبکہ نور کی کہانی سیریز آزاد جموں کشمیر کے دس اضلاع کے سکولوں کے لیے لکھی گئی ہے جسے گورنمنٹ آزاد جموں کشمیر کے مونو گرام کے ساتھ شائع کیا گیا ۔ یہ دونوں سیریز چار رنگوں اور سکیچز سے مزین خوبصورت لے آؤٹ کی کتابیں ہیں ۔ جنہیں آرٹ پیپر پر چھاپا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میری دریائی علاقہ جات کے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بروشرز ، تربیتی مینوئل، تربیتوں کتابچوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہے ۔ میں نے ان لوگوں کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں ، تحفظ خوراک ، صحت و صفائی ، سیفیٹی میئرز ، سیلاب زدہ افراد کی زندگیوں پر پڑنے والے منفی اثرات ااور ان کے سد باب کے لیے بھی لکھا ۔
سوال۔ آپ کا رول ماڈل کون ہے۔
جواب: حضرت محمد ﷺ آپ پر جان ومال سب قربان ۔ ان سے بڑا رول ماڈل کون ہو سکتاہے ۔
سوال : آپ نے کاروان ادب کی تحریک شروع کی ۔ کیا سوچ کر یہ کام شروع کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا۔
جواب:یہ بنیادی طور پر ایک تقریب بہرملاقات تھی ۔ میرے سمیت کاشف بشیر کاشف اور محمد وسیم کھوکھر نے شروع کرنے میں زیادہ کردار ادا کیا ۔جبکہ بعد میں اظہر عباس کی صورت میں مثبت بندہ اس تحریک کو ملا ۔ چار سال قبل بچوں کے ادب میں جمود طاری تھا ۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی ۔ ورنہ ایک دور تھا جس زمانے میں ملتان سے برائیٹ رائٹر فورم ، وہاڑی سے وہاڑی رائٹر کلب ، گوجرانوالہ سے آپرا ، فیصل آبا د سے کڈزکلب ، خوشبو ، بچوں کا سعادت اور سب سے بڑی تحریک پھول کلب تھی ۔ ایسے وقت میں ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی کہ ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر چکا تھا کہ رابطے معدوم ہوچکے تھے ۔ تو ایسے ہی وقت میں اس تحریک نے جنم لیا ۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ ہم بہت سے پرانے لکھنے والے ساہیوال میں اکٹھے ہوئے۔ پہلی کاروان ادب کانفرنس ساہیوال کے انعقاد کے موقع پر مل بیٹھے اور وہاں ہماری ایک سوچ تھی کہ ایک بار پھر پاکستان میں ادب اطفال کی رونقیں بحال ہوں ۔ جگہ جگہ ، قریہ قریہ ، شہر شہرادب اطفال کے نام لیوا اٹھیں ۔ لوگ انفرادی سطح پر ادب اطفال کے فروغ کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں ۔ اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گذشتہ تین سالوں سے ہم سب کو پاکستان کے کونے کونے میں مختلف ادبی تنظمیں کام کرتی نظر آرہی ہیں ۔ آئے روز سیمینار ز ، کانفرنسز کا انعقاد ، کتب کی تقریب رونمائی و پذیرائی کی محفلیں جمتی نظر آتی ہیں ۔ جو کہ نہایت خوش آئندبات ہے اور ہر سطح پر ہونے والی ادبی سرگرمیوں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
سوال: ادب میں اس وقت بہت سارے لوگ اچھا کام کر رہے ہیں۔ مختلف میگزین نکل رہے ہیں۔ لکھاریوں کو بھی ایوارڈزمل رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں ان سب میں معیار کا خیال رکھا جا رہا ہے ۔ اگر ہاں تو کون معیاری ہے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
جواب:افسوس ناک امر یہ ہے کہ بغیر معیار کے ہی بندر بانٹ جاری ہے ۔ اور لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے افراد جن کا ادب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں اور وہ مختلف ادبی تنظیموں کے نام پر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔ میں کسی ایک کانام نہیں لینا چاہتا کیونکہ یہاں ایک نہیں بلکہ ایک سے زیادہ لوگ اور تنظیمیں ہیں جو بچوں کے ادب میں انتشار پھیلارہی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ دنوں میں کراچی میں ماہنامہ ساتھی کی ایک ایوارڈ تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ ان کے ایوارڈ دینے کا معیار اچھا لگا ۔ چونکہ میں نے گذشتہ دو سالوں میں اس رسالے میں نہیں لکھا ، اس لیے انہوں نے قطعا اس مروت میں مجھے ایوارڈ سے نہیں نوازہ کہ میں ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے آیا ہوں ۔ یا کاروان ادب اطفال کا مرکزی کوارڈی نیٹرز میں سے ہوں ۔ میں بھی ان کی پرخلوص دعوت پر وہاں گیا تھا نہ کہ ایوارڈ لینے ۔ یہ ہوتا ہے معیار ۔ ہمیشہ کام کی بنیاد پر معیار بنائے جاتے ہیں ۔ لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ یہاں فیس بک پر زیادہ کمنٹس دینے والے کو ایوارڈ دئیے جارہے ہیں ۔ بلکہ پچھلے سال ایک تقریب میں سینئر لکھاریوں کو قطار میں کھڑے کر کے اسناد دی گئیں ۔
سوال۔آپ کو پھول کے ایڈیٹر اختر عباس کا روحانی مرید کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اختر عباس نے زندگی پر کیا اثر ڈالا۔ ان کے پھول سے جانے کے بعد کیا فرق پڑا۔
جواب۔اختر عباس وہ شخصیت ہے جن کی زندگی میں خیر ہی خیر ہے وہ سب کے بھیا ہیں ۔ لیکن پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شمار کرتے ہیں جن سے وہ زیادہ محبت رکھتے ہیں ۔ وہ مجھے ڈانٹ بھی لیتے ہیں ۔ وہ مجھے منا بھی لیتے ہیں ۔ وہ آج بھی میری اسی طرح تربیت کرتے ہیں جیسے آج سے بیس سال پہلے اپنے اداریہ ، اپنی کہانیوں اپنی تقریروں میں کرتے تھے ۔ وہ آج بھی کسی تقریب سے پہلے نہ صرف مجھے بلکہ میرے احباب کو تنبیہ کرتے ہیں کہ اظہر ، کاشف ، ندیم ، وسیم آج فلاں سوٹ پہننا ، فلاں ٹائی لگانا ۔ یقین جانئے ہمیں بہت اچھا لگتا ہے ۔ اگر وہ تربیت نہ کرتے تو آج شاید میں بھی پینٹ کے نیچے چپل پہنتا اور کسی بھی تقریب میں آلتی پالتی مار کر کرسی پر بیٹھ جایا کرتا اور فائیوسٹا ر ہوٹل میں سویٹ ڈش کے ایک بڑے ڈونگے میں چمچ مار رہاہوتا ۔ ہاہاہا۔(زور دار قہقہ لگایا) کہنے کا مطلب ہے کہ اختر عباس ایک ایسا ایڈیٹر ہے جس نے اچھے ہیرے تراشے بلکہ ادیبو ں کے ساتھ انہیں اچھا انسان بننے میں اپنا نمایاں کردار اداکیا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ زندگی میں جن افراد کو میں پڑھ کر لکھنا شروع کیا ۔ جن کی تلاش میں لوگ نکلے ۔ وہ نہ صرف میرے اچھے مہربانوں کی فہرست میں ہیں بلکہ میں ان کے بہت زیادہ قریب ہوں۔ جن میں سہر فہرست اشفاق احمد خان ، اختر عباس ، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر اور خواجہ مظہر صدیقی شامل ہیں ۔ ان کے پھول میگزین سے جانے کے بعد جو پھول برانڈ بناتھا ۔ اس برانڈ کو توڑ ڈالا گیا ۔
سوال۔ادیب کو ادب تخلیق کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
جواب۔تحقیق ، علم اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ وہ خیال رکھے کہ اس کے پڑھنے والے اس کی تحریروں سے حب الوطنی ، نیکی ، حقوق العباد اور حقوق اللہ کا سبق حاصل کر سکیں ۔ ایک اور بات کہ پڑھنے والے کبھی آپ کی تحریر سے مایوسی کا شکار نہ ہوں بلکہ ایک امید کے سبق کے ساتھ اگلی تحریر پڑھیں ۔
سوال: شعر و شاعری سے بھی شغف ہے۔ کس کی شاعر ی پسند ہے۔
جواب۔شاعری صرف پڑھنے کی حد تک ۔ مجھے فیض احمد فیض کی شاعری نے متاثر کیا ۔
سوال۔آپ کو کتنے ایوار ڈ مل چکے ہیں۔
جواب۔سب سے بڑا ایوارڈ تو میرے ادبی دوست ہیں ۔ لیکن پھر بھی دو درجن کے قریب تو ہوں گے ہی ۔ جو ادبی خدمات پر دیے گئے جبکہ مروتاً بھی دو تین ایوارڈ ملے ہیں ۔ ہاہا ہا ۔ (ایک بار پھر زور دار قہقہہ لگایا)
سوال۔ادبی دنیا کا کوئی خوبصورت واقعہ جس کی یاد آج تک آپ کے ذہن میں تازہ ہو۔
جواب۔واقعات تو بہت سارے ہیں ۔ لیکن دوسری کاروان ادب کانفرنس لاہور کے موقع پر جب اس صدی کے سب سے بڑے ناول نگار جناب انتظار حسین سے ملنے ان کے گھر گیا تو مجھے اور اظہر عباس کو دیکھ کر کہنے لگے بھائی یہ آپ لوگ اپنی دکان اٹھاکر لیہ اور کوئٹہ سے لاہور کا رخ کیوں کر رہے ہو۔ یہاں تو ایسی دکانوں سے شہر بھرا پڑا ہے ۔ بعدازاں انہوں نے اپنا کالم مجھ پر لکھا ۔ تفصیلی واقعات تو میری آب بیتی میں شامل ہیں ۔
سوال۔ آپ کے بچپن کی کوئی خوبصورت بات؟
جواب۔جب پہلی کلاس داخل ہوا تو میری یہ شرط تھی کہ جب بھی مجھے بھوک لگے گی تو استاد مجھے چھٹی دیں گے اور میں فیڈر پی کر ہی واپس کلاس آؤں گا اور مجھے اجازت مل گئی ۔
سوال۔شادی شدہ ہیں؟بھابھی کو لکھنے کی عادت سے چڑ ہے یا نہیں ؟ کیا وہ تنگ نہیں ہوتیں کہ ہر وقت لکھنا ، ادب اور ادیب؟
جواب۔جی الحمدللہ میری ایک بیٹی عبیرہ ندیم ہے ۔ آپ کی بھابھی کو میرے لکھنے پڑھنے سے بالکل چڑ نہیں ہے ۔ بلکہ میری کتابیں اور رسائل وہ ہی سنبھال کر رکھتی ہیں ۔ لیکن کبھی کبھار وہ بھی تنگ ہوجاتی ہیں ۔ ا بھی پرسوں ہی مطالعہ کے دوران خلل ڈالنے پر توں توں میں میں ہوگئی ۔ لیکن حسب معمول تھوڑی دیر بعد زندگی معمول پر آگئی ۔ ہا ہاہا ۔ (قہقہہ لگایا)
سوال۔ بچوں کو کتنا وقت دیتے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں بچے بھی باپ کے نقش قدم پر چلیں۔ ؟
جواب۔عبیرہ کی پیدائش کے بعد زیادہ وقت گھر دیتا ہوں ۔ میں کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ وقت اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ گزاروں ۔
سوال۔ آپ کی اور بھابی کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟
جواب۔یار ! میں لبرل قسم کا بندہ ضرور ہوں لیکن مشرقی روایات کا حامی بھی ہوں ۔ کیونکہ میری تہذیب ، میرا معاشرہ مجھ سے ہیں ۔ اس لیے ارینج میرج ہے ۔ سوچاتھا کہ لو میرج کروں ۔ لیکن شاید میری قسمت میں نہ تھی ۔ اب اگلا سوال یہ نہ داغ دیجئے گا کہ لومیرج کس سے کرنا تھی آپ نے ۔
سوال۔کوئی ایسا کام جس پر آف کو فخر ہو۔
جواب۔کاروان ادب اطفال پاکستان جیسی تحریک کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ آغاز کرنا ۔ اور سہ ماہی ادب اطفال کا اجراء ۔ اس بات پر مجھے بہت زیادہ فخر ہے کہ اللہ جی نے ہم سے ادب اطفال کے اتنے بڑے کام کروائے ۔ یقیناًیہ میرے اللہ جی کی مجھ سے محبت ہے ۔
سوال: ندیم اختر کاروان ادب اطفال والے اور ندیم اختر ادیب میں کیا فرق ہے ؟
جواب:تھوڑا سا فرق ہے ۔ بحیثیت ادیب میں غصہ نہیں کرتا ۔ لیکن کاروان ادب اطفال کے حوالے سے کام پر میں کمپرومائز نہیں کرتا ۔ لوگوں کے رویے دیکھ کر شروع شروع میں مجھے غصہ بھی آتا تھا اور میں نے چند ایک نام نہاد لوگوں کو ان کے منہ پر ڈانٹ بھی دیا ۔ لیکن بعد میں سمجھ آئی کہ مجھے کم از کم ان سے یہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ البتہ کاروان ادب اطفال کی تحریک کے بعد میں سٹیٹ فارورڈ ہوگیا ہوں ۔
سوال: کاروان ادب پر حال میں کئی لوگوں نے اعتراض اٹھائے ہیں۔ کہا گیا کہ انہوں نے یونیسف سے فنڈ بھی لیا ۔ اس میں کتنی سچائی ہے ۔
جواب : لوگوں کا کیا ہے ؟ خود کچھ کرتے نہیں ۔ باتیں ان سے سو سن لیں ۔ بنیادی طور پر چونکہ ایسے لوگ تخلیقی کام کرنے سے بہت دور ہیں ۔لیکن وہ سوشل میڈیا اور ٹیلی فونک پروپیکنڈے کے ذریعے اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں سو وہ پروپکنڈے کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اگنور پالیسی کے تحت ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔ یونیسف ایک بڑا ادارہ ہے ۔ وہ کسی بھی غیر رجسٹرڈ ادارے کو فنڈ نہیں کرتا ۔ جبکہ کاروان ادب اطفال ایک غیررجسٹر ڈ تحریک ہے ۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں ۔ہاں البتہ ہم گذشتہ سال ’’رسائل کے مابین خاص مقابلہ باہمت بچے ‘‘کے نام سے منعقد کرایا جس میں لاکھوں روپے کے انعامات کیش کی صورت میں تقسیم ہوئے ۔ وہ بھی کاروان ادب اطفال نے کسی رجسٹرڈادارے کی تکنیکی معاونت کی ۔ جس کانام بتانا ضروری نہیں سمجھتا ۔
سوال۔ آپ کا پسندیدہ میوزک۔
جواب۔غزل سنتا ہوں ۔
سوال۔فلمیں کون سی دیکھتے ہیں۔ انڈین، پاکستانی یا انگلش۔
جواب: وقت کی کمی کی وجہ سے بہت سارے عرصے سے فلمیں دیکھنا ختم ہو چکی ہیں ۔ ویسے میں انگلش فلمیں دیکھتا ہوں جب جب وقت ملے۔
سوال۔دوست بنانا کسے پسند نہیں ہوتا ہے ؟ کون کون دوست ہیں اور کتنے ایسے دوست ہیں جو شروع سے ہی ساتھ ہیں؟
جواب: اگر ادب کی بات کروں تو میرے شروع کے دوستوں میں ملک کے مامور ناول نگار جناب ناصر ملک ، جبکہ بچوں کے ادب میں عرفات ظہور ،جن دنوں کاروان ادب اطفال کا آغاز ہوا تو مجھے کاشف بشیر کاشف ، اظہر عباس اور محمد وسیم کھوکھر کی صورت میں بھائی مل گئے ۔ ویسے تو نام بہت سے ہیں ۔ اب اگر میں عبدالجبار صبا کا نام لوں تو معروف چشتی صاحب ناراض ہو سکتے ہیں اور احمد عدنان طارق کا فون ابھی بجنا شروع ہو جائے گا کہ ندیم کیا میں تمہارا دشمن ہوں ، کہ ان کا نام کیوں نہیں لیا ان کا نام لوں تو عبدالصمد مظفر ناراض نہ ہوجائیں کہ پا جی آپ نے میرا نام کیوں نہیں لیا ۔ بھئی لاہور میں اگر ان کا نام لے لیا تو شہباز اکبر الفت کا ابھی فون آجائے گا ۔ میرے بہت سے دوست ہیں ۔ معذرت محمد ناصر زیدی بھائی آپ کا نام نہیں لیا ۔ نظامی تو میرا یار غار ہے لیکن آج کل کچھ اصولی اختلافات چل رہے ہیں ۔ فاروقی صاحب آپ تو میرے انتہائی محترم دوست ہیں جیسے خواجہ مظہر صدیقی ہیں ۔ ہاہا ہا ۔(قہقہہ لگاتے ہوئے) لکھاری ٹیم اس جواب پر مجھے مار پڑوائیں گے اپنے دوستوں سے ۔ جن کے نام نہیں لیے ۔ ابن آس محمد میری زندگی میں ایسی شخصیت شامل ہوئی ہے جو دل کا سچا اور کھرا بندہ ہے ۔ محبوب الٰہی مخمور سے میری دوستی لوگوں ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
سوال۔کھانے میں کیا پسند ہے؟بھابھی سے کیا فرمائش کر کے پکواتے ہیں؟
جواب۔میں نے کبھی کھانے کی فرمائش نہیں کی ۔ میں سادہ کھانے زیادہ پسند کرتاہوں ۔ ہاں البتہ جب بارش ہو تو میں خصوصی طور میٹھے پکوڑے فرمائشی بنواتا ہوں ۔
سوال۔سواری کون سی پسند ہے؟
جواب۔پہلے تو جو مل جائے ۔ لیکن اب عادت کہیں لے لگژری سہولت ڈھونڈتا ہوں سفر کے لیے ۔
سوال۔ سفر کرنا پسند ہے یا نہیں، اگر سفر کرنا پڑے تو کہاں جانا پسند کریں گے۔
جواب۔جی مجھے سفر ہمیشہ سے پسند رہا ۔ البتہ صرف میری ایک خواہش ہے کہ میں اب حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کر لوں ۔
سوال۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ زندگی میں صرف پانچ چیزیں رکھنی ہیں تو کون سی چیزیں رکھیں گے؟۔
جواب۔مشکل سوال ہے ۔ کیونکہ چیزوں کی تقسیم مشکل ہو جائے گی۔
سوال۔ آپ کا کوئی تکیہ کلام؟
جواب۔یار ۔۔۔ !
سوال۔زندگی کا مشن کیا ہے؟
جواب۔جس دن مشن بن گیا اس دن زندگی سرخرو ہوجائے گی ۔ البتہ اپنے تئیں کوشش ہے کہ جو اپنی سمجھ کے مطابق زندگی کا مشن بنارکھا ہے وہ آج کل بچوں کے ادب کا فروغ اور ادب کو خود انحصاری کی طرف لے کر جانا ہے ۔
سوال۔ کس استاد نے زندگی اور بعد از زندگی پر اثر ڈالا؟
جواب۔میرے استاد محترم سرفراز صاحب۔
سوال۔ وہ کون سا لمحہ تھا جس میں آپ نے زندگی کو بہتر انداز سے سمجھا؟
جواب۔جس دن میں نے اپنی بڑی بیٹی کو دفنایا تھا ۔
سوال۔ اگر آپ کو ملک کا ایک دن کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو آپ پہلا کام کیا کریں گے؟
جواب۔کبھی سوچا نہیں ۔
سوال۔کبھی ڈاکوؤں سے واسطہ پڑا؟
جواب۔(مسکراتے ہوئے )اللہ کا شکر ہے ۔ کبھی نہیں پڑا ۔
سوال۔ بچپن میں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے تھے؟
جواب۔(سوچتے ہوئے) نیوز کاسٹر
سوال۔ فارغ اوقات میں کیا مشاغل ہوتے ہیں۔
جواب۔یہ تو بھول چکا کہ فارغ بھی رہتا ہوں میں ۔ زندگی بہت مصروف ہے ۔
سوال۔ زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز کو قیمتی تسلیم کرتے ہیں؟
جواب۔ماں ۔۔۔ماں ۔۔۔ ماں
سوال۔آپ کی سب سے مضبوط شخصی خوبی کیا ہے؟۔
جواب۔ فیصلہ کرنے کی طاقت ہے ۔ میں کوئی بھی فیصلہ فورا کر لیتا ہوں ۔ جو سوچتا ہوں وہ کر کے ہی دم لیتا ہوں ۔
سوال۔زندگی کا وہ لمحہ جس سے شرمندگی محسوس ہوئی ہو؟
جواب۔جی میں نے ہمیشہ اپنی سستی کی وجہ سے شرمندگی اٹھائی ۔
سوال۔ آپ کیسی طبیعت کے مالک ہیں، غصیلے یاسادہ مزاج؟
جواب۔ویسے تو سادہ مزاج تھا ۔ اب غصے کہیں کہیں آجاتا ہے ۔
سوال: غلطی کرنے والے کو معاف کر دیتے ہیں یا سزا دیتے ہیں؟
جواب : میں درگزر کرتارہتاہوں ۔
سوال۔ کوئی ایسی قابلیت جسے سیکھنے کی خواہش ہو؟
جواب۔میں گرافکس ڈیزائنگ سیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں ۔
سوال۔آپ کے دوست آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟
جواب۔یہ تو دوست ہی بتاسکتے ہیں ۔
سوال۔اپنی شخصیت کا احاطہ ایک فقرے میں کریں؟
جواب۔(سادگی سے)سیدھا سادہ سابندہ ہوں یار !
سوال۔ایسا کوئی کام جو آپ کو کہا جائے اور آپ نہ کریں؟
جواب۔کوئی کام مشکل اور ناممکن نہیں ہوتا ۔
سوال: لکھاری کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس میں مزید کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟
جواب:لکھاری یقیناًایک انفرادیت کا نام ہے ۔ ایک ٹیم ورک اس میں نظر آتا ہے ۔ انفرادیت کی جہاں توانا روایت مجھے نظر آتی ہے میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ لکھاری کو شروع کے دنوں سے ہی میں قدر کی نگاہ سے دیکھ رہاہوں ۔ مستقبل میں ادب اطفال کی مضبوط روایت بنتے دیکھنا چاہتاہوں ۔ چونکہ لکھاری ٹیم میں تمام پروفیشنل کے لوگ ہیں تو میں مستقبل میں لکھاری کو انٹر نیٹ کی دنیا میں میں ادب اطفال کے فروغ کے لیے مستند اور مثبت کام کرتے دیکھنا چاہتا ہوں ۔
سوال۔ادب کی دنیا میں مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب۔تحقیق کا شعبہ ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سہ ماہی ادب اطفال کی صورت میں ادیبوں اور رسائل کو پاکستان کی تمام بڑی لائبریوں میں ان کے فن اور شخصیت کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ آنے والے وقت میں جب بھی بچوں کے ادب پر محقیقن لکھنے کی کوشش کریں تو ان لائبریوں سے انہیں ایک ہی جگہ تمام چیزیں مل سکیں ۔
سوال۔ کوئی پیغام
جواب۔اچھا سوچیں ۔ اچھا لکھیں ۔ اچھا پڑھیں ۔

 

 

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.