کڑوے بادام

مجید احمد جائی

قلم سے میرا رشتہ اُس وقت سے ہےجب میں نے پہلی تحریر لکھی۔اُس دن سے اب تک یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا جاتا ہے۔پندرہ سال کے اس عرصہ میں کئی نشیب و فراز آئے ۔زندگی ہچکولے کھاتی رہی ،اُتار چڑھاؤ آئے مگر میں ثابت قدم رہا ۔کئی لمحے ایسے بھی تھے جب میں فیصلہ کر چکا تھا کہ بس اب قلم کو توڑ دوں او ر یہ سلسلہ ختم کر دوں۔آخر اس سے حاصل ہی کیا ہوتا ہے ۔پہلے دوست بنے پھر نفرتیں بڑھیں اور معاملہ بگڑتا چلا گیا لیکن میں نے شروع دن سے مقصد بنا لیا تھا، اپنی تحریروں سے اپنی اور دوسروں کی اصلاحی کی کوشش کرنی ہے۔اس کوشش میں مگن ہوں ۔میں نے حق ،سچ کا راستہ اختیار کیا ہے ۔قلم کا رشتہ پاکیزہ رشتہ ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے ،ہر کسی کو نہیں۔یہ خداداد صلاحتیں ہوتی ہیں ۔قلم تمہارے پاس امانت ہے اور اس بارے ضرور پوچھا جائے گا ۔جو کچھ تم لکھتے ہو ۔
ادیب کے لئے باادب ہونا ضروری ہے ۔ادب کی خدمت کرنی ہے تو خادم بننا ہو گا ۔خادم وہ ہوتا ہے جو اپنی انا،اپنی ’’میں ‘‘کو بالائے طاق رکھ کر خدمت کرے۔ادیب معاشرے کا معمار ہوتا ہے ۔اِس کی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔معاشرے سے بُرائیوں کا سدباب اپنی تحریروں سے کرنا ہوتا ہے ۔بچوں کے ذہنوں کی آبیاری کرنی ہوتی ہے ۔باشعور شہری بنانا ہوتا ہے۔لیکن جب میں ادیبوں کو چھوٹی سی چھوٹی بات پر اُلجھتا دیکھتا ہوں تو میری روح کانپ اُٹھتی ہے ۔کیا ادیب ادب کی خدمت کر رہا ہے۔؟ میرے ذہن پر سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ہے اور میں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے نکل پڑتا ہوں ۔لیکن نتیجہ وہی صفر ہوتا ہے ۔کیوں ۔؟
جب تک ایک ادیب خود سے انصاف نہیں کرے گا وہ باادب کیسے ہوسکتا ہے ۔ادیب کی اپنی کوئی ذات نہیں ہوتی ۔وہ تو دوسروں کے لئے جیتا ہے ۔اُس کے جذبے ،اُس کی حساسیت دوسروں کے لئے ہوتی ہے ۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آج ادب نفرت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔اس میں انا ،حسد،چغل خوری ،کینہ پروری کا زہر شامل ہو گیا ہے ۔
آج ایک ادیب دوسرے ادیب کا گریبان پکڑے کھڑا ہے ۔اپنی ذایتات کی جنگ لڑ رہا ہے ۔اپنی انا کے خول میں لپٹا ہوا ہے ۔سب کچھ میں ہوں کا نعرہ گونج رہا ہے ۔ادیب نے خود کو گروپس میں تقسیم کر لیا ۔ میرے پیارے ادیب کا مقصد انسانیت سے پیار ہے ۔اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ۔یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کیا تخلیق کر رہا ہے ۔وہ ادب کی خدمت کس طرح کر رہا ہے ۔کسی بھی ادیب کے کام کو نہیں سہرایا جاتا ۔اس کا اسٹیس دیکھا جاتا ہے ۔اُس کے تعلقات کن سے ہیں ،اُس کی شخصیات کیسی ہے وغیرہ وغیرہ ۔چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھ کر اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کر رہے ہیں ۔ادیب دوسروں کی اصلا ح کرنے نکلا تھا خود دلدل میں پھنس گیا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے آج ایک ادیب دوسرے ادیب کو ادیب ماننے کو تیار ہی نہیں ۔یہاں قد کاٹھ آ ڑے آ رہے ہیں ۔اثر ورسوخ دیکھا جارہا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں معاشرے میں جو بگاڑ ہے ادیبوں کی وجہ سے ہے ؟ادیب بُرائی کے خاتمہ کے لئے ہوتا ہے مگر یہاں تو ادیب بُرائیوں کی دلدل میں خود پھنس چکا ہے ۔
ادیب اپنے منصب سے انصاف نہیں کر رہا ۔نفرتوں کی چکی میں پِس رہا ہے ۔انا کی کشتی میں سوار ہے ۔حسد کے تنور میں جل بھن رہا ہے ۔ چغل خوری ،غیبت کے انبار لگے ہیں ۔فلاں یہ ہے ،فلاں وہ ہے ۔گروپ بن گئے ہیں ۔کیا ادب میں سیاست داخل ہو گئی ہے ۔؟
ادیب باصلاحیت ہوتا ہے ،باشعور ہوتا ہے ،معاشرے کی انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر لاتا ہے لیکن یہاں معاملہ ہی اُلٹ ہے۔ نفرتیں، عدواتیں ہیں بلکہ معاشر ے میں بسنے والے ہر فرد کو اس طرف راغب کر رہے ہیں ۔
ادیب ،ادیب نہیں رہا ۔تماشہ بن گیا ہے ۔بڑوں کا ادب ہے یا بچوں کا ادب ،ہر طرف گروپس کی یلغار ہے ۔؟دوسروں کی اصلاح کرنے والے کو جب خود اصلاح کی ضرورت ہوتو معاشرے کا کیا ہوگا۔ذرا تصورکریں کل قیامت ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے قلم سے کیا لکھا۔ کتنوں کو بُرائی کی دلدل سے نکالا ۔؟ہمارے پاس جواب کیا ہوگا۔؟
اگر ادیب بننا ہے تو ادب کی خدمت کرنی ہوگی ۔ایسی خدمت جس میں خادم کو کوئی لالچ،نہیں ہوتا۔اس کا مقصد صرف اور صرف خدمت ہوتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پاتے ہیں ۔ہمیں اپنے قلم سے ،کردار سے، گفتار سے خود کو اور دوسروں کو باادب بنانا ہے۔اپنی ذات کو پہچانیں اور معاشرے کے لئے مثالی بن جائیں۔آج سے تمام نفرتیں، کدواتیں ،حسد ،کینہ ،دِل سے نکال دیں ۔کوئی کسی کی جگہ نہیں لیتا ہر کوئی اپنا مقام خود بناتا ہے ۔آج عہد کریں جب تک سانسیں ہیں ادب کی خدمت کرتے رہیں گے ۔نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے تو معاشرہ پُرامن ہو گا۔افراتفری کا بازار ختم ہو جانا چاہئے سب کو ایک جان ہو کر ادب کی خدمت کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.