معروف لکھاری ، افسانہ نگار مریم جہانگیرکی ’’لکھاری‘‘ سے گفتگو

ملاقات
2.2K
2

قارئین: مریم جہانگیر کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ یہ ٹیچر ہیں اور بچوں اور بڑوں کے لئے کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔ حال ہی میں انہیں گولڈ میڈل بھی ملا ہے۔ آپ کی دلچسپی کے لئے مریم جہانگیر کا انٹرویو کیا ہے جو حاضر خدمت ہے۔
سوال۔آپ کا اصل نام
جواب۔مریم جہانگیر
سوال۔آپ کا قلمی نام
جواب۔مریم جہانگیر ہی ہے۔
سوال۔ گھر والے پیار سے کیا پکارتے ہیں؟
جواب۔بہنیں پیار سے مریاں بھی کہہ کر بلاتی ہیں۔میرے بہنوئی میری کہہ کر بلاتے ہیں۔
سوال۔کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کا نمبر کون سا ہے؟
جواب۔ہم چھ بہنیں ہیں میرا نمبر پانچواں ہے۔
سوال۔ ادب کی دنیا میں آمد کب اور کیسے ہوئی۔
جواب۔بچپن سے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔سکول کے سامنے ایک کتابوں کی دکان تھی جہاں سے پانچ روپے یومیہ کرائے پہ کتابیں اور رسالے ملا کرتے تھے۔ماما کے لئے ڈائجسٹ لے کر آتی تو اپنے لئے بھی بچوں کے رسائل لانے لگ گئی۔آنکھ مچولی جو کہ اس وقت لاہور سے شائع ہورہا تھا اپنے دلچسپ سلسلوں کی وجہ سے میرا پسندیدہ بن گیا۔کہانیاں پڑھتے پڑھتے مجھے لگا کہ میں کہانی لکھ بھی سکتی ہوں۔پانچویں چھٹی جماعت کی بات تھی کہ کہانی بھیجی اور شائع ہوگئی۔بس پھر کیا تھا،سلسلہ چل نکلا۔یہ بچوں کے ادب میں آمد کی یادیں ہیں۔
سوال: کبھی سوچا تھا کہ آپ لکھاری بن جائیں گی؟
جواب :پڑھتے ہوئے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں بڑوں کی کہانیاں ،افسانے وغیرہ بھی کبھی لکھ سکوں گی البتہ کالمز لکھتی رہی۔کالج میگزین کے لئے دو چار افسانے لکھے جو شائع ہوئے۔تک بندی والی بے شمار غزلیں اورآزاد نظمیں لکھیں۔ اپنے تئیں میں شاعرہ تھیں ۔جب وزن اور بحروں کے چکر میں پڑی تو شاعری سے فورا ہاتھ جھاڑے۔اپنا کالج میگزین میں شائع ہواافسانہ زندگی قتل گاہ فیس بک کے ادبی فورم عالمی افسانہ فورم میں دیا تو سینئیرز نے بہت تعریف کی۔وہاں سے ہمت بندھی اور اب میں آپ کے سامنے ہوں۔
سوال۔جب آپ ادب کی دنیا میں آئیں اس وقت ادب کیسا تھا اور آپ کی نظر میں آج کا ادب کیسا ہے؟
جواب۔بچوں کا ادب اس وقت تخلیقی لحاظ سے اتنا متنوع نہیں تھا جتنا آج ہے لیکن آج کل کے بچے کتابوں سے دور ہو گئے ہیں۔اس وقت بچے کتابیں ضرور پڑھتے تھے یعنی سو میں سے ستر لوگ مارے باندھے پڑھ ہی لیا کرتے تھے۔اب سو میں سے دس پندرہ ہی غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرنے والے ہیں۔وجہ ٹیکنالوجیکل انقلاب ہے۔ اس وقت بڑوں کے ادب میں بھی بے لاگ کتابیں لکھی گئیں۔جن میں ثہاب نامہ،پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک جیسی کتابیں شامل ہیں۔اب ادب میں مونولاگ باقی ہے لیکن وہ بھی بے لاگ نہیں ہے۔اگر فکشن کی بات کی جائے اس میں نت نئے تجربے ہورہے ہیں۔ان کا سحر پڑھنے والوں پہ اب بھی غیر مشروط طور پر طاری ہے۔ادب میں تب سے اب تک ایک چیز جو ں کی توں ہے اور وہ ہے ادیب کی ناقدری! ۔فنون ،ادبِ لطیف اور اکادمی ادبیات میں چھپنے والا ادیب پبلشرز کے پاس دھکے کھا رہا ہے۔
سوال۔کیا بچوں کے لئے ادب ضروری ہے۔
جواب۔صرف ضروری؟ بہت ضروری ہے!
سوال۔ کیا آپ صرف مزاحیہ ادب تخلیق کرتے ہیں یا سنجیدہ بھی لکھا۔
جواب۔ہیں ؟ میں نے ایک بچوں کی مزاحیہ کہانی لکھی اور کالج کے زمانے میں ایک تحریر مزاحیہ لکھی۔اس کے علاوہ سب سنجیدہہی لکھا۔دوسروں کو ہنسانا بلاشبہ بہت مشکل کام ہے۔ اتنے غم زمانے میں بال کھولے بین کرتے نظر آتے ہیں کہ رلانا آسان ہے۔
سوال۔آج انٹر نیٹ کا دور ہے اور قارئین ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ آپ اس بار ے میں کیا کہتی ہیں۔
جواب۔جو پڑھنے والے ہیں وہ سوشل میڈیا میں بھی اسی شغل میں مصروف ہیں۔
سوال۔ ادب کی دنیا میں منافقت کیوں ہے؟
جواب:ادب کی دنیا میں بھی انسان ہی بستے ہیں۔وہ خلائی مخلوق تو ہیں نہیں ۔انسان کے اندر شر اور خیر دونوں کا مادہ موجود ہے سو منافقت تو ملے گی۔
سوال۔کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
جواب:فی الحال ایک ہی کتاب ’’ بچوں کی سبق آموز اور دلچسپ کہانیاں ‘‘
سوال۔ آپ کا رول ماڈل کون ہے۔
جواب۔رو ل ماڈل۔مشکل سوال ! بحیثیت مسلمان لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ۔زندگی میں رول ماڈل کے طور پر بہت سے لوگوں کے بت بنائے۔وقت کے ساتھ کچھ میں دراڑ آگئی۔کچھ مکمل پاش پاش ہوگئے۔ابھی بھی کچھ باقی ہیں۔ اپنے بڑے ابو جیسی جدوجہد کرنا چاہتی ہوں،ابو جیسی سخی ہونا چاہتی ہوں ،ماما جتنی صابر ہونا چاہتی ہوں،بڑی بہنوں جتنی فرمانبردار ہونا چاہتی ہوں۔ایک اچھا انسان بننے کی خواہش خواہش ہی رہ گئی اور عمر بیت گئی۔
سوال۔کس لکھاری سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا؟اب جو بچوں کا ادب تخلیق ہو رہا ہے آپ کی نظر میں کیسا ہے۔
جواب۔کسی لکھاری سے متاثر ہو کر لکھنا نہیں شروع کیا۔ متنوع اور تخلیقی ادب ہے۔بچوں کے ادب میں اب تحقیق کر کے لکھا جارہا ہے۔
سوال۔ادیب کو ادب تخلیق کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
جواب۔معاشرے کی عکاسی کرے،مثبت پیغام ہو،حق ہو اور چربہ نہ ہو۔
سوال: شعر و شاعری سے بھی شغف ہے۔ کس کی شاعر ی پسند ہے۔
جواب۔جی ۔اب پڑھنے کی حد تک ہے۔اقبال اور غالب کا اپنا اپنا مقام ہے۔پروین شاکر کی شاعری پسند ہے۔عصرِ حاضر میں دانیال طریر،شاہ زیب نوید کی شاعری پسند ہے۔
سوال۔آپ کو کتنے ایوار ڈ مل چکے ہیں۔
جواب۔ایوارڈ تو نہیں البتہ اسناد ملی ہیں۔
سوال۔ادبی دنیا کا کوئی خوبصورت واقعہ۔
جواب۔ششم جماعت میں آنکھ مچولی کے مدیر ڈاکٹر رضوان ثاقب میرے گھر آئے تھے۔ وہ دن آج بھی یاد میں تازہ ہے۔ڈرامہ نگار عرفان مغل نے اپنے ایک انٹرویو میں میرے طرزِ تحریر کی تعریف کی تھی جبکہ میں انہیں جانتی بھی نہیں تھی۔سر محمود ظفر اقبال ہاشمی نے اپنے ناول مین جناح کا وارث ہوں کا فلیپ مجھ سے لکھوایا جو بلا شبہ اعزاز ہے۔
سوال۔کوئی برا واقعہ؟
جواب۔برا واقعہ تو نہیں البتہ براتجربہ ضرور ہے۔ اپنے افسانے شروعات میں اعزازئیے کے بغیر شائع کروائے۔
سوال۔ آپ کے بچپن کی کوئی خوبصورت بات؟
جواب۔بچپن تو سارا ہی خوابصورت ہے۔
سوال۔شادی شدہ ہیں؟
جواب۔نہیں ۔
سوال۔کوئی ایسا کام جس پر آف کو فخر ہو۔
جواب۔الحمدللہ دو دفعہ گولڈ میڈل لینا میرے اور میرے والدین کے باعثِ افتخار بنا۔
سوال۔ آپ کا پسندیدہ میوزک۔
جواب۔موڈ پہ منحصر ہے۔
سوال۔فلمیں کون سی دیکھتی ہیں۔ انڈین، پاکستانی یا انگلش۔
جواب۔ہارر کے علاوہ سب دیکھ لیتی ہوں۔
سوال۔دوست بنانا پسند کرتی ہیں؟
جواب۔جی میرا حلقہ احباب شروع سے وسیع ہے۔
سوال۔کھانے میں کیا پسند ہے؟
جواب۔چاول چاہے بریانی ہویا پلاؤ ۔ابلے بھی چل جاتے ہیں۔
سوال۔سواری کون سی پسند ہے؟
جواب۔جو بھی سواری ہو بس اپنی ہو۔
سوال۔ سفر کرنا پسند ہے یا نہیں، اگر سفر کرنا پڑے تو کہاں جانا پسند کریں گے۔
جواب۔بہت پسند ہے۔ناران کاغان۔
سوال۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ زندگی میں صرف پانچ چیزیں رکھنی ہیں تو کون سی چیزیں رکھیں گی؟۔
جواب۔نماز،رشتے،سچائی،عاجزی اور محبت۔
سوال۔ آپ کا کوئی تکیہ کلام؟
جواب۔ہائے اللہ!، حد ہوگئی ۔
سوال۔زند گی کا مشن کیا ہے؟
جواب۔کوئی مشن نہیں۔
سوال۔ کس استاد نے زندگی اور بعد از زندگی پر اثر ڈالا؟
جواب۔میم ارجمند اور میم مدثرہ
سوال۔ وہ کون سا لمحہ تھا جس میں آپ نے زندگی کو بہتر انداز سے سمجھا؟
جواب۔شاید زندگی کے بائیس سال گزارنے کے بعد زندگی کی سمجھ آنا شروع ہوئی۔
سوال۔اگر آپ کو ملک کا ایک دن کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو آپ پہلا کام کیا کریں گے؟
جواب۔وزراء کی تنخواہ کم کر کے عوام کی فلاح و بہبود پہ لگاؤں گی۔
سوال۔اگر آپ کا کبھی ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ جائے تو ڈر کر اپنا پرس دیں گی یا ان سے مقابلہ کریں گی؟
جواب۔پرس دے دوں گی۔
سوال۔ آپ نے ٹیچنگ کا پروفیشن کیوں منتخب کیا؟
جواب۔ٹیچنگ ایک معزز پیشہ ہے۔بچیوں کو ایک مینٹور کی ضرورت ہوتی ہے۔میں ٹیچر سے ذیادہ اپنے بچوں کی مینٹور بننے کی کوشش کرتی ہوں۔
سوال۔ بچپن میں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتی تھیں؟
جواب۔کبھی سوچا ہی نہیں !
سوال۔ فارغ اوقات میں کیا مشاغل ہوتے ہیں۔
جواب۔پڑھنا ،لکھنا اور لیٹے رہنا ! بہت کم فلم بھی دیکھ لینا۔
سوال۔ زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز کو قیمتی تسلیم کرتی ہیں؟
جواب۔والدین۔ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نہ ان کی دعاؤں کا اور نہ ہی محبت کا۔
سوال۔ کوئی ایسی چیز جس سے زندگی میں خوف محسوس ہوتا ہو؟
جواب۔خوف ۔۔۔آگ سے!
سوال۔آپ کی سب سے مضبوط شخصی خوبی کیا ہے؟۔
جواب۔فیصلہ کرنے کی طاقت اور اعتماد!
سوال۔زندگی کا وہ لمحہ جس سے شرمندگی محسوس ہوئی ہو؟
جواب۔الحمدللہ ابھی تک تو نہیں ۔اللہ جی آگے بھی یونہی عیوب کو ڈھکا رکھیں۔آمین!
سوال۔ آپ کیسی طبیعت کی مالک ہیں، غصیلے یاسادہ مزاج؟
جواب۔سلام دعا والوں کے ساتھ سادہ مزاج اور بہت ہی زیادہ قریبی لوگوں کے ساتھ غصیلی۔ویسے پہلی ملاقات میں غصیلی ہی لگتی ہوں۔
سوال: غلطی کرنے والے کو معاف کر دیتی ہیں یا سز ا د یتی ہیں؟
جواب: میرے خیال میں سزا بس خود کو دی جاتی ہے۔
سوال۔ کوئی ایسی قابلیت جسے سیکھنے کی خواہش ہو۔
جواب۔کوئی خاص نہیں ۔
سوال۔آپ کے دوست آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔
جواب :یہ تو سہیلیاں ہی بتا سکتی ہیں۔
سوال۔اپنی شخصیت کا احاطہ ایک فقرے میں کریں۔
جواب۔کانچ سے جذبات لئے پتھر لڑکی ہوں۔
سوال۔ایسا کوئی کام جو آپ کو کہا جائے اور آپ نہ کریں۔
جواب۔جس بھی چیز پہ میرا دل نہ مانتا ہو وہ کام میں نہیں کرتی۔
سوال۔ادب کی دنیا میں مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب۔صرف افسانے لکھنے ہیں کچھ!
سوال۔ کوئی پیغام
جواب۔خوش رہیں۔دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش نہ کریں۔ ایک انسان سب کو خوش نہیں رکھ سکتا۔اتنی کوشش ضرور کریں کہ دوسروں کو دکھ نہ دیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.