کانچ نگر

زندگی میں زندگی کے ہاتھوں گھائل ہونے والوں کی بے شمار داستانیں بکھری پڑی ہیں جن سے اکثر ہم کنی کترا کر گزر جاتے ہیں مگر کچھ زندگیاں ایسی ہوتی ہیں جنھین قدرت اتفاقاً یا حادثاً قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے جن کے دکھ کو ہم محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور پھر اس مایوسی کے دور میں ہم وہ کردار بھی دیکھتے ہیں کہ جن کا خمیر وفا اور محبت کی مٹی سے گوندھا گیا ہوتا ہے جو محبت وفا اور اعتبار کو بے یقین ہونے سے بچا لیتے ہیں۔
ایسے وقت میں’ جب میں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئی تھی اور اپنی اندرونی کیفیات اور جذبات و احساسات کی شکست وریخت کے سبب اپنا رشتہ قلم قرطاس سے جوڑ چکی تھی کہ اس سے بہتر کوی راستہ اور رشتہ نظر نہ آتا تھا اور تب جب میں یہ سوچا کرتی تھی کہ دنیا بہت بڑی ہے بالحاظ آبادی اور رقبہ کے مگر بہت چھوٹی ہوگئی ہے جب اس میں کوئی انسان تلاش کرنے نکلو تو اسی دوران میں نے ایک ایسا کردار دیکھا جو جیتا جاگتا ہو کر میرے خیالی پیکر کے مطابق بلکہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تھا۔
ان جیسے لوگوں کو ہم اپنی زندگی میں کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔محض اپنے کام کرنے والا سمجھ کر اپنے کام نکلوانے ہی کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ کتنے شیش محل ان دلوں میں آباد ہوتے ہیں یہ پہاڑ جیسے لوگ اندر سے کتنے حساس ہوتے ہیں۔اپنے ہونٹوں کو سی کر آنسووں کو پلکوں کی باڑ کے پیچھے دھکیل کر”آنکھ میں کچھ چلا گیا”کہہ کر ضبط کرنے والے لوگ کانچ کے ہوتے ہیں جو دوسروں کی خاطر دکھ اٹھا اٹھا کر اور دکھ جھیل جھیل کر کندن بن جاتے ہیں اور حقیقت میں یہی انسان کہلانے کے حقدار بھی ہیں۔
ایسی ہی ہستی ہیں وہ بھی جو مجھے پہلی بار 5 جنوری کو میرے اسکول میں ملیں جنہیں دیکھ کر خودبخود ایک لطیف سا احساس جاگا محبت محسوس ہوئی۔
مسکرا کر خیر مقدم کرنے والی آنٹی بھاگ بھاگ کر سب کے کام کرتیں سب کچھ صاف ستھرا ,ہر چیز چمکتی ہوی کوئی ان کے کام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
جب بھی بات ہوتی ہمارے اچھے نصیبوں کی دعا دیتیں اور ہمارے چہروں پر شرمیلی مسکراہٹ پھیل جاتی لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ وہ یہ دعا ہمیں کیوں دیتی ہیں۔سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ ایک بار ذرا تفصیلی ملاقات کا موقع ملااور پتا چلا کہ ان کے شوہر جسمانی و نفسیاتی بیمار ہیں،خود ہی گھر کاخرچ پورا کرتی ہیں،گھر میں معذور ساس کی دیکھ بھال کو بیٹی کو چھوڑ رکھا ہے جسے چاہت کے باوجود میٹرک سے آگے نہیں پڑھا سکیں کہ ان کی ساس اکثر گر جاتی تھیں تو گھر میں کسی کا ہونا لازمی تھا۔باوجود اس کے کہ وہ ایک ذہین بچی تھی اور اسکول کے آنر اس کی تعلیم کا خرچ برداشت کرنے کو تیار تھے- مگر انہوں نے کہا کہ میرا تو گھر سے نکلنا لازمی ہے کہ گھر چلانا ہے مگر میں ایک بوڑھی عورت کی بد دعا نہیں لے سکتی اکیلے میں خدانخواستہ انھیں کچھ ہوگیا تو…….
ستم تو یہ تھا کہ وہ گھر کے ساتھ شوہر اور ساس کی دوا وغیرہ کے اخراجات پورے کرتیں مگر ان کے شوہر کا رویہ ظالمانہ ہی رہتا وہ ایک مرتبہ ان کو جلانے کی کوشش کر چکے اور جب انہیں علیحدگی کا مشورہ دیا گیا تو نھوں حیرت انگیز جواب دیا کہ “نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی وہ بیمار ہیں میں انھیں تنہا چھوڑ کر احساس جرم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتی وہ ایسا دورہ پڑنے پر کرتے ہیں‘‘ میں انھیں دیکھتی ہی رہ گئی اور اس وقت آنسو میری آنکھوں سے آنسو زار و قطار بہنے لگے جب انھوں نے کہا کہ ’’گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی ابو کہتے تھے اس کے اتنے نخرے ہیں کہ شادی کے بعد اس کی بہت شکایتیں آئیں گی اور اب وہ کہتے ہیں کہ میری چھوٹی تو سب سے صابر نکلی اور کانچ نگر میں رہنے والی عورت نے اتنا کہنے کے بعد زوردار قہقہہ ہوا میں اچھال دیا کہ کہیں آنسو نہ چھلک پڑیں۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.



This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.