ہم کب سدھریں گے

آپ MAYANکی پروفائل اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میںآپ ایک چیز بڑی تواتر سے ملے گی ۔ محنت اور لگن ۔ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی بنا پر کوئی بھی انسان چاہیے وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ پڑھا لکھا ہو وہ ترقی کر سکتا ہے ۔ اگرآپ کے اندر محنت کرنے کی سکت اور اپنے مقصد کی لگن ہے تو دنیا کی ساری طاقتیں آپ کو کامیابی کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں گی ۔ ما ین چین کے عام نوجوانوں کی طرح ایک عام نوجوان تھا مگر اس نوجوان میں محنت اور اپنے مقصد کی لگن موجود تھی ۔ اس کی اندر کی آگ اسے کچھ کرنے پر مجبور کرتی تھی۔اسے معلوم تھا کہ اگر اسے دیوار چین عبور کرنے ہے تو اسے انگلش زبان پر عبور ہونا چاہیے ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ انگلش کو پڑھ تو رہا تھا مگر وہ انگلش ایسی ہی تھی جیسے ہمارے ہاں کالج کے لڑکوں کی انگلش ہوتی ہے ۔ اس یہ بات سمجھ آئی کہ اگر اسے پروفیشنل طریقے سے کام کرنا ہے تو اسے انگلش زبان کی پریکٹس کرنی پڑے گی۔ اس کیلئے اس نے بڑا دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ اس کے گھر کے کچھ دور ایک ہوٹل میں غیر ملکی نوجوانوں کا ایک گروپ اکٹھا ہوتا تھا اس کی خبر ماین کو ہوئی تو وہ اپنی بائیک اٹھا کر اس ہوٹل پہنچ جاتا اور ان میں سے کسی ایک کو شہر کی مفت سیر کرنے کی دعوت دیتا تھا۔جو ان انگلش بولنے والوں کیلئے ایک نعمت ہوتی تھی ۔ چنانچہ وہ ماین کے ساتھ شہر کی سیر بھی کرتے تھے اور اس کے ساتھ انگلش میں بات چیت بھی کرتے ۔ اس طرح ماین کی انگلش مضبوط ہوتی تھی ۔ یہ کام اس نے نو سال مسلسل محنت اور بغیر کسی شکوہ اور بغیر کسی تھکاوٹ کے کیا۔ جلد ہی وہ اس گروپ کے ساتھ انگلش لکھنے میں شریک ہو گیا جلد ہی وہ ان کا قلمی دوست بھی بن گیا اور وہ جہاں بھی جاتے تھے ماین کو خطوط لکھتے تھے ۔ انہوں نے اس کا نام جیک ما رکھ دیا کیونکہ وہ ماین کا چینی نام صحیح طریقے سے بول نہیں سکتے تھے ۔
اپنے انگلش کے جنون کی وجہ سے ماین کو اپنی تعلیم میں بہت مار کھانی پڑی ۔ چین میں سال میں صرف ایک بار امتحانات ہوتے تھے جس کی وجہ سے ماین کو کالج کا امتحان پاس کرنے میں چار سال لگ گئے اور آخر کار وہ 1988ء میں اپنی بیچلر ڈگری انگلش کے مضمون کے ساتھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ اسی یونیورسٹی میں بطور انگلش لیکچرر بھرتی ہو گیا اور ساتھ ساتھ میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور 2006ء میں وہ گریجویٹ کی ڈگری پاس کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
ماین کا خیال تھا کہ گریجویشن کی ڈگری اس کی کایا پلٹ ڈالے گی اور وہ راتوں رات ہی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا مگر جب زندگی کی تلخ حقیقتوں نے اس کے سامنے اپنے پر کھولنے شروع کئے تو اسے اندازہ ہو گیا کہ زندگی اتنی آسان نہیں ہے جتنی وہ اسے سمجھ بیٹھا تھا۔
گریجویشن کے بعد اس نے نوکری کی تلاش شروع کر دی ۔ اس نے پولیس میں بھرتی کیلئے اپلائی کیا تو انہوں نے کہا کہ تم کام کیلئے مناسب آدمی نہیں ہو۔ مشہور فوڈ چین کے ایف سی اس کے شہر میں ملازمین رکھنے کیلئے آئی ۔ چوبیس نوجوانوں نے اس انٹرویو میں حصہ لیا۔ تیئس نوجوان کامیاب ہو گئے اور ایک وہی تھا جسے انہوں نے فیل کر دیا۔ اس نے دس مرتبہ ہاروڈ یونیورسٹی میں بھی اپلائی کیا مگر ہر بار اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس
نے ہمت نہ ہاری۔ اس طرح اس نے تقریباً 30کے قریب مختلف جابز کے انٹرویو دیئے مگر کسی بھی اس کو کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔
1995ء میں اس کا ایک دوست اس پر ترس کھا کر اسے اپنے ساتھ امریکہ لے گیا ۔ جہاں پر وہ پہلی بار انٹرنیٹ سے آشنا ہوا۔ یوں وہ انٹرنیٹ کا کیڑا بنتا چلا گیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جب بھی وہ انٹرنیٹ پر کچھ سرچ کرتا تو دنیا بھر سے اس چیز کے بارے میں معلومات دستیاب ہوتی تھیں مگر کوئی بھی معلومات چین کی طرف سے موجود نہ تھیں۔ اس نے اپنے دوست کی مدد ایک چین کی بے کار قسم کی ایک سائٹ بنا ڈالی ۔ جیسے ہی اس نے سائٹ لانچ کی تین گھنٹے کے اندر اندر چین کے لوگ اسے جاننا شروع ہو گئے اور اس کے بارے میں مزید جاننے کے خواہاں تھے۔ یہاں سے ماین کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔
اس نے اپنی بیوی اور اپنے دوست کو ساتھ ملایا اور انہوں نے کمپنیوں کیلئے ویب سائٹ بنانے کا کام شروع کر دیا۔ پہلے تین سال میں اس کی کمپنی نے آٹھ لاکھ امریکی ڈالر کا کام کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ماین کی کوشش کی تھی وہ چائینز کمپنیوں کیلئے بھی کام کرے مگر کوئی چائینز کمپنی اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھی کہ ویب سائٹ کی مدد سے وہ کوئی بزنس بھی کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ماین نے کمپنیوں سے کئی دوستوں کو اپنے گھر دعوت دی اور پہلی بار انتہائی سست رفتار انٹرنیٹ کنکشن پر اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ویب سائٹ دکھائی ۔ تب جاکر اس کے دوستوں کو اس بات کا یقین ہوا کہ انٹرنیٹ کا بھی وجود ہے ۔
1999ء میں وہ اپنے گھر واپس لوٹا اپنے18 دوستوں کو ساتھ ملایا اور علی بابا کی بنیاد رکھ دی ۔جو ایک ویب بیسڈ خریداری کا مرکز ہے ۔ 1999ء سے جنوری 2000تک اس کی کمپنی نے دو بار 25ملین ڈالر کا ہدف عبور کر لیا۔ مشہور ای کامرس کمپنی ای بی نے اسے خریدنا چاہا مگر ماین نے اس کو مسترد کر دیا۔ یہ ماین کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھی کہ جب 2014ء میں نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں علی بابا کے شیئر فروخت کرنے کیلئے پیش کئے گئے تو وہ دنیا میں سب سے مہنگی ٹیکنالوجی کمپنی تھی ۔ نومبر2012ء میں علی بابا کی آن لائن ٹرانزیکشن ایک ٹریلین سے بھی بڑھ گئیں۔
میں جب ماین کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہے کہ یہ وہ آدمی ہے جس نے پہلی بار 33سال کی عمر میں کمپوٹر کو ہاتھ لگایا تھا۔ اس نے خود آج تک کوئی بھی چیز کسی صارف کو نہیں بیچی ۔ اس نے آج تک خود کوئی ویب کا کوڈ نہیں لکھا کیونکہ یہ چیزیں اسے معلوم ہی نہیں ہیں۔ مگر وہ آج دنیا بھر کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں نوجوانوں کو کاروبار اور کامیابی کے گر بتاتا ہے ۔ میں حیران ہوتا ہوں جب میں ماین کو دیکھتا ہوں اور پھر میں اپنے پاکستان کو دیکھتا ہوں ۔ جس میں کل ایک باپ نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اپنے چار بچوں کو زہر دے دیا اور خود بھی زہر کھا لیا۔ مجھے کوئی یہ بات سمجھائے کہ اگر ماین ایک معمولی نوجوان ہو کر بھی وہ اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم کیوں محنت سے گھبراتے ہیں۔ اپنے مقصد سے لگن کیوں نہیں رکھتے۔پھر مجھے کہیں دور سے جواب آتا ہے کہ شاید ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہی نہیں چاہتی ۔ ہم شاید ترقی کرنا ہی نہیں چاہتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو ایک جیسا وقت ، ایک جیسا دماغ دیا ہے جس کے بل بوتے پر آج انسان مریخ پر اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے اور ہم ابھی بریانی کی پلیٹ سے ہی باہر نہیں آسکے ہیں۔ ہم کب سدھریں گے ۔۔۔!!

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.