مچھیرے کی کہانی اور ہماری زندگی

مچھیرے کی بیوی اپنے شوہر کی شکار کردہ مچھلیاں چیل رہی تھی کہ اس نے ایک حیرت ناک منظر دیکھا۔ حیرت نے تو اسے دنگ کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک چمکتادمکتا موتی مچھلی کے پیٹ میں۔ سبحان اللہ۔ سرتاج، سرتاج، آۂ دیکھو تو، مجھے کیا ملا ہے۔ کیا ملا ہے، بتا تو سہی۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی۔ ادھر سے ملا ہے۔ مچھلی کے پیٹ سے۔ لا مجھے دو میری پیاری بیوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس مچھلی کے علاوہ اچھا کھانا کھانے کو ملے گا۔مچھیرے نے بیوی سے موتی لیا اور محلے کے سنارکے پاس پہنچا۔

السلام علیم۔ و علیکم السلام۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی کے پیٹ سے موتی ملا ہے۔ دو مجھے ، میں دیکھتا ہوں اسے۔ اوہ۔ یہ تو بہت عظیم الشان ہے۔ میرے پاس تو ایسی قیمتی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھراور سارا مال و اسباب ہی یوں نہ بیچ ڈالوں، اس موتی کی قیمت پھر بھی ادا نہیں کر سکتا میں۔ تم ایساکر و ساتھ والے شہر کے سب سے بڑے سنار کے پاس چلے جا۔ ہو سکتا ہے ہ وہ اسکی قیمت اداکرسکے، جا اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ مچھیرا وہا ں بھی پہنچ گیا لیکن قیمت طے نہیں ہو پائی اور یوں مچھیرا پارسل کی طرح ٹرانسفر ہوتا رہا اور یوں وہ شہر کے سب سے بڑے سنار کے پاس پہنچ گیا اور اب شہرکے والی کے دربار میں اسکے سامنے۔ میرے آقا، یہ ہے میرا قصہ اور یہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی کے پیٹ سے ملا۔ اللہ اللہ۔ عدیم المثال چیز ملی ہے تمہیں، میں تو گویا ایسی چیز دیکھنے کی حسرت میں ہی تھا ایک حل ہے میرے پاس، تم میرے خزانے میں چلے جاو۔ ادھر تمہیں 6گھنٹے گزارنے کی اجازت ہوگی۔ جس قدر مال و متاع لے سکتے ہو لے لینا، شاید اس طرح موتی کی کچھ قیمت مجھ سے ادا ہو پائے گی۔ آقا، 6گھنٹے۔ مجھ جیسے مفلوک الحال مچھیرے کے لئے تو 2گھنٹے بھی کافی ہیں۔ نہیں، 6گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سکتے ہو، اجازت ہے تمہیں۔

مچھیرا والی شہرکے خزانے میں داخل ہو کر دنگ ہی رہ گیا، بہت بڑا اور عظیم الشان ہال ، سلیقے سے تین اقسام اور حصوں میں بٹا ہوا، ایک قسم ہیرے، جواہرات اور سونے ے زیورات سے بھری ہوئی۔ ایک قسم ریشمی پردوں سے مزین اور نرم و نازک راحت بخش مخملیں بستروں سے آراستہ۔ اور آخری قسم کھانے پینے کی ہر اس شے سے آراستہ جس کو دیکھ کر منہ میں پانی آجائے۔ مچھیرے نے اپنے آپ سے کہا 6گھنٹے؟ مجھ جیسے غریب مچھیرے کے لئے تو بہت ہی زیادہ مہلت ہے یہ۔ کیاکروں گا میں ان 6گھنٹوں میں آخر؟خیر کیوں نا ابتدکچھ کھانے پینے سے کی جائے؟ آج تو پیٹ بھر کر کھالوں گا ایسے کھانے تو پہلے بھی دیکھے بھی نہیں۔ اور اس طرح مجھے ایسی توانائی بھی ملے گی جو ہیرے، جواہرات اور زیور سمیٹنے میں مدد دے اور مچھیرا خزانے کی تیسری قسم میں داخل ہوا۔ اور ادھر اس نے والی شہر کی عطا کردہ مہلت میں سے دو گھنٹے گزار دیئے۔ اور وہ بھی محض کھاتے، کھاتے اور کھاتے ۔ اس دوران اسکی نظر ہیرے جواہرات کی طرف جاتے ہوئے، مخملیں بستروں پر پڑی، اس نے اپنے آپ سے کہا ۔ آج تو پیٹ بھر کر کھایا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام کر لیا جائے تو اس طرح مال و متاع بھی جمع کرنے میں بھی مزا آئے گا۔ ایسے پر تعیش بستروں پر سونے کاا موقع بھی تو بار بار نہیں ملے گا اور موقع کیوں گنوایا جائے۔ مچھیرے نے بستر پر سر رکھا اور بس پھر وہ گہری سے گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔

اٹھ ۔ اٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہو چکی ہے۔ ہائیں، وہ کیسے؟ جی، تو نے ٹھیک سنا ہے، نکل ادھر سے باہر کو۔ مجھ پر مہربانی کرو ، مجھے کا فی وقت نہیں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔ آہ۔ آہ۔ تجھے اس خزانے میں آئے گھنٹے گزر چکے ہیں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے اور ہیرے جواہرات اکٹھے کرنا چاہتا ہے کیا؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سمیٹ لینے کے لئے کافی وقت دیا گیا تھاکہ جب ادھر سے باہر نکل جاتے تو ایسا بلکہ اس سے بھی بہتر کھانا خرید لیتا اور اس جیسے بلکہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا لیکن تو احمق نکلا۔تو غفلت میں پڑ گیااب باہر نکل جاؤ سمندروں کی وسعت دیکھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔ نکالو باہر اس کو۔ نہیں، نہیں، مجھے ایک مہلت اور دو، مجھ پر رحم کھا ؤ مچھیرے کو وہاں سے باہر نکالا جاتا ہے اور وہ وہی پر رہ جاتا ہے جہاں سے وہ گیا تھا ۔
اب یہاں پر کہانی کا دی اینڈ ہوجاتا ہے کیونکہ کہانی میں اس کے آگے کچھ بچاہی نہیں ہے اگر اپ چاہتے ہیں کہ اس کہانی کی تفصیل میں جایا جائے تو تھوڑی دیر کے بعد کہانی آگے بڑھاتے ہیں اور اس کہانی کو اپنے روزمرہ کی زندگی میں لے آتے ہیں یہ کہانی صرف ایک مچھیرے کی کہانی نہیں یہ ہم سب کی کہانی ہے خواہ وہ امیر ہے خواہ وہ غریب ہے خواہ مرد ہے یا عورت یہ سب کی کہانی ہے اور ہم اس کہانی کے کردار ہیں اور جو قیمتی موتی ہے۔ یہ قیمتی موتی تمہا ری اور ہماری روح ہے یہ سب ابن آدم کی روح ہے یہ سب ضعیف مخلوق کی روح ہے یہ وہ قیمتی چیز ہے جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا، اگر ارب پتی ہوں دنیا جہاں کے خزانے ہوں مگر جب روح ساتھ چھوڑ جائے تو کچھ بھی نہیں رہتا مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے قارون ، فرعون ، شداد، موجودہ دور میں بڑے بڑے رئیس اُن کے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں تھیں مگر جب اس قیمتی چیز نے ساتھ چھوڑا تو وہ مٹی کے ہوگئے کہانی میں جو خزانے کا ذکر کیا گیا ہے اس بارے میں تھوڑا سا معلوم ہوجائے کہ یہ خزانہ کس جانب اشارہ کر رہا تھا۔

اس کہانی میں جو خزانے کا ذکر ہے وہ یہ حرص بھری دنیا ہے جس کے بارے میں ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ ہم اس میں ابدی رہیں گے اور دنیا کے لئے سب کچھ کرتے ہیں، رشتے ناطے توڑتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، پرآسائش زندگی کے لئے کوششوں میں دن رات ایک کرتے ہیں، اپنے مستقبل کو شاندار بنانے کے لئے دھوکہ دہی اور فریب کا راستہ اپناتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی پوری سعی کرتے ہیں۔ اپنے خزانے کو بھرنے کے لئے سب وہ کرتے ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتا۔ یعنی دنیا کے لئے ہم سب بہت کچھ کرتے ہیں جس کو ہم نے ایک دن چھوڑ کر جانا ہے اور یہ سب کچھ اس قیمتی چیز کے جاتے ہیں بے معنی رہ جائے گا جب روح ساتھ چھوڑ جائے گی تو یہ دنیا بے وقعت رہ جائے گی،کیا کبھی اس جانب نگاہ کی ہے کہ جو کہانی میں ہیرے جواہرات کا ذکر کیا گیا ہے وہ کیا ہے یہ وہ ہیرے جواہرات ہیں جو تمہارے کام آئیں گے اس کی وجہ سے ہم سب کی ابدی زندگیوں کا فیصلہ کیا جائے گا کہ جو زندگی ہمیں عنایت اور عطا کی گئی تھی اس میں ہمارے اعمال کیسے تھے یہ ہیرے جواہرات ہمارے اعمال صالحہ ہیں جو ہم اس دنیا میں کرتے ہیں جو راستے ہمارے لئے متعین کئے ہیں اچھا راستہ اور برا راستہ اب ہم کس راستے کا تعین کرتے ہیں کون سے اعمال اپناتے ہیں وہ اعمال جو ہمیں اچھائی کی طرف بلاتی ہے یا وہ اعمال جو ہمیں برے کاموں پر اکساتی ہے دنیا جہاں کی نعمتیں ایک طرف اور اچھے اعمال دوسری طرف ، یہ ابدی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور جو کہانی میں پرتعیش و پر آسائش بستر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے یہ وہ غفلت ہے جس میں انسان پڑا رہتا ہے اور جب وقت نزع آتی ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اسی طرح کھانا اور پینا جو مچھیرے نے کیا وہ کھاتا ہی رہا اور کھاتا ہی رہا وہ ہماری وہ شہوات ہیں جس کو ہم نے اپنے سروں پر سوار کیا ہوا ہے امید ہے اب سب کچھ اور سب کہانی کا مطلب ذہن میں آچکا ہوگا تو اب بھی مچھلی کا شکار کرنے والے دوست اب بھی وقت گزرا نہیں اب بھی وقت ہے خواب غفلت سے جاگ جا چھوڑ دے اس پر تعیش اور آرام دہ بستر کو اور جمع کرنے لگ جاؤ ان ہیرے جواہرات کو جو کہ تمہاری دسترس میں ہیں اس سے قبل کہ جو مہلت مچھیرے کو چھ گھنٹے کی دی گئی تھی پتہ نہیں آپ کو کتنے مہلت کے لئے مہمان بنا کر بھیجا گیا ہے اگر دی گئی مہلت ختم ہوگئی تو کچھ بھی نہیں کر سکوگے صرف ایک حسرت ہی رہ جائے گی اور اس خزانے پر مامور سپاہیوں نے تمہیں ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دینی اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نکال دینا ہے جن میں تو رہ رہا ہے اس لئے اب بھی وقت ہے سنبھل جا اور بدل جا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.