ہیڈ لائن کامیابی

کامیابی کے عنوان سے ایک شاندار نشست کا اہتمام ہونے جا رہا تھا ۔ حسب معمول دستگیر وقت سے پہلے ہی تعلیمی درسگاہ پہنچ چکا تھا۔ وہ اپنی نگرانی میں ہال میں کرسیوں کو ترتیب سے رکھوا رہا تھا اور صفائی ستھرائی و دیگر معاملات کو بھی دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ہال میں چھائی خاموشی ٹوٹی اور ایک نسوانی آواز ابھری ۔
’’ پروگرام کب شروع ہو گا بھائی ؟‘‘
دستگیر نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ایک نقاب پوش خاتون وقت کے مطابق پہنچ چکی تھی اور وہ پروگرام کے شروع ہونے کے متعلق دریافت کر رہی تھی ۔
’’ بس کچھ ہی دیر میں ‘‘۔ دستگیرنے گھڑی دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔
دستگیر انتظامی امور میں مصروف عمل تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ وہ خاتون ہال کے ایک کونے میں پر سکون ہو کے نماز پڑھ رہی تھی اور اس قدر محبت اور اُلفت سے نماز پڑھنے میں محو تھی کہ وہ حیران رہ گیا۔آج سے پہلے اس طرح کے اس نے جتنے بھی پروگرام کروائے تھے کبھی بھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا کہ کسی ایک نے بھی نماز پڑھی
ہو اور خاص طور پہ ایک خاتون نے ۔
کمپیئر بولے ۔’’خواتین و حضرات !انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں وہ شخصیت جس کا آپ اور میں بہت دیر سے بہت بیتابی سے انتظار کر رہے تھے ، تشریف لا چکے ہیں ،اپنی دھڑکنوں کو سنبھالیں اور ان کا والہانہ استقبال کریں تو آپ کی بھر پور تالیوں کی گونج میں تشریف لاتے ہیں پاکستان کے مشہور و معروف تربیت کار ’’ذیشان یلدرم ‘‘۔
ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ کمپیئر نے نپے تلے انداز میں سبھی کو خوش آمدید کہا اور بغیر کسی وقفے کے ’’ذیشان یلدرم ‘‘ کو تربیت کاری کا درس دینے کیلئے دعوت دی گئی ۔ ذیشان یلدرم نے ہال میں نگاہ دوڑائی ، ایک گہرا سکوت چھا چکا تھا ہر کوئی ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظوں کا دیوانہ تھا اور بعض تو ہاتھوں میں ڈائری لیے بیٹھے تھے تاکہ ان کے قیمتی لفظوں کو محفوظ کر لیں ۔ تربیت کار میٹھی مسکراہٹ سجائے مائیک ہاتھ میں لئے بولنا شروع ہوئے تو یوں لگا جیسے باتوں کے پھول جھڑنا شروع ہو گئے ہوں ۔
’’ذیشان یلدرم ‘‘ کامیابی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ کامیابی کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دنیا کا ہر انسان کامیابی پانا چاہتا ہے ، کامیابی کا مفہوم ہر ایک کے نزدیک جدا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کامیابی ایک خوبصورت تتلی ہے جس
کے تعاقب میں انسان بہت دور نکل جاتا ہے اپنوں سے دور ،اپنی حقیقت سے دور، اپنی بساط سے باہر ، اپنے جامے سے نکل جاتا ہے ، اکثر اوقات وہ کامیابی کی سرمستی میں اپنی عاقبت برباد کر لیتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ انسان ، حیوان ، چرند پرند سب کے سب کامیابی کے حصول کیلئے دن رات کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ ہمیں کامیابی کو پانے کیلئے اپنی سمت درست کرنا ہو گی ، بے سمت انسان کبھی کامیابی نہیں پا سکتا ۔ کسی مقصد کا تعین کر لینا اور اس مقصد کے حصول میں مصروف عمل ہو جانا کامیابی کی طرف لے جاتا ہے ۔
اتنے میں قریبی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی تو وہ کچھ دیر کیلئے چپ ہو گئے ۔ اذان کے بعد وہ دوبارہ سے کامیابی کو پانے کیلئے گر بتانے لگے ۔ تربیت کار نے کامیابی کے مفہوم کو سمندر کے کوزے میں بند کر کے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر ان میں سے کوئی سوال و جواب کرنا چاہتا ہے تو انہیں خوشی ہو گی ۔ دستگیر نے پھر دیکھا کہ وہ خاتون ایک بار پھر خاموشی سے اپنی نشست سے اٹھی اور وضو بنا کر اللہ کے دربار میں حاضر ہو گئی تھی ۔ شرکائے محفل تربیت کار سے اپنی دل کی باتیں کھول کھول کر بیان کر رہے تھے اور وہ تسلی سے ان کے الجھے سوالوں کو نہایت محبت سے سلجھا رہے تھے ۔ خاتون نماز کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اپنی نشست پہ آ ن بیٹھی تھی ۔
اس خاتون نے سوال کرنے کی اجازت طلب کی۔ جب اجازت مل گئی تو اس نے کہا کہ سر ،میں نے آپ کی پوری بات سنی ہے اور نہایت ادب سے کہوں گی کہ آپ نے کامیابی کے حصول کیلئے کامیابی کو اپنی کنیز بنانے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے تو ملا دئیے ، میری طرح اس نوجوان نسل کو اس عارضی دنیا میں کامیاب ہونے کیلئے بہترین سے بہترین گر تو سکھا دئیے مگر افسوس کے آپ نے شاید نہ چاہتے ہوئے بھی اُس حقیقی ، پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی کامیابی کا ذکر تک نہیں کیا ۔
ہال میں اس خاتون کے سوال نے سبھی پہ حیرتوں کے پہاڑ گرا دئیے تھے ، سبھی اس کے اس طرح سے کلام کرنے کو اس کی ہمت کو سرا ہ رہے تھے ۔ وہ بولی۔میں یہاں سہ پہر چار بجے پہنچی ہوں اور تب سے اب تک ہمیں دو بار کامیابی کی طرف بلایا گیا ۔ایک بار پھر نہایت ادب سے کہوں گی کہ افسوس کہ یہاں سے کوئی اٹھ کر نہ گیا ۔ یہاں ہر کوئی کامیابی توحاصل کرنا چاہتا ہے مگر اُخروی کامیابی کی راہ پہ چلنے کو کوئی تیار ہی نہیں ۔ جناب محترم ، یہ کامیابی تو عارضی ہے ، ناپائیدار ہے اگر دنیا و آخرت میں سچی اور حقیقی کامیابی چاہتے ہیں تو آؤ اچھے اعمال سے رب کو راضی کریں تاکہ ہمیں اس دنیا میں بھی کامیابیاں ملیں اور ہماری نجات بھی ممکن ہو سکے ۔
اُس خاتون نے سب کو لاجواب کر دیا تھا اور یہی حقیقت تھی کہ اصل کامیابی ہی یہی تھی جس کی تربیت نہیں دی جاتی ۔ پھر سب کے سب عشاء کی نماز کی ادائیگی کیلئے و ضو بنانے چل دئیے اور کچھ دیر میں مرد و مستورات الگ الگ نماز کی صف بندی میں لگ گئے ۔ یوں کامیابی کا مفہوم صحیح معنوں میں اتر گیا تھا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.