گل آبی کالم

قاسم سرویا
”پریشانیوں اور ٹینشنوں کے اس دور میں کسی کے چہرے پر سمائل بکھیرنا، کلیجہ ٹھنڈا اور روح کو راضی کرنا کسی صدقہ سے کم نہیں ۔ ویسے بھی اب ٹھنڈ کا موسم بس ’’فِشوں‘‘ ہونے ہی والا ہے تو گرمیوں میں بھی ہمارا اندر اور باہر ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ ای رہنا چاہیے۔اسی لیے آپ کے من کو شانت اور دل کو ٹھنڈااور پرسکون رکھنے کے لیے لکھاری سیریز اور لکھاری آن لائن میں ’’گلابی کالم‘‘ اب تسلسل سے لکھا جاتا رہے گا تاکہ آپ کے سوہنے من موہنے Faces پر ’’ پُھل مکھانے‘‘ ہمیشہ کھلرتے رہیں۔
پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے کیونکہ یہ بڑی سوادی اور مٹھی زبان ہے اور ہر کوئی اس کے چسکے لینا پسند کرتا ہے ۔ ہمارے محترم بابا جی اشفاق احمد مرحوم اپنی تحریروں اور محفلوں میں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی کی ’’پھلجڑیاں‘‘ چھڈیا کرتے تھے جن کو سارے ای بڑا like کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں اور آج کل معروف اداکار جناب سہیل احمد صاحب جو کہ عظیم پنجابی شاعر بابا جی فقیر محمد فقیر مرحوم کے پوتے ہیں ، وہ بھی اپنے ہر دل عزیز پروگرام’’ حسب حال ‘‘ میں اردو کے ساتھ پنجابی کا خوب تڑکا لگاتے ہیں اور سب ’’حاجرین و ناجرین ‘‘ کو’’ کِنّا جیادہ ‘‘ ہسا ہسا کر لوٹ پوٹ کرتے ہیں۔
گلابی کالم لکھنے کا خیال اور محرک بھی ایسی ہی ’’گلاں باتاں ‘‘ ہیں جو ہمارے’’لاگے شاگے‘‘ کھلری پڑی ہیں۔ بس ان کو’’ہاسیاں دی پنڈھ‘ ‘ بنا کے آپ دے حضور پیش کرنے کا ’’ ٹھیکہ ‘‘ ہم نے اٹھا لیا ہے ۔ ظاہر ہے جو کسے دا’’ چنگا چاہی وان‘‘ ہوتا ہے ، اوہو ای دوسروں کو ’’ خُش‘‘ رکھناا ور دیکھنا چاہتا ہے ۔ تو پھر اپنے دل میں’’ ایلفی جنا پکا‘‘ یقین کر لو و کہ تُسیں ایہہ کالم پڑھ کے اپنے پیاریاں ’’ بلھاں ‘‘ تے ’’نِمّی نِمّی ‘‘ سمائل جرور لے کے آنی ہے ، کیونکہ’’ متھے تے وٹ‘‘ اور ’’غصے نال پُھلیا ‘‘ منہ صاب کوں کسے کو چنگا لگتا ہے۔
ہمارے دوست کے سکول میں اک ’’ نواں منڈا‘‘ داخل ہوا جو گھر والوں کی بے پرواہی اور اپنے غلط اور ’’پُٹھیاں حرکتاں‘‘ کی وجہ سے’’ واہوا ای وڈھا‘‘ ہوگیا تھا۔اتنا وڈھا کہ دس سال کے ایس منڈے کو پریپ کلاس وچ داخل کرنا پیا۔فیر اک دن اس کے بھرا کو خیال آیا کہ میں تو رُل ای گیا ہوں ۔ چلو اپنے نکے بھرا کو ای چنگے سکولے داخل کرا دیتا ہوں کہ چار جماعتاں پڑھ کے پُلساں وچ ’’شپائی شپوئی‘‘ بھرتی ہو جاو ے گا۔
پہلے دن تو جماعت میں منہ وٹ کے نُکرے لگ کے بیٹھا رہیااور الف بے اور ABC کے چار حرفاں کو واہوا رٹا لالیا۔ فیر جب ’اک تے تھک ‘ گیا تو ٹیچر سے بہانے لگان لگ پیا۔
’’مس جی،میری مائی نے اج گونگلوؤں اور پالکوں کا سلونا پکایا تھا تے میں نے جرا بوہتی رج کے روٹی کھا لئی تھی جی ایس لئی میرے ڈِھڈ میں بڑی پِیڑ ہو رہی ہے جی۔ میرے کو جرا گھار جا لین دیں۔میرے ابے نے اک وری بس چوں بڑی ودھیا پھکی لئی تھی جی ۔۔۔ بڑی سوادی آ جی۔ میں ہنے گیا تے منٹ مار کے چھیتی نال کھا کے آجاواں گاجی۔ ‘‘
ٹیچر نے کہا۔’’ آرام سے بیٹھ جاؤ ۔ میں نے ابھی سر کو بتا دینا ہے ۔‘‘
کانوں کو ہتھ لگا کے کہنے لگا۔’’نہ جی ۔مس جی ۔سر جی کو نہ دسنا جی۔سر جی نے تو آ کے میری ایتھے ای چِھل لا چھڈنی آ جی۔میرا بھرا سر جی کو آکھ کر گیا ہے کہ اگر یہ کوئی ’’چوں چراں‘‘ کرے تو اس کو ’’پا لمیاں لینا‘‘۔اور خوب ٹہل سیوا کرنا۔‘‘
فیر اپنے منہ میں ہی کچھ بُڑ بُڑ کر نے لگ گیا۔ جو نال دے منڈے نے اوسے ٹَیم دس دیا۔ کہ پتا نئیں میرا بھرا تے سر جی کیوں میرے پچھے پئے ہوئے ہیں۔
جب سرکو پتا لگا تو انہوں نے بڑے آرام سے سمجھایا کہ ہم اس لیے تمہارے پچھے پئے ہوئے ہیں ، تاکہ تم چنگے بندے بن جاؤ۔
کہنے لگا۔’’ سر جی سارے مجھے ’’اچھا اچھا‘‘ کہتے ہیں ۔ میں چنگا ای ہوں تو مجھے اچّھا کہتے ہیں ۔‘‘
سر نے کہا۔’’ بے وقوفا، تیرا نام ارشد ہے اس لیے تمہیں سارے اچّھا کہتے ہیں۔ چنگا تے توں بنن آیا ہے یہاں۔‘‘
ارشد نے اگلے دن سکول سے چھٹی کر لی کیونکہ وہ آزاد پنچھی تھا اور سکول میں چھے گھنٹے ’’بَجّھ کے‘‘ بیٹھنا اُس کے لیے بڑا اوکھا کم تھا۔ اسے تو آوارہ کبوتروں کے پچھے نسنا، پنڈ میں آئی جنجیں لٹنا، خسروں کے ساتھ ٹچکراں کرنا اور جھوٹ بول بال کے گھار والیاں کو چارنا اس کا محبوب مشغلہ تھا اور وہ ان کاموں میں بڑا ماہر بھی تھا۔ لیکن سکول والوں نے بھی اسے چنگا بندہ بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔
چوتھے دن سویرے تڑکے ای اس کا بھرا ڈنڈا پکڑے اس کو اگے لائی لیا رہا تھا۔ اچھا آتے ہی کہنے لگا۔’’سر جی ۔ میرے ولوں سوری من لو جی۔میں اگے سے چھٹی نئیں کراں گا جی۔ دراصل وچ جی میری نیت بڑی گندی ہو ئی گئی تھی جی،کہ میں نے پڑھ پُڑھ کے کی کرنا ہے جی۔ایہے ای تے چار دن موجاں کے دن ہیں ۔ عیش کر کُر لیتے ہیں۔
پراج میرے بھرا نے اور میرے ابے نے میر ی ’’واہوا سیوا ‘‘کر دتی ہے جی ۔ہن میں سدھے راہے چلاں گا جی۔قسمے ۔ہن میں اچھا بن جاواں گا جی۔ میرے کو تسی وی معاف کر دیو جی۔
اگے کیا ہوا۔؟ اگلی قسط میں۔۔۔ رب راکھا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.