ٹیڑھا کالم

ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔یہ ایک پیدائشی فطرت ہے،ایک فطرتی جذبہ ہے اسکا عملی اظہار تب ہوتا ہے جب ہم تمام ممکنہ طریقوں سے اسکی بے لوث خدمت کرتے ہیں۔یہ جذبہ محض انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حیوان بھی اپنے مسکن سے محبت کرتے ہیں۔
حب الوطنی کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔وطن سے محبت نہ صرف ایک قومی جذبہ ہے بلکہ ایک قومی فریضہ بھی۔کسی بھی ملک میں رہنے والے باشندے کا فرض ہے کہ وہ اپنی ثقافت اپنی اقدار اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے قوانین کی پاسداری کرے۔ہمارے ہاں حب الوطنی کا جذبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ زبوں حالی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔کہنے کو تو ہم ایک محبِ وطن قوم ہیں مگر در حقیقت ہماری یہ محبت محض کھیل کے میدانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ہمیں انڈیا پاکستان کے کسی میچ میں تو بآسانی یہ محبت دکھائی دیتی ہے مگر جیسے ہی پاکستان میچ ہارتا ہے ساتھ ہی ہماری پل بھر کی حبالوطنی ہار جاتی ہے۔اپنے ملک کے بارے میں نا زیبا الفاظ تنقید کا رنگ چڑھا کر بولنے شروع کر دیے جاتے ہیں۔جو کھلاڑی پچھلے کسی میچ میں قومی ہیرو قرار دیا جاتا ہے وہی نام نہاد تنقید کی زد میں آجاتا ہے۔اگر یہی تنقید یہی فکر ہم اپنے رویوں کے لئے استعمال کریں تو معاشرے کو درپیش بہت سے مسائل خود بہ خود حل ہوتے چلے جائیں گے جن میں سے ہمارا گرتا ہوا اخلاقی میعار سرِ فہرست ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہم موٹر سایئکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننا گوارا نہیں کرتے البتہ محنت سے کمائے ہوئے پیسے رشوت کے طور پرادا کر دیتے ہیں۔گھر سے دس منٹس تاخیرسے نکلنا گوارا ہے لیکن کچھ لمحے ٹریفک سگنل پر رکنا توہین سمجھی جاتی ہے۔یقیناًاس معاشرے میں بہت سے لوگ اس ملک سے اوراسکی ہر چیز سے محبت کرتے ہیں لیکن انکی تعداد ایسی ہی ہے جیسے اُونٹ کے منہ میں ذیرہ۔کیا وجہ ہے کہ دنیا کی پسماندہ ترین اقوام بھی ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل گئیں ۔یقیننا بہت ساری وجوہات کی بنا پر۔۔لیکن ایک بہت بڑی وجہ انکا اپنے ملک کے ساتھ مخلض ہونا بھی ہے۔اپنی روایات اپنی اقدار اور اپنی قومیت پر فخر کرنا بھی ہے۔اپنے درمیان نسلی تعصب کو ختم کرنا ،ذات پات اور لسانیت پر قومیت کو ترجیح دینا بھی ہے۔آزادی کے دن پر خود کو رنگوں میں رنگ لینے سے حب الوطنی ظاہر نہیں ہوتی۔کرکٹ میچ میں جوش اور ولولہ وطن سے محبت کے ذمرے میں نہیں آتا۔وطن سے اصل محبت وہ ہے جو آپکو ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنے پر مجبور کر دے،کچرے کو کچرا دان میں پھینکنے پر مجبور کر دے۔سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کا استعمال کرنے اور ٹریفک سگنلزپر رکنے پر مجبور کر دے۔کسی بھی دفتر بینک یا ہسپتال میں اپنی باری کا انتظار کرنے پر اُکسائے۔یہ تمام وہ چھو ٹے چھوٹے فرائض ہیں جن کی ادائیگی کے لیے ہمیں چند لمحوں کے علاوہ اور کچھ صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔اور یہی چند لمحے ہمارے ملک کو ایک مثبت تبدیلی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔باہمی رواداری اور تحمل اور ایمانداری سے کی گئی محنت نہ صرف ہماری ذاتی زندگی کو خوشحال بنا سکتی ہے بلکہ ہمیں قائد کا وہ پاکستان دلا سکتی ہے جسکا خواب شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔آج بھی کچھ نہیں بگڑا ،ہم اپنے رویے تبدیل کرسکتے ہیں۔اپنے ارد گرد بسنے والے والوں کو پاکستانی کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ورنہ ہماری حب الوطنی صرف کرکٹ میچ تک محدود رہ جائے گی،جس میں اگر بھارت سے ہار گئے تو پھر اسی ہار کا دکھ کم کرنے کے لئے بھارتی فلم کو دیکھنے کسی قریبی سینیما گھر جاتے رہیں گے،محنت سے کمائے ہوئے ہزاروں روپے خرچ کر کے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.