لکھاری کا مقصد:

اس وقت پاکستان میں بہت سارے میگزین بڑے تواتر سے نکل رہے ، ادبی گروپ ہوں یا ادبی فورم ، ادبی ویب سائٹ ہوں یا پھر ادبی بلاگ۔ ہر کوئی اس چیز کا دعوی دار ہے کہ وہ وہ اردو ادب ، زبان اور لکھاریوں کی شاندار خدمت کر رہا ہے ۔الیکٹرونک اور انٹرنیٹ کی دنیا نے اگرچہ ہر چیز کو بہت حد تک آسان کر دیا ہے۔ہر لکھنے والا اپنے آپ کو ادیب تصور کرکے اس بات کا فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اس قابل ہے کہ اس کا نام ادب کے سنہرے حروف میں لکھا جائے اور جو اس نے ادب تخلیق کیا ہے اس پر اس کا نام منٹوکے نام کے بعد گنا جائے گا۔ معیار سے زیادہ مقدار کا دھیان رکھا جا رہا ہے۔ کتاب چھپنے کو ادیب کا لیبل تصور کیا جا رہا ہے۔ اس ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی سوچ نے ادب کی تباہی میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے ۔ نت نئے ٹی وی چینلز کی وجہ سے پاکستان میں لکھاریوں اور خاص طور پر اچھے لکھاریوں کا ایک بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ کچھ لکھاری ابھی بھی پاکستان میں اچھا اور معیاری ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ مگر اکثریت ادیب جنہوں نے اردو ادب وزبان کی خدمت کرنے کو قلم اٹھایا تھاپیسہ کمانے کیلئے اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ادب کے نام پر کیا کیا تخلیق ہو رہا ہے وہ ہم الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نوجوان نسل کے بہترین لکھاریوں کی بہت شدید کمی ہے ۔

اس میں لکھاری کی یہ ادنی سی کوشش کہ لکھاریوں کو آپس میں مربوط کرنے ، ان کی اچھی تربیت کرنے ، ان کو معیاری اور مقصدیت سے بھر پور ادب تخلیق کرنے ، نوجوان نسل کو مطالعہ کی طرف راغب کرنا حضرت موسیٰ کو آگ سے بچانے والے اس پرندے کی مانند ہے جو اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی بھر کر لاتا تھا اور حضرت موسیٰ کوجلانے والی آگ میں ڈالتا تھا کہ اس کا نام آگ لگانے والوں میں نہیں آگ بجھانے والوں میں لکھاجائے گا۔ تو لکھاری کا مقصد ہی کسی بہترین میگزین میں اپنا نام لکھنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد تو ’’ انداز بدلیں ……سوچ بدلیں‘‘ ہے۔ اس کوشش میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں یہ تو آپ ہی ہمیں بتا سکتے ہیں۔ اگرچہ ہماری کوشش اتنی بڑی نہیں ہے مگر ہمارا حوصلہ ، جذبہ جواں اور ہمت بے بیکراں ہے۔ ہم اس ناممکن کو ممکن کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے رہیں ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس کیلئے لکھاری کے مستقبل کے منصوبہ جات میں انشاء اللہ بہت اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔ لکھاری نیوز سیریز ادب میں صحافتی اقدار کو قلمکار کی صورت میں متعارف کروانے والی ٹیم کی ایک نئی کاوش ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ سب کی نیک خواہشات اور بہترین صلاحتیں ہمارے ساتھ ہوں گی ۔ انشاء اللہ ۔

لکھاری ٹیم

عاطر شاہین:

نام سے تو لگتا ہے کہ شاہین جیسے تیز ، عقابی نظریں ، شاطر قسم کے بندے ہوں گے ۔ مگر آپ کا خیال بالکل غلط ہے ۔ نہایت نفیس اور اس سے زیادہ صاف اور سادہ دل کے مالک سادہ سے انسان ہیں۔ ان کے زندگی میں دو شوق ہیں۔ پہلا شوق کہانیاں لکھنا اور دوسرا شوق بھی کہانیاں لکھنا ہی ہے۔ بل گیٹس کے بہت بڑے مداح ہیں۔ ارے نہیں اس لئے نہیں کہ اس کی کامیابی کی داستان سے متاثر ہیں بلکہ اس لئے کہ اس نے کمپیوٹر ایجاد کر کے ان کو لکھنے کی زحمت سے بچا لیا ہے ابھی یہ کہانی براہ راست اردو میں ٹائپ کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ کم وقت میں زیادہ کہانیاں لکھ سکتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو بہترین ادب ہمیشہ تکلیف زدہ ادیبوں نے تخلیق کیا کیونکہ وہ معاشرہ کی تلخ حقائق کو نہایت قریب سے دیکھ اور سہہ چکے ہوتے ہیں۔ عاطر شاہین بھی ایک ایسا ادیب ہے جس نے معاشرے کی بے حسی ، بے اعتنائی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کو اپنی کہانیوں میں ڈھال کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہا ہے۔ کہانیاں ہی ان کا اوڑھنا اور کہانیاں ہی ان کا بچھونا ہیں۔ ان سے ملاقات ہو جائے تو انہیں سامنے واے کو یقین دلانے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ وہی عاطر شاہین ہیں۔ پاکستان کے بچوں کے ادب میں اگربڑے ناموں کا تذکرہ کیا جائے تو پہلے دس لکھاریوں میں عاطر شاہین کا نام بھی شامل ہو گا۔ قلمکار کو نکالنے میں اور اب لکھاری کو نکالنے میں ان کا ساتھ بہت غنیمت ہے۔ اب تک تین ہزار سے زیادہ کہانیاں تخلیق کر چکے ہیں اور پاکستان کا کوئی ہی میگزین ایسا ہو گا جس میں ان کی کہانی شائع نہ کی ہو گی۔ ابھی آجکل عمران سیریز بھی لکھ رہے ہیں۔ جنگ گروپ کے ساتھ آجکل وابستہ ہیں۔


آصف رضا بلوچ:

اگر عاطر شاہین اور آصف رضا بلوچ کو ایک ساتھ دیکھ لیں تو جان لیں کہ یا تو وہ کچھ نیا منصوبہ بنا رہے ہیں یا پھر ایک دوسرے پر جملہ بازی کر رہے ہیں۔ آصف رضا بلوچ بچوں کے ادیب کے حوالے سے ملتان کا ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ نوائے وقت پھول اور کلیاں سے لکھنے کا آغاز کرنے والے آصف رضا بلوچ نے بہت جلد اپنے قلم اور کام کا لوہا منوا لیا۔ بنیادی طور پرکچھ منفرد کام اور منفرد تخلیق کرنے والا آدمی ہے۔ شاید اس لئے لکھنے کے جراثیم ہوتے ہوئے بجائے صحافت کو اپنی تعلیم اور ذریعہ معاش بناتا اکاؤنٹس میں گھس گیا اور آجکل اکاؤنٹس میں دماغ کھپا رہا ہے ۔ پانچ سو سے زائد کہانیاں تخلیق کرنے کے ساتھ دو مرتبہ نوائے وقت کے بہترین لکھاری آف دی ائیر کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔عاطر شاہین کے ساتھ مل کر قسط وار ناول بھی لکھ چکے ہیں۔ فکشن کراچی ، پھول ، پھول اور کلیاں میں لکھنے کے علاوہ عاطر شاہین کے ساتھ مل کر قلمکار جیسی کاوش کا اجراء اور اب لکھاری کا اجراء کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ پھول کلب کے زمانے میں پھول کہانی گھر کے صدر بھی رہے ۔ آجکل دبئی میں ایک کمپنی میں اکاؤنٹس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ مگر پاکستان کے ادیب اور ادب کی صورتحال پر ہر لحظہ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔


واجد ابرار:

واجد ابرار نام کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی شاعر سے ملاقات ہونے والی ہے مگر ان سے ملنے کے بعد بندہ سوچتا ہے کہ یہ بندہ ادیب ہے ، شاعر ہے ، فلاسفر ہے یا پھر کچھ اور۔ جس طرح پیاز کی کئی پرتیں ہوتی ہیں اس طرح واجد ابرار کی بھی کئی پرتیں ہیں۔ بنیادی طور پر آصف رضا بلوچ کے قریبی دوست ہیں۔ وجہ دوستی ادب اور ادیب ہی ہے۔ ایک ناول کتابی شکل میں مارکیٹ میں آچکا ہے ۔ معاشی مجبوری نے اٹلی میں رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے اور فیملی سمیت وہاں پر کافی عرصے سے مقیم ہیں۔ الفاظ کے چناؤ، جملوں کی بناوٹ اور شاعری کے انتخاب نے ان کے نام کو خاصا مقبول کیا ہے ۔ فیس بک پر ان کے گروپ پر تقریباً بیس ہزار کے قریب لوگوں کا ہجوم جمع ہے۔ لکھاری کے ساتھ ان کی وابستگی ان کی مزید سیکھنے اور کچھ اچھا کرنے کی لگن کی بنیاد پر ہے۔ ٹیڑھا کالم اس بات کا غماز ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرنے والے ہیں۔


محمد زبیر امین:

زبیر امین لکھاری میں ای سیکشن کے منتظم اعلیٰ ہیں۔ بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔ دو ٹوک بات کرنے والے اور منہ پر ہر بات کہہ دینے والے خوبصورت دل کے لڑکے ہیں۔ لڑکے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کبھی بڑے ہوں گے۔ آج سے دس سال پہلے جس طرح تھے ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ دوستوں کو پیزا کی دعوت دیتے ہیں اور زیادہ کھا خود جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بندے کی زبان پر بے اختیار ’’گھپلو‘‘ کا لفظ آجاتا ہے۔ یہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جنہیں لڑکیاں اپنا نمبر دے رہی ہوتی ہیں اور وہ شرم کے مارے لال ہو رہا ہوتا ہے۔اتنی کم عمری میں ویب کا معیاری اور لگن سے کام کرنا ہی ان کی کامیابی کی وجہ سے ۔ اس وقت ملک میں اور ملک سے باہر اپنا بزنس چلا رہے ہیں۔ ہر وقت کام کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ملتان میں پھول اور کلیاں میں لکھنے کا آغاز کیا اور بہت ہی اچھا لکھا۔ لکھنے کے شوق کو معاشیات نے اگرچہ دبا دیا تھا مگر لکھاری کو نکالنے کیلئے جن تین لوگوں نے فیصلہ کیا ان میں ایک نام زبیر امین کا ہے ۔ لکھاری کا نام بھی انہی کا مرہون منت ہے۔ دن میں رابطہ کرو تو فون نہیں اٹھاتے اور صبح کے تین بجے فون کر کے بتاتے ہیں کہ لکھاری کی ویب پر بینر اپ ڈیٹ کر دیا ہے چیک کر لیں۔


شاہان علی خان:

ان کا نام سن کر بندے کا دل کانپ جاتا ہے کہ بہت بڑے دبنگ ہوں گے اور بندہ ڈر کے مارے ان کا نام پوچھنے سے ڈرتا ہے مگر اصل میں ایک بار پھر آپ کا خیال غلط ہے ان کو دیکھ کر بندے کو لگتا ہے کہ اس بندے کو تو فلمی دنیا کا ہیرو ہونا چاہیے تھا۔ اگر فیس بک پر آپ کسی نوجوان لڑکے کو مختلف خوبصورت پوز بناتا دیکھیں اور اس کی تصویر کے پیچھے خوبصورت مناظر ہوں اور اس تصویر پر آپ کا شاہان علی خان کا نام بھی دکھائی دے تو سمجھ لیں کہ یہی شاہان علی خان ہیں۔ اتنی سنجیدہ بات بھی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سامنے والا شک میں پڑ جاتا ہے کہ کہیں مذاق تو نہیں کر رہا ہے ۔ ابھی تک کنوارے ہونے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ ان سے ملاقات پر سامنے والے کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ بھائی یہ واقعی شاہان علی خان ہیں مذاق نہیں کر رہے آپ سے۔ مگر لکھاری کا ہر کام بہترین انداز میں کرنے کے عادی ہیں۔ ڈیزائننگ میں جواب نہیں۔ لکھاری پر سوشل میڈیا کو سنبھالتے ہیں۔ لکھاری کے نام کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا فن بھی ان کے سر ہے۔ عنقریب لکھاری کے ایک اور شعبہ کو بھی سنبھالنے والے ہیں۔ پھول اور کلیاں میں لکھنا شروع کیا اور اس کے بعد پھول ، فکشن کراچی ار مختلف رسائل و جرائد میں اپنے قلم کا جادو جگایا۔ آج کل بطور گرافکس ڈیزائننگ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔


آصف اقبال صدیقی:

آصف اقبال صدیقی اگرچہ لکھاری نہیں ہیں مگر ان کی مطالعہ کی ذوق ، شاعری کا انتخاب اور ان کی لکھاریوں کے ساتھ منسلک ہونا ہی لکھاری کا حصہ بننے کیلئے کافی تھا۔ لکھاری کے پرنٹ ایڈیشن کی مکمل ذمہ داری ان کے سر ہے ۔ آپ تک لکھاری پہنچانے میں ان صاحب کا کردار نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ لکھاری کے سوشل میڈیا کوآرڈینیٹربھی ہیں۔ پھول کلب ملتان میں ان کو متعارف کروانے کا سہرا ایک بار پھر آصف رضا بلوچ کے سر ہے ۔ جنہوں نے اس جوہر کو پہچانا اور اس کے بعد اس شخص نے کمال کر دیا۔ اس وقت آصف اقبال صدیقی نے پھول کلب ملتان کے زیر اہتمام اتنی تقریبات کا اہتمام کیا کہ پھول کلب ملتان کا سال کا بہترین کلب کا ایوارڈ ملا۔ انتہائی فعال ،ملنسار، مہمان نواز اور فوری فیصلہ کرنے والے اور جو ذمہ داری لگا دی گئی اس کو بہترین اندا زمیں پورا کرنے والے شخص ہیں۔ پرنٹنگ کا بزنس کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے بعد بندہ سوچتا ہے کہ کل اس شخص کو دوبارہ ملنا چاہیے اور بندہ کل پھر ان کے پاس ہوتا ہے ۔ ان جیسے لوگوں کے ساتھ بندہ بیٹھ جائے تو ہمیشہ کچھ ایسا سننے کو یا پڑھنے کو ملتا ہے کہ بندہ کہتا ہے کہ بہت اچھا ۔


شہزاد الطاف ثانی:

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ثانی تخلص کرتے ہیں مگر یہ ثانی ہے کون یہ کوئی نہیں جان پایا ۔ نفیس آدمی ہیں۔ اگرچہ تھوڑے سے سنجیدہ آدمی ہیں ۔ دیکھنے میں لگتا ہے کہ آدمی غصہ میں ہے اور یقینا کوئی غصے والی بات کرے گا مگر ہوتا اکثر اس کے الٹ ہوتا ہے۔ پھول اور کلیاں میں لکھنے کے علاوہ شاعری کے حوالے سے بہت اچھا انتخاب ہے ۔ خود بھی شعر کہتے ہیں مگر ان میں کبھی کبھی سامنے والے کو دو چار وزن کے باٹ فزیکلی ڈالنے پڑتے ہیں۔ لکھاری میں شعروشاعری کا شعبہ دیکھیں گے۔ ایم اے انگلش کے طالب علم ہیں اور مستقبل کے بہترین منصوبہ جات ان کی انکھوں میں جگمگا رہے ہیں۔

انجینئر یاسر عباس بلوچ:

یاسر عباس بلوچ جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ آصف رضا بلوچ کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے اپنے بھائی کے متاثرین میں شامل ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی لکھنا شروع کیا اور پھول اور کلیاں میں بہت خوب لکھا۔ قلمکار میں ایک بار زبیر امین کا کارٹون بنا کر اس کو امر کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ ان کارٹونز پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا کیونکہ کسی کو سمجھ بھی نہیں آئی کہ یہ کارٹون ہیں یا کوئی تجریدی آرٹ کا نمونہ ۔ لکھنا کافی عرصہ سے چھوڑ رکھا ہے اور تعلیم میں پوری طرح دلچسپی لے رکھی ہے ۔ بہترین سٹوڈنٹ رہنے کی وجہ سے سکول ، کالج ، یونیورسٹی میں بہت نام کمایا۔ حال میں اپنی انجیئرنگ کی ڈگری مکمل کی ہے ۔ کیرئیر کونسلنگ کا شعبہ میں بہترین معلومات رکھتے ہیں۔ پہلے پہل اتنے فون آتے تھے اس کے بعد اس کو ملنے والے اتنے لوگ ہو گئے گھر والوں کو شک ہو گیا کہ کہیں اس نے چپکے سے شادی تو نہیں کر رکھی یا پھر کسی سے شادی کا وعدہ کر کے کوئی فراڈ تو نہیں کر رہا ۔ بعد میں یہ واضح ہوا کہ محلے کے علاوہ چار محلے تک ان کی شہرت کیرئیر کونسلنگ یا بچے کو میٹرک کے بعد کونسا مضمون پڑھنا چاہیے کے حوالے سے ہے۔ لکھاری کیلئے مضمون بھیجا تو ساتھ میں تاکید بھی کی کے میرے نام کے ساتھ انجینئر کا لفظ ضرور لکھنا ہے۔

 

رابطہ کے لیئے یہاں کلک کریں۔