ادبی خبریں
- ادبی خبرنامہ :سہ ماہی ادب اطفال کی تقریب رونمائی جولائی کے پہلے ہفتے لاہور میں منعقد ہو گی
- ادبی خبرنامہ :محمود ظفر اقبال ہاشمی کا چوتھا ناول ’’میں جناح کا وارث ہوں‘‘ شائع ہو گیا
- ادبی خبرنامہ :3ڈرامے لکھ رہا ہوں،بچوں کا میگزین شروع کرنے کا موڈ ہے: ابن آس
- ادبی خبرنامہ :کہانی میں جان ہو،تاکہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں آخر تک رکھے:منیر احمد راشد
- ادبی خبرنامہ :پھول بھائی نے دلبرداشتہ ہو کر بچوں کے ادب سے کنارہ کشی اختیار کرنیکا فیصلہ کر لیا
- ادبی خبرنامہ :لکھاری سیریز بہت اچھا سلسلہ ہے: نذیر انبالوی
- ادبی خبرنامہ :احمد فراز لائبریری میں ادیبوں کے نام سے کارنرز بنائے جائیں گے: قاسم بگھیو
- ادبی خبرنامہ :عرفات ظہور کے سسر انتقال کر گئے
- ادبی خبرنامہ :خبر کی سچائی شام تک مگر ادب کی سچائی ہمیشہ کیلئے ہوتی ہے:افتخار عارف
- ادبی خبرنامہ :نئے لکھاری عاطف حسین کا مستقل لکھنے کا فیصلہ
انداز بیان
اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے شام کے وقت سفر کیا کرتے تیری مصروفیتیں جانتے ہیں اپنے آنے خبر کیا کرتے جب ستارے ہی نہیں مل پائے لے کر ہم شمس و قمر کیا کرتے وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا سائے پھیلا کر
انداز بیان
میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں سرِ محفل نگاہیں مجھ پہ جن لوگوں کی پڑتی ہیں نگاہوں کے معانی سے وہ چہرے یاد رکھتاہوں ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں
فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جانِ سفر کچھ اور دُور ذرا ساتھ چل کے دیکھے ہیں رہِ وفا میں حریفِ خرام کوئی تو ہو سو اپنے آپ سے
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے ہم کو جانا ہے شام سے پہلے پہلے نو گرفتارِ وفا سعئی رہائی ہے عبث ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام
اے فکر کم نشاں مری عظمت کی داد دے
اے فکر کم نشاں مری عظمت کی داد دے تسلیم کر رہا ہوں میں تیرے وجود کو اے شورِ حرف و صوت مجھے بھی سلام کر توڑا ہے میں نے شہرِ غزل کے جمود کو اے وسعتِ جنوں مری جرأت پہ ناز کر میں نے بھلا دیا ہے رسوم
آئینہ اب جدا نہیں کرتا
آئینہ اب جدا نہیں کرتا قید میں ہوں رہا نہیں کرتا مستقل صبر میں ہے کوہِ گراں نقشِ عبرت سدا نہیں کرتا رنگِ محفل بدلتا رہتا ہے رنگ کوئی وفا نہیں کرتا عیشِ دنیا کی جستجو مت کر یہ دفینہ ملا نہیں کرتا
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے مگر جینے کی صورت تو رہی ہے میں کیوں پھرتا ہو تنہا مارا مارا یہ بستی چین سے کیوں سر رہی ہے چلے دل سے امیدوں کے مسافر یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں
ہوتی ہے ترے نام سے وحشت کبھی کبھی
ہوتی ہے ترے نام سے وحشت کبھی کبھی برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی ترے قریب رہ کر بھی دل مطمئن نہ تھا گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا یوں بھی گزر گئی