نرم مزاجی

باسط مزاج کا بہت ہی تیز تھا۔ جس کسی سے بھی بات کرتا، انتہائی بدتمیزی سے مخاطب ہوتا۔ اس کے لہجے میں کبھی بھی نرم مزاجی نہ پائی گئی تھی۔ اگر کوئی اس کے مزاج کے خلاف بات کر دیتا تو وہ بہت جلد غصے میں آ جاتا۔ اس کے سخت مزاج کی و جہ سے اس کے بہت سے دوست اس کی دوستی چھوڑ چکے تھے مگر باسط کو اس کی کوئی پروا نہ تھی۔
باسط عمر چودہ پندرہ سال کے درمیان تھی اس کاتعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد کا ملتان میں کتابوں کا بہت بڑا کاروبار تھا جس کی بدولت انہیں دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ باسط کی سخت طبیعت کا اس کے والدین نے کبھی نوٹس نہ لیا تھا اور نہ ہی اسے بتایا تھا کہ دوسروں سے ایسے لہجے میں بات نہیں کرتے۔
ایک دن باسط ااسکول گراؤنڈ میں بیٹھاتفریح کے وقت کچھ پڑھ رہاتھا۔ اس کے وہی دوست جو کبھی اس کے بہت اچھے ساتھی تھے لیکن اب اس کی سخت مزاجی کی و جہ سے اس سے دوستی ترک کر چکے تھے۔ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اسی دوران اچانک ایک گیند آ کر باسط کی پشت پر لگی۔ اب کیا تھا۔ باسط کا غصے کے بارے برا حال ہوگیا۔ اس نے پیچھے م ڑ کر دیکھا، وحید بیٹ پکڑے پریشان کن نظروں سے باسط کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ باسط غصے سے اس کی طرف بڑھا۔
’’الّو کے پھٹے، اندھے ہو، دیکھ کر نہیں کھیل سکتے……‘‘ قریب پہنچتے ہی باسط نے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’مم……مم…… میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا……‘‘ وحید ڈرتے ہوئے بولا۔’’یہ سب نادانستگی میں ہوا ہے……‘‘
’’بکواس کرتے ہو……‘‘ باسط نے اسے تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں معلوم تھا کہ میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں، پھر تم نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں کیا……؟‘‘
’’باسط……! وحید کی غلطی نہیں ہے۔ کیھل میں تو ایسا ہو جاتا ہے۔ تم اسے کیوں مار رہے ہو……‘‘ عامر نے کہا۔
’’تم بیچ میں مت بولو……‘‘ باسط ترش لہجے میں بولا۔ ’’تم جانتے ہو کہ میری تم لوگوں سے بول چال نہیں ہے اسی لئے تم نے مجھے تنگ کرنے کے لئے ایسا کیا ہے……‘‘
’’باسط۔ اپنی غلطی فہمی دور کرو۔ ہم میں سے کسی کا ایسا ارادہ نہیں تھا……‘‘ اسی لمحے دانیال نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس لئے تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم وحید کو بلاوجہ مار……‘‘
’’تمیز سے بات کرو……‘‘ باسط گڑ گیا۔ ’’میں تم سے بات نہیں چاہتا……‘‘
’’تم سے کون بات کرنا چاہتا ہے، خود کو بولنے کی تمیز نہیں ہے۔ آئے ہیں دوسروں کو تمیز سکھانے……‘‘ دانیال نے بھی غصے سے کہا۔
’’کیا تم مجھے تمیز سکھاؤ گے……؟‘‘ باسط بگڑتے ہوئے بولا۔
اگلے ہی لمحے اس نے دانیال کا گریبان پکڑ لیا اور اسے مارنے لگا۔ دوسرے لڑکے انہیں چھڑانے لگے مگر باسط تھا کہ دانیال کو مسلسل مارے جا رہا تھا۔ آخر کار کچھ اور لڑکوں نے مداخلت کر کے بچ بچاؤ کرایا۔ اس وقت تک دونوں کو معمولی خراشیں آ چکی تھیں۔
’’تمہیں میں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا الّو کے پٹھے……‘‘ باسط گالیاں دینے لگا پھر وہاں سے ہٹا اور اپنی کلاس میں آ گیا۔ غصے سے اس کا جسم کانپ رہا تھا۔
جب وہ گھر آیا تو اس کی اجڑی ہوئی حالت اورگردن پر خراشوں کے نشانات دیکھ کر اس کی امی پریشان ہوگئیں۔
’’باسط! یہ کیا ہوا ہے۔ کس سے لڑ جھگڑ کر آ رہے ہو…… ؟‘‘امی نے پوچھا۔
’’امی کچھ نہیں…… آپ پریشان نہ ہوں……‘‘ باسط نے منہ بنا کر کہا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس کا یہ جواب سن کر اس کی امی حیرت زدہ رہ گئیں۔ انہیں باسط پر بے انتہا غصہ آیا جس نے انہیں انتہائی بدتمیزی سے جواب دیا تھا۔
شام کو جب باسط کے ابو آئے تو باسط کی امی نے انہیں ساری تفصیل بتائی کہ کس طرح باسط نے انہیں جواب دیا تھا۔
’’بیگم! اس میں باسط کا کوئی قصور نہیں ہے……‘‘ باسط کے ابو نے کہا۔
’’کیامطلب، پھر کس کا قصور ہے……؟‘‘ وہ حیرت سے بولیں۔
’’ہمارا قصور ہے……‘‘ باسط کے ابو نے جواب دیا۔
’’ہمارا قصور کیسے ہے……‘‘ وہ ابھی تک حیران تھیں۔
’’بیگم ہم اس کے والدین ہیں اور ہمارا یہ فرض بنتا تھا کہ ہم اپنے بچے کی تربیت کرتے……‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’اگر ہم شروع سے ہی اپنے بچے کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کرتے تو آج ہمارا بچہ انتہائی بدتمیز اور خود سر نہ ہوتا……‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے یں مگر اب کیا کیا جا سکتا ہے ……‘‘باسط کی امی بے بس ہوتے ہوئے بولیں۔
’’بیگم ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا……‘‘ وہ دوبارہ بولے۔ ’’ابھی بھی وقت ہے۔ ہم باسط کو سمجھا سکتے ہیں۔ اس کی تربیت اچھی طرح کرسکتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری لاپروائی سے ہمارا بچہ مزید بگڑ جائے……ابھی وقت ہے…… آؤ……‘‘ اتنا کہہ کر وہ دونوں باسط کے کمرے میں چلے آئے۔ باسط کرسی پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا اپنے والدین کودیکھ کر وہ احتراماً کھڑا ہو گیا۔
’’کیا پڑھ رہے ہو بیٹا……؟‘‘ اس کے ابو نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ابو……‘‘ باسط نے کہا۔
’’بیٹا۔ کیا آج کسی سے لڑائی ہوئی ہے……؟‘‘
’’جی ہاں ابو…… میں اس بدبخت کو نہیں چھوڑوں گا……‘‘ وہ غصے سے بولا۔
’’کس بات پر لڑائی ہوئی ہے بیٹا……‘‘ اس کے ابو نے پیار سے پوچھا۔ جس پر باسط نے ساری بات ابو کو صاف صاف تا دی۔
’’بیٹا…… اس میں لڑنے جھگڑنے کی کیا بات تھی……‘‘ اس کے ابو بولے۔ ’’کیا آپ کی ان سے دوستی نہیں ہے……؟‘‘
’’نہیں ابو…… ان میں سے کوئی بھی میرا دوست نہیں ہے‘‘۔ اس نے جوا ب دیا۔
’’بیٹا! میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ آپ سے دوستی کیوں نہیں رکھنا چاہتے……‘‘ اس کے ابو نے کہا۔ ’’بیٹا اب آپ کے کتنے دوست ہیں……‘‘
’’ابو میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ سب مجھ سے دوستی چھوڑ چکے ہیں……‘‘ باسط مایوس کن لہجے میں بولا۔
’’اس کی بھی ایک وجہ ہے……‘‘ اس کے ابو مسکراتے ہوئے بولے۔
’’کیسی و جہ ابو……؟‘‘ باسط حیرت سے بولا۔
’’بیٹا……‘‘ وہ چند لمحوں کے بعد بولے۔ ’’جس انسان کا مزاج نرم نہ ہو، بات کرنے میں بدکلام اوربدتمیز ہو تو سب لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، تمہیں اس حقیقت کا سامان کرنا پڑے گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تم بہت سخت مزاج ہو۔ تمہارے کلام میں نرمی نہیں ہے، شائستگی نہیں ہے۔ بات بات پر تم غصے میں آ جاتے ہو۔ اگر کوئی تمہارے مزاج کے خلاف بات کر دے تو تم سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ بہت بری بات ہے۔ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔
’’حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں وہ آدمی نہ بتاؤں جس کو آگ پر حرام کیا گیاہو اور جس پر آگ حرام کی گئی ہے۔ وہ نرم کلام، نرم مزاج، نرم خو اور نرم طبیعت انسان ہے……‘‘ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کردار میں پختگی پیدا کریں اور اس حدیث پر عمل کریں تو روزِ قیامت ہمیں اس کا بہت بڑا اجر ملے گا……‘‘
’’ابو! میں بہت شرمندہ ہوں، میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ آئندہ میں کسی کے ساتھ بھی سخت لہجے میں بات نہیں کروں گا……’’پھر وہ امی سے مخاطب ہوا۔’’امی مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کو بھی سخت لہجے میں جواب دیا تھا۔ میں بہت شرمندہ ہوں……‘‘باسط نے اپنی امی سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔
’’شاباش بیٹا! اب کل ااسکول جا کر اپنے ان دوستوں سے بھی معافی مانگنا جن تم نے سے جھگڑا کیا تھا……‘‘ باسط کے ابو نے کہا۔
جی ضرور ابو! میں صبح جاتے ہی ان سب سے معافی مانگوں گا……‘‘ باسط نے مسکراتے ہوئے کہا۔
باسط کے امی ابو ، باسط کی سعادت مندی پر بہت خوش ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.