میں پاکستان ہوں

میری پیدائش بہت کٹھن حالات میں ہوئی تھی۔گولیوں کی بوچھاڑ تلوار کی جھنکار اور بموں کی یلغار میں میرے بابا ایک سنجیدہ بردبار عالی دماغ شخصیت تھے جن کی ذہانت کے چرچے ملک سے باہر تک تھے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن کثیر تھے۔میری پیدائش کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے سازش تیار کرلی تھی کہ کسی طرح میری شخصیت کی تعمیر کو روکنا ہے اور تخریب کا دروازہ سدا کھلا رکھنا ہے۔ بالآخر جنگل کا قانون بنا مگر نافذ ریاست میں کردیا گیاتاکہ میں بوسیدہ ذہنیت کے مالکوں کے بنائے نظام حکومت میں پروان چڑھوں اور میری رگوں میں دوڑتا میرے عبقری بابا کا خون ایک دن سفید ہوجائے اور میں اپنا مقصد زندگی بھول کر ان کی اسیری میں رہنے لگوں جو ہوس کے پروردہ تھے۔کالا دھند سفیدکرتے تھے۔ غیروں کے لیے اپنی ہی زمین پر نقب لگاتے تھے۔
میں جوں جوں بڑا ہوتا جارہا تھا۔سازشیں بڑھتی جارہی تھیں۔ چونکہ میری گھٹی میں وحدانیت کا رس تھا،جھوٹے خداؤں کی نفی کا امرت تھا اس لیے مجھے ان کے حکم پر نہ چلنے کی پاداش میں زخم زخم ہونا پڑا ۔میرے جانثار ساتھی کو کھلے عام گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تاکہ میں ڈر جاؤں لیکن میں نہں ڈرا اور ان طالع آزما ،کج کلاہوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا۔ ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ بابا حضور میری پیدائش کے ایک سال بعد ہی وفات پاگئے تھے۔ تبھی دشمنوں کا مجھ سے کھیلنا اور میرے گھر میں ریشہ دوانی پھیلانا آسان ہوا۔انھوں نے مجھے اپنی طرح بے ضمیر اور کرپٹ بنانے کے لیے پوری کوشش کی تاکہ بابا کی پگڑی اچھالی جاسکے۔ہر محکمہ میں اپنے جیسے لوگ بٹھادئیے جو میرے لیے تعلیم سے معاش تک کے حصول کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے میں ان سب سے لڑتا اپنا سفر طے کرتا رہا۔حکومت پہ لنگڑے لولے قابض ہوتے رہے،فوج میں ابن الوقت پیدا ہوتے رہے۔وقت گزرتا جارہا تھا میری عمر بڑھتی جارہی تھی،مجھے توڑنے کی سازشیں عروج پر تھیں،میری حب الوطنی کو داغدار کرنے کے لیے سیاسی مہاشے اور مطلق العنان گٹھ جوڑ کر لیتے اور تھوڑے وقت کے لیے اپنے مفاد کے لیے ایک دوسرے پرکی گئی حاشیہ آراء بھی بھول جاتے بلکہ وقتی طور پر بھلا دیتے گویا سیاست مفاہمت کا حربہ بن چکی تھی،اتحاد بن رہے تھے ٹوٹ رہے جیسے نو کے نو شہاب ثاقب ہوں۔
جوں جوں عمر بڑھ رہی تھی سازشیں بھی بڑھتی جارہی تھیں۔اقتدار
کے حصول کی دوڑ اور ہماہمی میں وقت سرکتا رہا۔میں زخموں سے چور ہوتا رہا۔بابا کے خوابوں کی تعبیر ادھوری تھی،سامراجی مقاصد پروان چڑھ رہے تھے۔سچائی کے پھول رفتہ رفتہ مرجھا رہے تھے،ہم مشرب و ہم پیالہ و ہم نوالہ کب دست و گریباں ہوگئے پتا ہی نہ چلا،مفادات کے بوجھ تلے بنیادیں پامال ہوگئیں تو رشتوں کی دھجیاں تو اڑنی ہی تھیں۔ مفاداتی سیاست کے جھولے میں جھولتے جھولتے کون ڈیڈی کو ماموں بنا گیا پتا ہی نہ چل سکا۔ میری ماں جو قوم کی ماں کہلاتی تھیں۔ انھیں سیاسی سازش نے بیٹے کے ہاتھوں شکست دلوائی اور جب ماں اولاد سے ہار جائے تو تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس موقع پر بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دودھ شریک بھائی بن گئے۔ صرف ذاتی مفاد کے لیے۔ میں دو لخت ہوگیا اور” دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف،اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی” محافظ وطن سر سنگیت زن اور شراب کے ساتھ داد عیش دیتے پائے گئے۔65 کی جنگ میں داد شجاعت دینے والی فوج کا جرنیل پوری نیاز مندی کے ساتھ ہتھیاروں کی نیاز دیتے نظر آیا۔آئین بنا تو اسلامی تھا ترامیم غیر اسلامی تھیں اور پھر 9/11 کے بعد تو جیسے کرم فرماؤں نے اسلام اور اسلام پسندوں کو نو دو گیارہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ہر داڑھی والا دہشت گرد تھا،ہر حجاب والی مشکوک تھی،چن چن کر افراد امریکہ کی تحویل میں دیے گئے۔میں بے بسی کے عالم میں خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے یہ سب دیکھتا رہا ۔میں اکیلا،نوچ کھسوٹ کرنے والے زیادہ،اور پھر یہیں تک تو بس نہ ہوا جامعہ حفصہ کی طالبات کا جہیز اور سنگھار دھرا رہ گیا۔ میں اپنی بیٹیوں کو دلہن بنا دیکھنے کی آس میں کچھ اور جھک گیا پھر میرے معصوم بچے سوات و وزیرستان میں لہو لہان پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سوال کرتے رہے،اور صرف یہی نہیں عاشورہ پہ اجڑی مانگ اور بہتا ہوا کاجل آج بھی سراپا سوال ہے۔اس کا یتیم بچہ اپنے ہاتھوں میں ماں کی ٹوٹی چوڑیاں لیے کھڑا ہے۔ ایسے بہت سے سوال میرے سامنے کھڑے ہیں۔جو مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تم تو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر وجود میں آئے تھے نا؟پھر وہ لاہور کی طالبہ پر حجاب پر پابندی کیوں،تم تو لا الہ کی بنیاد پر وجود میں آئے تو پھر اتنے الہ کیوں،تم تو عدالتوں کو بابا کا قانون دینے آئے تھے تو یہ نا انصافی کیوں؟تم تو مسلمان کو اس کے مقصد وحید سے آشنا کرنے آئے تھے تو دو قومی نظریہ کا قتل کیوں؟استاد حرص و ہوس کا پجاری کیوں؟علم کا بیوپار کیوں ؟قلم کے خریدار کیوں؟تم امن کا پیغام لائے تھے تو لاشوں کے انبار کیوں؟اور میں اکیلا کھڑا سوچ رہا ہوں کہ میں 69 سال کا بوڑھا کیا بتاؤں کہ مجھے میرے اپنوں نے لوٹ لیا،اب تو میری مٹی بھی اپنے پاکستان ہونے کی گواہی مانگتی ہے مگر مجھے لیلۃ القدر کے تقدس کی قسم اب بھی یقین ہے کہ میں اپنی اس اولاد کی کوشش سے کھڑا رہوں گاجو مجھے حقیقی اسلامی اور مضبوط ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔جس کے خلوص اور توجہ نے مجھے اب تک قائم رکھا سو اب بھی وہ مجھے گرنے نہیں دے گی۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.