ٹیڑھا کالم

آج کے دور میں بہت ہی کم لوگ ہوں گے جن کو ادب کے نام سے واقفیت ہوگی ورنہ نئی نسل کو تو یہ بھی نہیں معلوم کے ادب ہوتا کیا ہے صرف انہوں نے اتنا ضرور پڑھا ہو گا اور پڑھایا بھی جارہا ہو گا کہ ماں باپ کا ادب کرو خیر یہ تو اِک آج کے دور کا المیہ ہے اس پر پھر کبھی قلم اٹھانے کی جسارت کریں گے۔ مگر جو بات موضوع گفتگو ہے وہ ہے معاشیات سے جنم لینے والا ادب جو کے پہلے کے ادب سے بہت دور ہے۔ ادب جو کہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کو انگلش میں Literature کہتے ہیں۔ اب اس کو میں یوں اگر کہوں کہ الفاظ میں مٹھاس‘ نرمی اور شائستگی کی بھرمار کو ادب کہیں تو میرے خیال میں بے جا نہ ہو گا میری اس رائے سے آپ لوگوں کا متفق ہونا لازمی نہیں اور ادب کے لیے اُس میں جذبات اور احساسات کا ہونا بہت ضروری ہے خاص طور پر بچوں کا ادب لکھنا بہت ہی مشکل رہا ہے ہمیشہ ہی چاہے وہ 80ء اور 90ء کی دہائی کا ہو یا پھر آج کل کے تیز ترین انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا زدہ معاشرہ کے دور کا۔
انسان کی خواہش تخلیق ہمیشہ سے رہی ہے۔ اب یہ مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے ان تخلیقی خواہش کی وجہ سے کوئی سائنس دان تو کوئی بزنس مین تو کوئی سافٹ وئیر انجیئنر گو کہ کوئی بھی نئی چیز بنانے میں انسان کی اپنی خواہش کا عمل دخل ضرور رہا ہے۔
انسان کا اپنے احساسات کا الفاظ کے ذریعے اظہار اور اُن کو اس ترتیب میں پیش کرنا کہ پڑھنے والا یا سننے والا اُس کو پسند کرے جو کہ انتہائی کھٹن اور میرے نزدیک مُشکل ترین ہے۔ خاص کر جب بچوں کے لیے اپنے احساسات کا اظہار کرنا چاہیں چاہے آپ کسی بھی عمر کے حصے میں ہیں اور کتنے ہی بڑے لکھاری کیوں نہ ہوں کچھ لمحوں کے لیے سہی لکھنے سے پہلے سوچنے پر ضرور مجبور ہوں گے کہ ایسا کیا لکھا جائے۔ آج کے دور میں جب ہر طرف پیسے ہی پیسے کی مانگ ہو بنا پیسے کہ کوئی کام کرنا پڑ جائے تو انسان کہتا ہے کہ اُس کا کیا فائدہ جس سے چار پیسے ہی نہ ملیں۔ مگر کیا کریں مجھے دور بھی یاد ہے جب گھر سے چند روپے کبھی ملنے تو اُن کو بھی جمع کر کے کوئی کہانی خریدنا اور پھر اُس کو بار بار پڑھنا بہت ہی پُرمسرت لمحات میں سے تھے مگر اب وہ دور کہاں اب ڈیجیٹل دور میں بچے پیدا ہوتے ہی سمارٹ فونز کی فلیش لائٹ کی زد میں آتے ہیں اور بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اُسی کے عادی ہو جاتے ہیں۔
آج کے دور میں لکھاری چاہے وہ جس ادب سے بھی تعلق رکھتا ہو بچوں کا بڑوں کا جاسوسی ٹائپ یا پھر کسی اور موضوع پر لکھنے والا سب کا صرف اور صرف ایک ٹارگٹ ہے وہ ہے پیسہ کمانا جہاں وہ اس بھاگ بھاگم میں اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں وہ کچھ کمی بھی ضرور چھوڑ دیتے ہیں۔ خود کو کامیاب کرنے اور بلاشبہ اپنے معاشی وسائل میں اضافہ کے لیے ہر انسان ہی تگ و دو کرتا ہے اور لکھاری بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر ہر قسم کے لوگ ہیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح لکھاری کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ معاشی طور پر مضبوط انسان ہو۔ اب تو دیکھ کر ایسے صرف آٹے میں نمک کے برابر لوگ اس طرف آتے ہیں۔ بہرحال جو ہے اُس پر قناعت پسندی کرتے ہوئے صبر شکر کرنا چاہیے کہ نا ہونے سے کچھ ہونا ہی بہتر ہے چاہے سو فیصد ادب میں سے تیس فیصد ہی اچھا لکھا جارہا ہے تو شکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ اچھی کوالٹی کی چیز کے ساتھ باقی چیز بھی بک ہی جاتی ہے چاہے کم ریٹ پر ہی کیوں نہیں۔
ادیب جو ادب تخلیق کرنے میں لگے ہوئے ہیں بلاشبہ اُن کی صلاحیتوں پر تو شبہ نہیں مگر کیا کہ صحیح رہنمائی کا نہ ہونا مطالعہ کی کمی کے باوجود وہ اپنی جستجو میں ہیں کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہے جو کہ اُن کے جذبہ کی عکاس ہے۔ اِن لکھاریوں کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے۔ مگر اُن کو موثر پلیٹ فارم اور موثر رہنمائی کی کمی کا فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اِن کی تخلیقی صلاحیتوں کو برا نہیں کہوں گا کیوں کا یہ مجبوری ہے۔ آگے نکلنے کی جستجو میں ایسا بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یا لکھ رہے ہیں لوگ جس کا معاشرہ پر منفی اثر پڑ رہا ہے یا پھر لوگ ادب کے پڑھنے سے اُکتاہٹ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ایک کتاب کو پڑھنے کے بجائے دو گھنٹے کی فلم دیکھنے کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں۔ گزرے سالوں میں جب ٹیکنالوجی کا دور نہیں تھا دوران سفر لوگوں یا انتظار گاہوں دفاتر میں اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہوتیں تھیں۔ مگر آہستہ آہستہ ادب لکھنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی آئے کے لوگ بچوں کو کہانیاں پڑھنے سے منع کرتے تھے کیا وجہ تھی صرف یہ کہ منفی ادب اور متاثر کُن نہ لکھنے کی وجہ والدین بچوں کے لیے کتاب بینی کو وقت کا ضیاع سمجھنے لگے اور آج کے حالات سے ہم سب بخوبی
واقف ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ماضی کے ورق اُلٹا کر دیکھے جائیں تو جتنے ادیب تھے انہوں نے ہمیشہ معاشی مسائل کا سامنا کیا ہے حتی کہ علامہ اقبالؒ کے بارے میں پڑھ کر آپ دیکھ سکتے ہیں مختلف اہل ذوق نے اُن کا ساتھ دیا۔ اِس سے زیادہ کیا مثال دی جاسکتی ہے۔ اُس دور میں جب اہل ذوق اور پڑھنے والوں کی تعداد آج کی بانسبت کہیں زیادہ تھی اُن ادیبوں کو مشکلات پیش آئیں۔ بعد میں آنے والے ادیبوں میں بڑے بڑے نام ہیں جو کہ ادب کی تشنگی لیے پھرتے تھے۔ اتنا بہتر سے بہترین لکھنے کے باوجود بھی بڑے ادیب شعراء کرام کی زندگی معاشی طور پر تشنگی ہی رہی۔
آج کے تیز ترین دور کا ادیب کامیاب بھی اور معاشی طور پر مستحکم بھی۔ اب ادب تخلیق کرنے میں وہ آگے ہیں جسے کے ہاتھ میں پیسا ہے اور کچھ نہیں۔ کہاں ایک دور تھا کہ ادیب لکھتے تھے اور پبلیشرز اُن کے آگے پیچھے پھرتے تھے کہ کچھ لکھ دیں اب اِس کے برعکس ہے۔ اب صرف جتنا ادب ہے اُس کے پیچھے معاشی سوچ کار فرما ہے اور مرچ مصالحہ لگا کر جیسے مرغی فروخت کی جاتی ہے کہ جتنی زیادہ اچھی مرغی اُتنے پیسے اسی حساب سے ادب فروخت ہورہا ہے کہ جس کے ہاتھ کا ذائقہ زیادہ پسند اُس کو زیادہ پیسے ملیں گے۔ صاف ستھرا مثبت ادب لکھنے والے کا کوئی کام نہیں چاہیے لکھتے لکھتے اُس کے ہاتھ گھس جائیں اور اُس کو پانچ نمبر کی عینک لگ جائے نہ تو وہ نام بنے گا اور نہ ہی معاشی آسودگی حاصل ہوگی۔
ابھی کچھ ملتان ٹی ہاؤس کا نام سنا ہے میں نے گیا تو نہیں میں مگر انشاء اﷲ جاؤں گا۔ کہتے ہیں سنی سنائی باتوں پر یقین تو نہیں کرنا چاہیے کہ وہاں پر رائٹرز‘ ادیب وغیرہ آتے ہیں چائے پینے ادیبوں کے مل بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اس کو سوچ کر میرے ذہن میں جو خاکہ بنا ہے اِس کا اُمید کرتا ہوں کہ ویسا ہی دیکھوں یہ نہ ہو کہ باقی ٹی ہاؤسز جیسے کہ ہوتے ہیں جہاں پر سگریٹ کا دھواں چائے اور گپ شپ ہوتی ہے ویسا نہ ہو۔ آج کے دور کا ادیب ہے مگر ادب کہیں گم سا ہو گیا ہے جو کہ جہاں گم ہونا تھا وہاں تلاش کرنے کے بجائے ہزاروں کا لشکر لیے دوسری جگہ ڈھونڈ رہے ہیں ہم لوگ۔ پھر خدا سے دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اس ادب کوڈھونڈے کے لیے صحیح سوچنے اور صحیح لکھنے کی توفیق دے۔ (آمین)
(ورنہ سگریٹ کے دھوئیں اور چائے کے کپ میں ہمیشہ کیلئے ادب دفن ہوتا چلا جائے گا)

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.