ایسی بھی ایک عید

کاشی چوہان

رمضان کے چاند کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا تھا۔ آفس میں سب ہی کو جلدی تھی‘ جلد از جلد کام سمیٹیں اور گھروں کو دوڑ لگا دی جائے۔میں کوئی بھی کام عجلت میں کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ بھئی‘ کل روزہ ہے تو ہے۔ گھر جانا ہے تو جانا ہے۔آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ لیٹ پہنچ کر بھی تو گھر ہی جانا ہے اور بھلا کہاں؟ مگر خیر جناب‘ چھوڑیے ان باتوں کو‘ان باتوں میں کیا رکھا ہے‘ میں بھی ظاہر ہے‘اس وقت کام سمیٹو‘ہڑبونگ والے ماحول کا حصہ تھامگر عادت۔۔۔ میں نے آرام سے اپنے کیبن سے فائلوں کا ڈھیر مہر علی کے ہاتھوں اسٹور میں پہنچوایا اور پھر تسلی سے اپنا بیگ چیک کر کے موبائل کوکوٹ کی جیب میں رکھا اور پھر گھڑی کی سوئیوں کے آگے سرکنے کا انتظار کرنے لگا۔
*۔۔۔*
آفس سے گاڑی تک کا فاصلہ اپنے ہی ساتھیوں کو دلچسپی سے دیکھنے میں طے ہوا تھا۔کار میں بیٹھا تو اے سی آن کرکے معمول کی طرح F.M. on کردیا۔ کوئی کالر لائن پر تھا۔ کار اسٹارٹ کرکے میں دلچسپی سے کال سننے لگا تھا۔
’ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے

تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے
تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے

ہماری روح پہ جب بھی عذاب اتریں گے
تمہاری یاد کو اس دل کی ڈھال ہونا ہے‘
میں نے جلدی سے ریڈیو آف کردیا۔ اے سی کے باوجود ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ میری کیفیت عجیب سی ہونے لگی تھی۔
تمہیں خبر ہی نہیں۔۔۔
تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے
اور۔۔۔ یہ غزل‘ یہ بول مجھے کہاں لیے جا رہے ہیں؟ دل سنبھل ہی نہیں رہا ہے‘ گاڑی بھی بالکل عین اسی جگہ پر آن رکی ہے جہاں سے یہ سلسلۂ روح افزا قائم ہوا تھا۔میں گاڑی سے اترا اور پھر اچانک ایک اَن دیکھا‘ غیرمرئی وجود میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ یہ وہی گول پارک ہے جہاں اس دل میں بسی یادوں کا الگ ہی کارواں آباد ہے۔غیرمرئی ہاتھ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے تھامے پارک کے اندر آگیا۔
*۔۔۔*
’’میں آج بڑی مشکل سے آئی ہوں پارس ۔۔۔‘‘
’’عشمہ۔۔۔بس دُعا کرو۔۔۔انشاء اللہ‘اس رمضان ہی میں آنی کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔‘‘
’’پارس۔۔۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے‘ اگر اماں بی نے انکار کردیا تو؟‘‘
اس کے واہمے جو دل میں ہمکے تو سارا خون خشک ہوگیا اور اس کے چہرے کی سفیدی دیکھ کرمجھے اس کے سوچنے کے عمل کی گہرائی پر تھوڑا غصہ بھی آیا تھا۔
’’عشمہ۔۔۔تم یہ بتاؤ‘ یونہی اگر گھبراہٹ میں سفید پڑتی رہیں تو۔۔۔ مجھے لگتا ہے‘ یہ ڈر اور خوف اور خود سے نتیجے اخذ کرنا کہیں کوئی نقصان ہی نہ کر دے۔‘‘
میں بھلا اپنی زندگی کو اس طرح کیسے دیکھ سکتا تھا؟ فوراً اندر کی بات زبان پر لے آیا۔
’’پارس۔۔۔آئی نو‘یو آر رائٹ‘بٹ واٹ کین آئی ڈو؟ میں اماں بی کو جانتی ہوں‘ وہ بہت سخت مزاج ہیں۔ جانتے ہو نا‘ بابا جان کی صرف ایک غلطی‘ وہ غلطی بھی کہاں تھی پارس‘جب انسان۔۔۔‘‘
’’عشمہ۔۔۔عشمہ۔۔۔یار‘ میں جانتا ہوں‘ پر تم بالکل بھی مت گھبراؤ۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر بولا تھا۔
’’پارس‘ اس مرتبہ کیا میں واقعی عید تمہارے ساتھ مناؤں گی؟ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔‘‘
اور پھر آوازیں ہی آوازیں۔۔۔
میں اس گول پارک کی سرسبز فضا میں ان آوازوں کی تتلیوں کے تعاقب میں کتنی ہی دیر تک گھات لگائے بیٹھا رہا۔
مگر یادوں کی تتلیاں میرے ہاتھوں میں رنگ چھوڑکر اڑ گئی تھیں۔
میں جیسے کسی خواب سے باہر آیا تھا۔
باہر کی گہماگہمی عروج پر تھی۔رمضان کی آمد نے اور پھر مہنگائی کی بلاخیزی نے لوگوں کو خود سے بیگانہ کر دیا تھا تو پھر میری جانب کیا توجہ دیتے؟میں اپنے یادوں کی راکھ اڑاتے دل کو کچھ دیر تک تھپکتا رہا اور پھر واپس کار میں آگیا۔ یہ یادیں بھی تو کیسی قیمتی ہوتی ہیں‘ کسی بھی وقت اپنے حصار میں لے کر اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کرہی دیتی ہیں۔ یہی یادیں تو زندگی کی ایک انمول خوشی ہوتی ہیں۔
*۔۔۔*
اور پھر کل سے رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینہ شروع ہوگیا۔ میرے لیے رمضان رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ساتھ یادوں کی جادونگری کا دروازہ بھی کھول دیتا ہے۔ ایک ایک کرکے ساری یادیں عشمہ بن جاتی ہیں‘ عشمہ میری زندگی۔۔۔
اس رمضان میں بڑی سخت سردیاں تھیں۔دن کے وقت پھیکی پھیکی دھوپ تھوڑی دیر کے لیے منڈیروں پر چمک کر غائب ہو جاتی تھی‘ روزوں کا بھی الگ ہی سرور تھا اور پھر اس رمضان میں ایک فیصلہ بھی تو ہوگیا تھا لیکن وہ ہمت ہی مجتمع نہیں ہورہی تھی کہ آنی سے بات کروں۔ ایک دن افطار کے بعد جب سردیوں کی رات آہستہ آہستہ اپنا ڈیرا جما رہی تھی۔ آنی اپنے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
میں دبے پاؤں ان کے قریب چلا آیا۔آنی کی آنکھیں میری طرف اٹھیں۔
’’آؤ بیٹے!کیسے آج اس دکھیا کی یاد آگئی؟‘‘
’’آنی۔۔۔آپ۔۔۔دکھیا۔۔۔کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ خدا نہ کرے‘ آپ کو کوئی دکھ ملے۔‘‘میں نے ان کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا۔
’’اچھا۔۔۔بڑے فرمانبردار ہو نا جیسے میرے۔۔۔‘‘آنی نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’کیوںآنی!کیا گستاخی کی ہے میں نے؟‘‘ میں روٹھا۔
’’اچھا تو یہ تو بتاؤ‘کب تک میں ان گونگی دیواروں سے باتیں کرتی رہوں گی؟ کب تک؟ آخر شادی کرکے میرے لیے تھوڑی سی خوشیاں کیوں نہیں لے آتے؟‘‘آنی کے سپنے بول رہے تھے۔
’’آنی۔۔۔!ویسے ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟ اگر آپ کہتی ہیں تو۔۔۔‘‘
’’سدا جیو!لگتا ہے‘ یہ اسپیشل دورہ اسی لیے کیا ہے جناب نے‘ جلدی سے بتاؤ‘ کون ہے وہ؟‘‘آنی نے میرے کان کو مروڑا۔
اور پھر عشمہ کے ساتھ ساری دل بستگی میرے اندر سے باہر امڈ آئی تھی۔
’’ہوں۔۔۔تو یہ ہے سارا قصہ‘تم جانتے ہو‘ تم نے جس لڑکی کو پسند۔۔۔‘‘میں نے بات کاٹی۔
’’عشمہ۔۔۔ عشمہ نام ہے اس کا۔‘‘
’’ارے‘ابھی سے اتنی سائیڈ لی جا رہی ہے؟ جب آجائے گی تو۔۔۔‘‘
’’آنی!جب آجائے گی تو پھر تو آپ ہی کی ہو گی نا۔‘‘
’’ہاں تو میرے بچے۔۔۔!عشمہ۔۔۔اگر میں جسے سمجھ رہی ہوں‘ علی آفندی کی بیٹی ہوئی نا؟ تو سمجھو‘ اسی عید پر تمہارے سرپر سہرا ہوگا۔‘‘
’’آنی۔۔۔!کیا آپ ان لوگوں کو جانتی ہیں؟‘‘ میرا تجسس جاگا۔
’’آئی تھنک پارس‘میں ان کو اس وقت سے جانتی ہوں جب وہ علاقے میں نئے نئے آئے تھے۔میں علی آفندی کی دل سے قدر کرتی تھی کیونکہ بیٹے! ایسے caringاور حساس لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں اور جانتے ہو‘ایک غلط فہمی جو انجانے میں مسز علی آفندی کو ہوئی تھی۔ اس نے اس ہنستے بستے گھرانے میں ایسی دراڑ ڈالی کہ پھر شاید بہار بھی اس گھر کا رستہ بھول گئی۔‘‘آنی نے عینک اتارکرٹشو سے صاف کی۔
میرا سر اب بھی ان کی گود ہی میں تھا اور میں بے قراری سے عشمہ کے والدین کے بارے میں آنی سے سن رہا تھا‘ بولا۔
’’پھرآنی! وہ کیا بات تھی‘ بتائیں نا پلیز۔۔۔‘‘
’’بیٹے۔۔۔!یہ جو زندگی ہے نا‘بڑے رنگ دکھاتی ہے انسان کو۔‘‘علی آفندی کی ایک کزن بھری جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ علی اوران کی آپس میں بہت زیادہ انڈراسٹینڈنگ تھی۔ اس مشکل وقت میں پکارنے کے لیے ان کے پاس سوائے علی آفندی کے‘ کوئی دوسرا نام نہ تھا‘ بس ان باتوں نے مسز علی آفندی کو اتنا ڈپریس کیا کہ اندر ہی اندر وہ کھولنے لگیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ بیٹا! اس صورت حال سے حاسدوں نے فائدہ اٹھایا اور مسز آفندی نے علی آفندی سے خلع لے لی۔ آہ۔۔۔کیا خوبصورت جوڑی تھی۔‘‘ آنی نے ٹھنڈی آہ بھری۔ میں نے ان کی گود سے سر اٹھایا۔
’’آنی۔۔۔!آپ ہمارے لیے دُعا کریں کہ ہم اور ہماری محبت آخری دم تک قائم رہے۔‘‘ میں نے آنی کے دونوں ہاتھ پکڑکرآنکھوں سے لگا لیے۔
’’اُس سے مانگو‘ وہ مکمل یقین اور محبتوں کی پائیداری کی ضمانت ہے۔‘‘آنی نے شہادت کی انگلی کو آسمان پر اٹھاتے ہوئے کہا۔
میں جو عشمہ سے اس کے والدین کے بارے میں کچھ کچھ سنتا رہتا تھا‘اس وقت آنی نے پوری صورتِ حال واضح کردی تھی۔ عشمہ کے ڈراوے بلاوجہ نہ تھے بلکہ اس کی اماں جان بہت جذباتی اور دوٹوک فیصلہ کرنے والی خاتون تھیں۔ خیر‘اب تو جو ہونا تھا‘ہوچکا تھا۔تیرکیوپڈسے نکل چکا تھا۔
اور پھر میں آنی کے کمرے سے نکل آیا تھا۔ رات کو تاریک کرتی ٹھنڈ چیخیں مارتی ہوئی بوجھل بوجھل سی رینگنے لگی تھی اور۔۔۔ پھر۔۔۔
’پارس۔۔۔ہم ایک ہوجائیں گے نا؟‘‘
’پارس۔۔۔کیا اس عید پر ہم دونوں ایک ساتھ عید منا سکیں گے؟‘
’پارس۔۔۔اس عید پر۔۔۔‘
’پارس۔۔۔اس عید پر۔۔۔‘
’منا سکیں گے۔۔۔‘
یاد کی سرگوشیاں آہستہ آہستہ معدوم ہوئی جا رہی تھیں۔ ہوا کا تیزسا جھونکا تھا جس نے ان یادوں کی دھند کو کسی حد تک صاف کردیا تھا۔
’آہ۔۔۔عشمہ۔۔۔‘
کیسے آئے گا تیرے خدوخال کا موسم
قسمتوں میں لکھا ہے جب زوال کا موسم
کس نے کھیل کھیلا ہے‘ کس نے ہجر جھیلا ہے
اب گزر گیا جاناں‘ اس سوال کا موسم
اور پھر یہ سحر‘سحری کے سائرن کے ساتھ ہی ٹوٹا تھا۔ میں نے وضو کی تیاری شروع کردی۔
آنی بھی اٹھ چکی تھیں اور آہستہ آہستہ کچن آباد ہونے لگا تھا۔
*۔۔۔*
رمضان کے روزے روایتی انداز سے اپنی رحمتیں لٹاتے۔ باوجود مہنگائی اور دوسری اذیتوں کے جوش و جذبے سے گزر رہے تھے۔
آج بارہواں روزہ تھا۔ میں روزہ افطار کرنے بیٹھا اور افطاری کے فوراً بعدہی آنی نے اپنے کمرے میں بلوا لیا۔
’’پارس‘میں آج کل عجیب سی کیفیت محسوس کررہی ہوں۔‘‘ آنی نے تسبیح گھماتے ہوئے کہا۔
’’آنی۔۔۔!کیا بات ہے؟چلیے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ میں نے انہیں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’’بیٹے۔۔۔ڈاکٹر کے پاس ہر درد کی دوا نہیں ہوتی‘ ہر زخم رفو نہیں کرسکتا وہ‘میرے چندا‘میری دوا تم جانتے ہو۔ آخر کب تک خوداذیتی کے عذاب بھگتو گے تم؟‘‘آنی کی آنکھوں سے جھرنا بہہ نکلا اوریہ دیکھنا میرا دل کو آرے سے کاٹتا تھا۔
’’آنی۔۔۔ہر چیز پر انسان کا اختیار تو نہیں ہوتا نا‘ میں کیا کروں‘ آپ جانتی ہیں نا‘میں چاہ کر بھی کسی اور کو accept نہیں کر سکتا آنی۔۔۔‘‘
میں نے مضبوط لہجے میں آنی سے نظریں چراکر کہا تھا۔
’’پارس۔۔۔یہ زندگی ہے‘زندگی کو اگر ایک جگہ ساکت کردیا جائے تو بیٹے‘زندگی کی بہار ‘ خزاں ہو جاتی ہے۔کیوں تم اپنے آپ کواب تک صحرا کیے بیٹھے ہو؟ میرے چاند!تجھے آپا بی کے بعد پالاپوسا‘ بھائی میاں بھی چلے گئے تھے اور پھر جب تو جوان ہوا تو ہر عید ‘ بقرعید‘ تہوار پر میں نے غائبانہ اپنے پوتے‘ پوتیوں کے ساتھ خوشیاں بانٹی ہیں۔ کیا میرا تم پر اتنا حق بھی نہیں کہ عمر کے اس حصے میں جبکہ میں بجھتا دِیا ہوگئی ہوں‘تم سے اپنے لیے یہ خوشیاں مانگ سکوں؟‘‘ آنی کے حلق میں آنسوؤں کے گولے اٹک گئے تھے۔ ان کی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی۔
’’آنی۔۔۔!خدا کے لیے‘ مجھے امتحان میں نہ ڈالیں‘ میں یاودں کے سہارے جی رہا ہوں۔ آپ کیوں میری محبت کھوٹی کرنے پر تلی ہیں؟ آنی!میں عشمہ کی جگہ کسی کو کیسے‘ کیسے آنی؟ کیسے؟؟‘‘اور پھر میں جو ضبط کیے بیٹھا تھا‘آنی کی بوڑھی گود میں سر رکھ کر رونے لگا۔
’’ہاہ۔۔۔ہاہ۔۔۔‘‘ایک ٹھنڈی سانس آنی کے لبوں سے خارج ہوئی تھی۔
’’جاؤ بیٹا۔۔۔!اپنی زندگی جیو‘ کاش‘ مرنے سے پہلے میری خواہش پوری ہوجاتی۔ مجھے نہیں لگتا‘ اگلے روزے رمضان اور عید میں دیکھ پاؤں گی؟‘‘
’’آنی۔۔۔!خدا کے لیے‘کیسی باتیں کررہی ہیں آپ؟‘‘ میں تڑپ اٹھا تھا۔
’’کیوں بیٹا۔۔۔!ایک یاد کی بجائے دو یادیں تمہاری زندگی کو زیادہ رونق میلے سے نہیں بھردیں گی؟ اچھا ہے نا پھر تم مزیداپنی اس زندگی کو گزارنے کے لیے activeہوجاؤگے۔‘‘آنی نے بجھتی آنکھیں مجھ پر گاڑکر اس انداز سے کہا کہ میں فق چہرے کے ساتھ انہیں بس دیکھے ہی گیا۔
*۔۔۔*
رمضان کے آخری عشرے میں میرا دل مجھ میں رہتا ہی نہیں۔ یادوں کے جگنو میری راتوں میں چنگاریاں اڑاکر مجھے دور‘ کہیں بہت دور اس جادوبھری دنیا میں لے جایا کرتے تھے جہاں کوئی نہ تھا‘ صرف میں اور عشمہ‘عشمہ اور میں۔
رچا ہوا ہے ترا عشق میری پوروں میں
میں اس خمار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
یہ بے قراری مری روح کا اجالا ہے
میں اس اقرار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
’’پارس۔۔۔آج میں بہت خوش ہوں۔‘‘
’’تم۔۔۔عشمہ۔۔۔تم ذرا دیکھو تو کیسے رنگ ہیں تمہارے چہرے پر اس وقت۔‘‘
’’جھوٹے۔۔۔‘‘اس نے پرس میں سے پاکٹ مرر pocket mirror نکال کر دیکھا تھا مگر جان بوجھ کر انجان بن گئی تھی۔
’’ان آنکھوں سے دیکھو گی تو نظر آئے گا نا۔‘‘ میں نے اسے آنکھوں سے دل میں اتارتے ہوئے کہا تھا۔
’’ان آنکھوں سے۔۔۔ اچھا‘ پارس جی۔۔۔اگر آپ میری آنکھوں سے خود کو دیکھو گے تو۔۔۔‘‘
اور جب میں نے اس کی طرف آنکھوں سے دل میں اتارنے والی نظریں ڈالیں تووہ آنکھیں ٹپ ٹپ برسنے لگیں۔ اس کا گلابی چہرہ دھواں دار ہوگیا۔
’’پارس۔۔۔مجھے چھوڑتو نہ دو گے؟‘‘
’’عشمہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ تم کیسی باتیں کررہی ہو؟‘‘ میں روہانسا ہوگیا۔ ’’میری زندگی۔۔۔خدا نے ہمیں اس لیے ملایا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔تم اپنی ماں سے کتنا ڈرتی تھیں‘ انہوں نے آنی کو کس طرح ویلکم کیا اور رشتہ بھی دیکھو‘ خدا نے کیسے جھٹ پٹ طے کرا دیا۔تم نے کہا تھانا کہ ہم یہ عید ساتھ گزار سکیں گے یا نہیں؟ تو میری زندگی‘ دیکھ لو‘یہ عید ہم ساتھ گزاریں گے۔ راستے میں اب تو کوئی دیوار نہیں‘ کٹ حجتی کا کوئی پہلو نہیں‘ اب کیوں روتی ہو؟ کیوں اداس ہو؟‘‘میں تسلی دیتے ہوئے اس کے آنسو ہتھیلیوں میں جذب کرتے کہتا ہی چلا گیا۔
’’پارس۔۔۔یہی بات تو ڈراتی ہے‘ جب مشکلیں خود ہی آسان ہوجائیں نا توواہمے ستاتے ہیں۔ پارس۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ جتنی جلدی ہم ملے ہیں‘ اتنی جلدی کوئی اور تم کو لے جائے؟‘‘آخر اس کا اصل ڈر سامنے آ ہی گیا۔
’’یہ عورت ذات بھی نا‘ ارے بابا۔۔۔کیا تم کو میری محبت پر یقین نہیں؟میں اس رمضان کے بابرکت مہینے میں پورے دل سے قسم کھاتا ہوں‘ میری زندگی۔۔۔اگر میرے دل میں‘ دماغ میں کوئی ہے تو وہ صرف تم ہو‘صرف تم عشمہ۔۔۔اور میں یقین دلاتا ہوں ‘ جب تک یہ زندگی ہے‘ اس دل کی دنیا میں کسی اور کے نام کا حرف بھی کسی جگہ نہیں لکھا دکھائی دے گا۔‘‘ میں نے دل پر ایک ہاتھ رکھ کر اور دوسرا عشمہ کے سر پر رکھ کر قسم کھائی تووہ مسکرا دی۔ وہ مسکراتے ہوئے کتنی سندر لگتی تھی‘ وہ نہیں جانتی تھی۔
’’پارس۔۔۔تم اتنے ہینڈسم ہوکہ واقعی اگر کسی سے چھو جاؤ گے تودوسرا بندہ سونا بن جائے۔‘‘
’’اچھا جی‘تو پھرآپ کے پاس تو بہت سونا اکٹھا ہوگیا ہوگا اور شاید۔۔۔شاید۔۔۔‘‘میں خلاؤں میں گھورنے لگا۔
’’کیا شاید۔۔۔‘‘وہ جلدی سے بولی تھی۔
’’شاید۔۔۔‘‘
’’اب بول بھی چکو‘ کیا ہے؟‘‘ وہ ملتجیانہ ہورہی تھی۔
’’ارے یار‘ تم نے وہ king midas کی اسٹوری نہیں پڑھی تھی۔۔۔ تو شاید۔۔۔ مجھے زندگی کی شروعات کہیں ایک gold dummy کے ساتھ کرنا نہیں پڑ جائے۔‘‘ اس کی کھنکتی ہنسی کی جھنکار نے فضا کو دیر تک اس سُر میں ڈبوئے رکھا تھا۔
*۔۔۔*
شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے۔ عشمہ اور پارس یعنی ہم دونوں نے عین عید کے دن ایک ہوجانا تھا۔بزرگوں نے عید کے دن کو مزید سنہری کرنے کے لیے اس دن کا انتخاب کیا تھا۔ عشمہ کی محبت کی شدتیں اور بے قراریاں عروج پر تھیں۔ وہ اس پہلی یادگار عید کے جانے کتنے خواب آنکھوں میں سجائے روز ان میں ایک نئے رنگ کا اضافہ کر رہی تھی۔ میری بے قراریاں بھی کوئی ڈھکی چھپی نہ تھیں۔ آنی اکثر مجھے چھیڑا کرتی تھیں۔
’’شادی اس لیے عید کے دن ٹھہرائی ہے تاکہ تم عید پر دہری عید مناؤ اور ہاں بیٹے‘ میری زندگی کو مزید secureکرنے کے لیے اگلی عید پر مجھے پارس جونیئر چاہیے۔ سمجھے تاکہ میری زندگی کا بیمہ ہو جائے۔‘‘ اور میں خجل ہوکر باہر بھاگاکرتا تھا۔
*۔۔۔*
چانددکھائی دے گیا تھا اور ہر طرف روایتی جوش و خروش نے چاند رات کی روشنیوں کو مزید بہتر کردیا تھا۔
آج افطار کے بعد آنی دو مرتبہ مجھے اپنے کمرے میں بلوا چکی تھیں لیکن میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوں۔
اندر کی رات بڑی گہری ہوتی جارہی ہے اور پھر دبے پاؤں ذہن جو روشن ہوا تو پھر روشنی کے روزن چھن چھن کر یادوں کے دریچے روشن کرتے ہی چلے گئے۔
اور پھر سے میلہ لگ گیا۔وہی ملن کی رات جس میں ایک چاند رات بیچ میں رہ گئی تھی‘ پوری طرح ذہن کے پردے پر سارے مناظر واضح ہوتے جا رہے تھے۔
آج رویتِ ہلال کمیٹی نے عیدالفطر کے چاند کا اعلان کرنا تھا اور پروگرام یہ تھا کہ اگر چاند رات ہوگئی تو عشمہ کے ہاں مہندی کی رسم کے لیے جایا جائے گا۔ پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈھولک پر افطاری کے بعد سے گیتوں کا سلسلہ جاری تھا۔
مہندی سے لکھ دو ری‘
ہاتھوں پہ سکھیو۔۔۔
میرے سانوریا کا نام
کتنا سہانا سمے ہے ملن کا
مجھ کو سنورنے سے کام
بالوں میں گوندھو ری‘ بیلے کی کلیاں
مجھ کو بلاتی ہیں ساجن کی گلیاں
اور اس گیت کے ساتھ ہی میرے ذہن نے ایک اڑان بھری اور عشمہ کوروپہلے حسن میں ڈوبا دیکھنے لگا۔ مایوں کے مخصوص کپڑوں میں خوشبوؤں میں لپٹی بیٹھی میری عشمہ گلال گالوں میں صبا سی شوخی لیے کن انکھیوں سے مجھے دیکھتی جا رہی تھی۔ اس کی مراد پوری ہونے جا رہی تھی۔ عید‘ عیدِ سعید بننے میں فاصلہ ہی کتنا تھا‘ صرف ایک رات کااور یہ رات‘ یہ چاند رات اپنی الوہی خوشیوں میں مزید رنگ وخوشبو بکھیرنے ہماری زندگیوں میں آئی تھی۔ کیا یہ چاند رات بھُلائی جا سکے گی؟ ایسے مواقع تو زندگی کی شاہراہ میں آتے ہی نہیں ہیں۔ واقعی خدا مہربان ہو تو سب کچھ آسان اور یادگار ہوجاتا ہے۔’’اللہ! تیرا شُکر ہے۔‘‘
میرا دل دُعائیں کررہا تھا۔ عشمہ کی دُعائیں اور خواب پورے ہونے کے لیے
مولا!تجھ سے آج کی شب
بس ایک دُعا ہے‘ ایک دُعا
بے شک میری آنکھوں کی قندیل نہ قائم رکھنا
لیکن اس کے خواب کا روشن دِیا سَلامت رکھنا
خدا کا شُکر اَدا کرتے میرا دل نہ تھکتا تھا۔اب عشمہ کو ساجن کی گلیوں میں آنے میں صرف چاند رات حائل تھی۔
*۔۔۔*
چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی رنگ و نور لنڈھاتا قافلہ عشمہ کے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ آدھی رات یوں چٹکیوں میں گزر گئی کہ پتا ہی نہ چلااوراب تک وہاں سے کوئی لوٹا نہ تھا۔ گھر میں‘ میں اکیلا انتظارکررہا تھا کہ کب سب واپس آئیں اور میرے ہاتھ کی انگلی پر عشمہ کے نام کی مہندی لگائی جائے۔ انتظار بھی اپنے اندر دنیا رکھتا ہے‘ جو لگتا ہے‘ ابھی ختم ہوا لیکن پھر مزید سراب بن جاتا ہے۔
وا دریغا یہ ہم نشیں میرے
مجھ سے ہی مجھ کو یاں چراتے ہیں
مسلسل انتظار کی سولی پر لٹکا میں کیسا بے وقوف لگ رہا تھا۔ اِدھرسے اُدھر ٹہل کر اس کوفت کو دور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ گھر کے دیوار بھی محوِانتظار ہی تھے اورانتظار ختم ہوا۔
بیل بجی اور میں دروازے کی اَور دوڑا۔ دروازے پر آنی تھیں۔
’’چلو پارس۔۔۔ابھی کے ابھی عشمہ کے ہاں جانا ہے۔‘‘ میں کچھ شرما رہا تھا۔
’’آنی۔۔۔ابھی کیوں؟اب تو کل ہی جاؤں گا سہرا باندھ کے؟‘‘
’’پارس‘سہرا آج ہی بندھے گا اورابھی تم چلو تو بیٹے۔۔۔!‘‘ آنی کے اندرکچھ اداسی سی بول رہی تھی۔
’’آنی۔۔۔!خیریت تو ہے؟ بات کیا ہے؟ اور سب لوگ وہاں پر کیوں ہیں؟ آئے کیوں نہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں بچے۔۔۔!وقت برباد نہ کرو‘عشمہ تمہارا انتظار کر رہی ہے‘ ہم لوگ عشمہ کے پاس جا رہے ہیں۔‘‘
میں کچھ بھی نہ سمجھا تھا اور چپ چاپ آنی کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر باہر نکلنے لگا۔
چاند رات کی رونقیں عروج پر تھیں‘ چہل پہل آدھی رات گزرنے کے باوجود بھی ماند نہ پڑی تھی‘ رات کے گہرے گاڑھے اندھیرے میں عید کا روشن عکس خوب واضح تھا۔ تارے ٹمٹما رہے تھے لیکن کچھ تو تھا‘مجھے کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ رات بین کر رہی ہے؟فضا میں خوشبوؤں کی بجائے سوگواریت رچ بس گئی ہے۔ عشمہ کے گھر کے باہر سے ڈھولک کی کوئی تھاپ یا خوشی کا کوئی رنگ ظاہر نہ ہورہا تھا۔ ’’آنی! اتنی خاموشی؟‘‘ صرف برقی قمقموں کے جلنے سے تو گھر شادی والا نہیں لگتا ہے؟ میں نے کہہ ڈالا۔
’’بچے۔۔۔!اندر چلو۔۔۔‘‘
اور پھر ہم اندر چلے گئے۔
اماں بی میرے اندر آتے ہی مجھ سے لپٹ گئیں۔
’’پارس۔۔۔دیر کردی‘ عشمہ چلی گئی۔۔۔‘‘
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔جو طوفان دبا بیٹھا تھا‘ میرے آتے ہی پورے زوروشور سے ابل پڑا تھا۔لڑکیاں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔عشمہ۔۔۔سہاگ کی مہندی ہاتھوں میں دبائے اتنی دور چلی گئی تھی کہ بس۔۔۔
عشمہ کی امی کوغش پر غش آرہے تھے۔دکھ بانٹنے والیاں رو رہی تھیں‘ بین کررہی تھیں۔ کسی نے کہا۔ ’’وہ شادئ مرگ سے مر گئی تھی۔‘‘
لوگ بھی کیسے کیسے محاورے لکھ جاتے ہیں‘ صدیاں گزر جاتی ہیں مگر یہ محاورے اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے شادیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ عشمہ کا دل خوشی کی شدت سے بند ہوگیا تھا۔
’عشمہ ‘تم نے تو زندگی سے محبت کی اور موت۔۔۔ نہیں‘ تم موت سے ہمکنار کب ہوئی ہو‘ تم تو زندہ ہو‘ زندہ رہو گی۔ یہ میرے سینے میں جو ایک ٹکڑا ہے عشمہ‘یہ بند کیوں نہیں ہوتا؟ بتاؤ مجھے‘ یہ بندکیوں نہیں ہورہا؟تم خوشی برداشت نہیں کرسکیں اور یہ ہے کہ ایسا پہاڑ سا غم جھیلے ہوئے زندہ ہے۔
میں عشمہ کے پاس آکر بیٹھا۔
عشمہ کے بند ہاتھوں سے مہندی لی اور اپنی انگلی پر سجا لی۔ میرا دل بول پڑا تھا۔’’عشمہ‘میری زندگی‘ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی تم ابھی یہیں کہیں ہو۔ میری زندگی‘ میں تمہیں اپنی محبت کا یقین دلاتا ہوں۔ میں تمہارے علاوہ کبھی کسی کو زندگی میں نہیں لاؤں گا۔ تم ہی اس دل کی جاگیر کی ملکہ رہوگی۔‘‘
اور پھر میں نے دیکھا تھا‘ایک بھیگی بھیگی لٹ نے عشمہ کے گلابی چہرے کو چوما تھا اور لب یوں لگتا تھا‘ مسکرائے ہوں۔ ’’یعنی تم نے سن لیا۔تم اپنا اطمینان اور یقین ساتھ لے کر جاؤگی۔‘‘
آہ۔۔۔وہ مہندیوں‘ خوشبوؤں میں رچی رات آخر ڈھل ہی گئی۔
رات ہی رات میں ابدی گھر میں عشمہ کی ڈولی گئی تھی۔ وہ رخصت ہوگئی‘ بھلا ایسی رخصتی بھی کسی بابل کے گھر سے کہیں ہوئی تھی۔
مگر جو ہوا‘ یہ بھی مقدر ہے۔یہ بھی قسمت کے نیارے کھیل ہیں۔
زندگی یوں بھی عین وقت پر دھوکہ دے جاتی ہے جیسے عشمہ۔۔۔
عشمہ سے خوشی ہی برداشت نہ ہوئی۔ وہ اتنی ساری خوشیاں سمیٹ ہی نہ سکی اور اپنی خوشیوں کو ساتھ ہی لے گئی۔
اورایک میں ہوں۔۔۔میں جیے جا رہاہوں‘ جیے جا رہا ہوں۔ وعدے کی پاسداری بھی تو اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے نا‘ہر عید کی چاندررات میری تجدیدِوفا کی رات ہوتی ہے۔
اور آنی کہہ رہی ہیں کہ زندگی یادوں کے سہارے نہیں کٹتی۔
آنی۔۔۔!میں کس طرح محبت سے منہ موڑوں؟کیسے بے وفائی کا مرتکب ہوجاؤں؟ محبتوں میں بھلا سودوزیاں کی فکر کی جاتی ہے۔
ہر ایک شب مری تازہ عذاب میں گزری
تمہارے بعد تمہارے ہی خواب میں گزری
اورپھر مجھ سے آنی کو بھی دیکھا نہیں جاتا‘ کیسے آنکھوں میں سپنے سجائے مجھے تکتی ہیں مگرمیں کیا کروں۔۔۔ کوئی کیا کرے‘ میں اپنے بس میں کہاں ہوں‘مجھ پر میرا اختیار کب ہے۔
میں تو جانتا ہوں‘ آنی کی خوشیاں میرے نام سے منسوب ہوں۔ کیا نہیں کیا آنی نے میرے لیے۔ پوری جوانی آنکھوں میں کاٹ دی‘ کبھی میرے ماتھے پر شکن نہیں آنے دی مگر ’’آنی! میں مجبور ہوں۔‘‘
’’آئی ایم سوری آنی۔۔۔!‘‘
*۔۔۔*
’’پارس بیٹا!آج عشمہ کی امی آئی تھیں‘تم سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ آج تم دیر سے آئے؟‘‘میں گھر میں داخل ہوا تو آنی میری ہی راہ تک رہی تھیں۔ عشمہ کی امی کی آمد میرے لیے حیران کن تھی۔ عشمہ کے بعد ان سے کوئی رابطہ ہی نہیں رہا تھا۔
’’خیریت تو تھی آنی؟مجھ سے کوئی کام تھا؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’کام ہی ہوگا مگر مجھے انہوں نے بتایا نہیں‘بس کہہ کر چلی گئیں‘ پارس سے کہیے گا‘ ہماری طرف چکر لگا لے۔‘‘
’’مگر آنی۔۔۔!یہ اچانک۔۔۔؟‘‘
’’میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ پر بیٹا!میں نے زیادہ کرید نہیں کی‘ دکھی لگ رہی تھیں۔‘‘
’’مگر آنی۔۔۔!مجھ میں ایسی ہمت کہاں کہ عشمہ کے بغیر اس کی دہلیز پر جا سکوں؟‘‘
’’بیٹا!چلے جانا‘ ہوسکتا ہے‘ کوئی ضروری کام ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے آنی!میں اُن سے فون پر بات کر لوں گا۔‘‘
’’پارس۔۔۔!‘‘
’’جی آنی۔۔۔!‘‘
’’اسے میرا حکم سمجھو‘ تم ان کی طرف جانا بلکہ کل ہی جانا اور دیکھو‘ لاپروائی مت کرنا۔وہ خاصی اپ سیٹ نظر آ رہی تھیں۔میں ذرا مغرب کی نماز پڑھ لوں۔‘‘
آنی یہ کہہ کر اٹھ گئیں‘گویا انہوں نے مجھے اٹل حکم سنا دیا تھا۔ میں سوچوں کے حصار میں غوطے لگا رہا تھا۔ انہیں یکایک مجھ سے کیا کام پڑگیا جو کئی سالوں بعد یوں ادھر کا رخ کیا ہے اور اچھا ہی تھا جو ہم نہیں ملتے تھے۔ملتے بھی تو کیا کرتے؟‘‘
*۔۔۔*
دروازہ بہت تاخیر سے کھلا۔ میں ڈوربیل تواتر سے بجا رہا تھا۔ ملازم نے بتایاکہ وہ پائیں باغ میں قلمیں لگا رہا تھا‘ سو دیر ہو گئی۔میں نے اس سے کہا۔
’’بیگم صاحبہ ہیں؟‘‘
’’جی ہیں‘ آپ اندر آجائیں۔‘‘گھر کا پرانا ملازم مجھے پہچانتا تھا۔’کیوں بلایا تھا عشمہ کی امی نے؟‘ میں سوچتا ہوا راہداری تک آگیا۔
یہی تو راہداری ہے جہاں سے وہ روز گزرا کرتی تھی۔۔۔ یہی تو وہ’گھر‘ جس کے سنگ و خشت اس کے سحر طراز لمس سے محظوظ ہوتے رہے ہیں۔۔۔یہی تو وہ فضا ہے جہاں میری عشمہ سانسیں لیتی رہی ہے۔ یہیں تو وہ لوگ رہتے ہیں جن کے خون میں عشمہ کی مہک رچی بسی ہے۔ یہیں تو ہے وہ سب کچھ جو عشمہ آفندی سے وابستہ ہے۔ کیسے خوب صورت ہے یہ مکان‘ کیسا خوش نصیب ہیں اس کے مکیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس گھر میں آکر میرے زخم تازہ ہو جائیں گے مگر یہاں تو عشمہ کی یاد تروتازہ ہو گئی تھی۔ اس کی خوشبو مجھے مہکا رہی تھی۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا‘ ہر دیوار سے۔۔۔ہر اوٹ سے‘ ہر طرف عشمہ ہی عشمہ تھی۔
میں اپنے خیالوں میں مست ڈرائنگ روم میں پہنچ گیا۔ سامنے بڑی سی روشن تصویر لگی تھی‘ یہ وہی تھی‘ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ چاند منوں مٹی تلے دفن ہوگیا ہے؟ یہ چاند تو میرے دل کے آسمان پر چودہویں بکھیر رہا ہے۔
’’آگئے پارس بیٹا!بیٹھو‘ کھڑے کیوں ہو؟‘‘
میں نے چونک کر دیکھا‘ عشمہ کی امی آگئی تھیں۔ سرمئی ساڑھی‘ سنہری فریم والی عینک میں وہ بہت باوقار لگ رہی تھیں۔
’’جی آنٹی!آپ نے یاد کیا تھا تو کیسے نہ آتا؟‘‘ میں نے ہچکچا کر جواب دیا اور بیٹھ گیا۔
’’تم تو رستہ ہی بھول گئے‘ کبھی ادھر کا رخ ہی نہیں کیا؟‘‘ انہوں نے شکوہ کیا۔
’’جی بس‘وہ میں۔۔۔‘‘میں گڑبڑاکر رہ گیا۔ اب انہیں کیا کہتا؟
’’ہم سمجھے کہ عشمہ کے بعد تم سب کچھ بھول گئے ہو گے مگر کچھ دن قبل اتفاق سے پتا چلا۔۔۔‘‘
’’جی آنٹی!آپ کہیں۔‘‘وہ کہتے کہتے رک گئیں تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا‘کیا کہتا۔ جو منہ میں آیا‘ کہہ دیا۔
’’تم نے اب تک شادی نہیں کی؟‘‘
’’آنٹی! بس وہ مصروفیت ہے کام کی۔۔۔‘‘میں یہی کہہ سکا۔
’’بیٹا۔۔۔!کب تک یادوں کے ساتھ زندگی گزارو گے؟ آج جوانی ہے‘ کٹ جائے گی‘ جب پہلا سفید بال آئے گا توپتا چلے گا‘ تنہا زندگی کیسے کٹتی ہے؟‘‘اُن کی آواز بوجھل ہوگئی۔
’’جی آنٹی!میں سوچوں گا۔‘‘
’’تمہیں ہم نے ایک خاص وجہ سے بلوایا ہے۔‘‘
’’جی‘آپ کہیں‘ میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘
’’بیٹا!ایک تمہاری امانت تمہیں دینی ہے۔‘‘
’’میری امانت؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔دل تو چاہا کہ کہوں کہ میری امانت اس گھر سے مٹی لے جا چکی ہے۔
’’میں ہمیشہ کے لیے انگلینڈ سیٹل ہورہی ہوں اپنے بھائی کے پاس۔ بیٹا!تنہا نہیں رہا جاتا۔عشمہ کا کمرا جیسا اس کے ہاتھوں ترتیب دیا ہوا تھا ‘ویسے کاویسا ہی ہے حتیٰ کہ اس نے جو چائے پی تھی‘ وہ کپ بھی بغیر دھلا آج تک ویسے ہی اس کی ٹیبل پر رکھا ہے۔ اس گھرمیں جو چیز عشمہ نے کہیں رکھی ہے‘ آج تک ویسی ہی رکھی ہے۔ کچھ دن قبل اس کے کمرے سے مجھے اس کی ڈائری ملی۔ جو میں نے کچھ پڑھی ہے‘ محسوس ہوا کہ امانت میں خیانت ہے تو نہ پڑھ سکی۔ بیٹا!ڈائری کے چند صفحات پڑھ کر میں بہت پریشان ہوئی ہوں۔ تم مجھے اس پریشانی سے نکال سکتے ہو۔‘‘
’’آنٹی۔۔۔!وہ ڈائری مجھے دیں گی۔‘‘ میں نے بے تابی سے کہا۔
’’بیٹا!آپ کو سوچنا چاہیے کہ جو ڈائری میں خود نہیں پڑھ سکتی‘ وہ کسی اور کوکیسے دے سکتی ہوں؟‘‘
’’جی بہتر آنٹی۔۔۔!‘‘میں نے دل مسوس لیا۔
’’مگر نہیں بیٹا!ایسی بات نہیں ہے‘جب میں نے وہ ڈائری بند کی تو سوچا‘ میں اسے نہیں پڑھ سکتی مگر اسے کسی نہ کسی کو ضرور پڑھنا چاہیے۔بہت سوچا‘ بہت پریشان رہی کہ میری بیٹی نے کتنی ضخیم ڈائری لکھی ہے‘ اسے کوئی پڑھنے والا تو ہو۔۔۔ تو بیٹا!بس ایک جواب ملا کہ یہ ڈائری پڑھنے کا حق صرف تم ہی رکھتے ہو کیونکہ چند صفحات ہی سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔ ڈائری پر لفظ نہیں‘ بس تسلسل سے تمہارا نام لکھا ہے‘ صرف تمہارا ہی تذکرہ ہے۔بہت محبت کرتی تھی وہ تم سے۔‘‘
ان کی یہ بات سن کر نہ جانے کیوں میرا دل پانی بن کر بہنے لگا؟ میں نے بمشکل کہا۔
’’مجھے دے دیں آنٹی! وہ۔۔۔‘‘
’’میں تمہیں دے دیتی مگر اب نہیں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’اس کی ایک شرط ہے‘ تم شادی کرلو اور ڈائری لے لو۔ میں ایک ہفتے بعدانگلینڈ جا رہی ہوں‘ تب تک تمہاری شادی دیکھنا چاہوں گی وگرنہ یہ ڈائری میرے ساتھ ہی کسی بریف کیس میں بند ہوکر چلی جائے گی۔‘‘
’’آنٹی!یہ ناممکن ہے‘ عشمہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘
’’بیٹا!یہ سوچو کہ عشمہ کی ’’ماں‘‘ تم سے کہہ رہی ہے۔‘‘
’’جی آنٹی!میں سوچوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا‘ گویا میرے ساتھ وہاں کے در و دیوار بھی اٹھ کھڑے ہوئے جو مجھ سے لپٹ لپٹ گئے کہ نہ جاؤ‘ میں یہیں کہیں ہوں۔
’’میں نے سوچا ہے کہ جاتے جاتے اپنی عشمہ کو دلہن بنا کے اس گھر میں لے آؤں۔‘‘ عشمہ کی امی نے کہا تھا۔
میں اس کے بعد وہاں نہیں رک سکا‘ اٹھ آیا تھا۔
*۔۔۔*
تیسرے دن مجھے عشمہ کی امی نے عشمہ کی ڈائری ملازم کے ہاتھوں بھجوا دی جس پر ایک چٹ لکھی تھی کہ ’’یہ ڈائری تم سے محبت کرتی ہے‘ پڑھ لو اسے۔‘‘
میں نے دھڑکتے دل سے ڈائری کھولی اور پڑھنے لگا۔ عشمہ نے میرے ہمراہ بیتے ہوئے شب و روز کو لفظوں سے تصویر کر دیا تھا۔
وہ احساسات بیان کرنے کا ایسا ہنر رکھتی تھی‘ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھامگر آخر میں ایک جملہ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ گرا گیا۔
اس نے لکھا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے‘ میں مر جاؤں گی‘ میں پارس کا لمس نہیں پا سکوں گی‘ سدا پتھر ہی رہوں گی۔سوچتی ہوں کہ دنیا کی رِیت تو یہ ہے کہ محبوب میرا نہ ہو تو کسی اور کا بھی نہ ہو مگر میں اپنے پارس کو وصیت کرجاؤں گی کہ اگر میرے نہ ہوسکے تو کسی اور پتھر کو ضرور چھوکر کندن بنا دینا‘ بس یہی میری وصیت ہوگی۔ یہ میری آنکھوں سے آنسو جو بہہ رہے ہیں‘ یہ غم کے نہیں‘ مسرت کے ہیں۔ پارس۔۔۔ پارس۔۔۔ میرا پارس۔۔۔!‘‘
*۔۔۔*
پھر شادی ہوگئی وہ بھی عید کے دن۔ عشمہ کی امی اپنا مکان میری بیوی رمشاء کے نام کر گئی تھیں۔
بہت سا وقت گزر گیا‘ آنی بھی پوتے پوتی کھلانے میں مگن ہوگئیں۔
پھر ایک دن انگلینڈ سے ایک رقعہ آیا۔عشمہ کی امی کے انتقال کی خبر تھی اور میرے نام ایک چھوٹا سا رقعہ اور تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں لکھا تھا اور وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ پارس کو دے دیا جائے۔ انہوں نے لکھاتھا۔
’’عزیزازجان داماد پارس۔۔۔!
میں ایک اعتراف کرنا چاہتی ہوں‘ رمشاء کی ڈائری میں چند سطور تمہیں شادی میں راغب کرنے کے لیے میں نے لکھی تھیں۔ عشمہ کی ماں کی حیثیت سے ‘ تم مجھے اتنا حق تو ضرور دو گے نا؟سَدا خوش رہو۔
تمہاری خوش دامن‘‘
*۔۔۔*
میری آنکھیں بھرا گئیں۔ میں نے وہ خط چوما جسے میرا بیٹا میرے ہاتھوں سے اچکنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کو سینے سے بھینچ لیا۔
’’آئی لو یو بیٹا۔۔۔!‘‘
یہ خوشی بھی تو عید سے کم نہیں ہوتی نا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.