ہوتی ہے ترے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
ترے قریب رہ کر بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تری ضرورت کبھی کبھی
……ناصر کاظمی……
ہوتی ہے ترے نام سے وحشت کبھی کبھی
0
POST A COMMENT.